نجکاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ


آج کل پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے درمیان نجکاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر اختلافات زیر بحث ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے اور ان میں سے کون سا نظام بہتر ہے۔

نجکاری کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے زیرانتظام ادارے نجی شعبے کو فروخت کر دیے جائیں جبکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں حکومت نجی اداروں سے معاہدہ کرتی ہے اور اپنے ادارے چلانے کے لیے ان نجی کمپنیوں کے حوالے کر دیتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اپنا مکان کسی کو رہنے کے لیے کرائے پر دے دیا جائے۔ ان دونوں صورتوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ حکومت اپنے ادارے خود چلانے میں ناکام ہو گئی ہے اور وہ تسلیم کر لیتی ہے کہ وہ نا اہل ہے۔

نجکاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھیے سرکاری اسکول یا ہسپتال نجی اسکولوں یا ہسپتالوں کے مقابلے میں بہت بری کارکردگی پیش کر رہے ہیں۔ یہ ایک عمومی رجحان ہے کہ لوگ بہتر سہولیات سے مستفید ہونے کے لیے نجی اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کرواتے ہیں اور نجی ہسپتالوں سے اپنا علاج کرواتے ہیں۔

پیپلز پارٹی سندھ میں بہت سے ادارے نجی شعبے کے ساتھ مل کر بظاہر کامیابی کے ساتھ چلا رہی ہے۔ ان اداروں میں عوام کو اعلٰی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اس کے ذریعے عوام کے مسائل حل ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے صحت کارڈ کے ذریعے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی اور عوام کو مہنگے نجی ہسپتالوں میں علاج کی مفت سہولیات میسر ہونے لگیں۔ لیکن کیا یہ عوام کے مسائل کا مستقل حل ہے؟

جی نہیں یہ مستقل حل تو بالکل نہیں ہے لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہر جگہ مافیا راج ہو، وہاں عوام کو کچھ سکون تو مہیا ہونا چاہیے۔ پیپلز پارٹی اپنے بنیادی نعرے سوشلزم ہماری معیشت ہے سے محترمہ کے دور میں ہی منحرف ہو گئی تھی۔ لیکن یہ نعرہ اب بھی دستاویزی طور پر اس جماعت کے بنیادی نکات میں موجود ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود پاکستان کی واحد جماعت ہے جس کی جڑیں محنت کش طبقے میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نچلے ترین طبقات کو ریلیف پہنچانے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہر شعبے میں مافیا راج ہے اگر کوئی حکومتی سطح پر مزدوروں کے لیے کچھ کرتا ہے تو اسے سراہا جانا چاہیے۔ ہم پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ لیکن اس نے پہلے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور اب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی صورت میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے والے عوام کے دکھوں کا کچھ ازالہ تو کیا ہے۔

میں ہر روز سوشل میڈیا پر دانشوروں کی آراء پڑھتا ہوں جن میں وہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا یہ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں کہ غریب کو مفت کی روٹیاں توڑنے کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ متوسط طبقے کی اس بے حسی پر میرا دل سر پیٹنے کو کرتا ہے جسے اکثریتی طبقے کے حالات کا ذرہ برابر احساس نہیں ہے۔ نچلے طبقے کا بڑا دکھ یہ ہے کہ اس کی کوئی آواز ہی نہیں ہے۔ غربت، مفلسی، بیماری اور کم علمی نے اسے ایک زندہ لاش بنا کر رکھ دیا ہے۔

پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جو بائیں بازو کی طرف کچھ رجحان رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بائیں بازو کے بہت سے سیاسی کارکن اب بھی اس جماعت سے وابستہ ہیں۔ باقی سب جماعتیں مکمل طور پر اور کھل کر سفاک سرمایہ داری کی حامی ہیں۔ ایسے میں غریب آدمی کی نظریں ہمیشہ پیپلز پارٹی پر ہی ٹکی رہتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں ہزاروں خواتین کئی گھنٹوں تک طویل قطاروں میں ایک امید کے سہارے کچھ رقم حاصل کرنے کے لیے کھڑی رہتی ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی دوسری انقلابی جماعت کی غیرموجودگی میں ہمیں پیپلز پارٹی کے ان اقدامات سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور نہ چاہتے ہوئے بھی گمبٹ، ایس آئی یو ٹی اور دیگر اداروں میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی حمایت کرنی چاہیے۔ سرمایہ دار مافیا کبھی کوئی کام اپنے مالی مفادات کے خلاف نہیں کرتا لیکن یہ بہت واضح ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں لاکھوں غریبوں کا مفت تعلیم اور علاج کے ذریعے خیال رکھ رہی ہے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بدولت بہت سے گھروں کا چولہا جل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ ان منصوبوں کو بند کرنا اب دوسری جماعتوں کے بس میں نہیں رہا اور وہ انہیں جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments