کیوں” کی ہماری زندگی میں اہمیت”


وائے یعنی کیوں کو ہماری زندگی میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ چاہے ہم کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ’کسی بھی عہدے پر فائز ہوں یا عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں یہ ہمارا وائے ہمیں متحرک رکھتا ہے کیونکہ یہ ہمارے جینے کی وجہ ہوتا ہے۔

فریڈرک نطشے لکھتے ہیں کہ: ”جس کے پاس جینے کی کوئی بھی وجہ ہے وہ ہر طرح کی صورتحال کا مقابلہ کر سکتا ہے۔“

ہر انسان کا وائے یعنی کیوں ضرور ہوتا ہے جو اسے نہ صرف اکساتا ہے بلکہ مُضطَرِب بھی رکھتا ہے۔ اس کے دماغ میں کئی سوال ابھرتے ہیں جیسا کہ میں یہ کام کیوں کروں ’آخر کیوں‘ میں ہی کیوں ’مجھے اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا‘ آخر میری زندگی کا مقصد کیا ہے ’میں ناکام کیوں ہوا‘ کیوں میں مختلف ہوں ’کیوں اس کیفیت سے گزر رہا ہوں‘ میری سوچ ایسی کیوں ہے ’میں محنت کیوں کروں‘ ایسا کیوں ہے ویسا کیوں ہے ’یہ کیوں ہے‘ وہ کیوں نہیں ہے وغیرہ وغیرہ اور ان جیسے بہت سے سوالات ہمیں گھیرے رکھتے ہیں جب ہم اس کیوں کو تلاش کرتے ہیں تو ہم پر بہت سارے راز کھلتے چلے جاتے ہیں اور پردے اٹھتے چلے جاتے ہیں۔

ہم میں سے بیشتر لوگ زندگی کے سفر میں بس چلتے چلے جاتے ہیں ’دوسروں کی دیکھا دیکھی یا ان کے لائف اسٹائل سے متاثر ہو کر‘ لوگوں کی باتوں کو خود پر حاوی کر کے ’یا پھر رجحان کی پیروی کرتے ہوئے اپنی منزل‘ مقصد یا کیریئر کا تعین کرتے ہیں۔ دراصل وہ جان ہی نہیں پاتے کہ ان کا دل کیا چاہتا ہے ’وہ کیا کرنا چاہتے ہیں‘ ان کا کیوں کیا ہے ’وہ کون سی بات‘ چیز یا کام ہے جو ان کو سکون ’اطمینان و خوشی دیتا ہے حتٰی کہ وہ اپنی پوری زندگی دوڑتے دوڑتے گزار دیتے ہیں‘ لوگوں کے کہنے پر کام کرتے رہتے ہیں لیکن اپنے اُس وائے کو پہچان ہی نہیں پاتے اور ان کو آگاہی نہیں ہو پاتی کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں اور کب تک کرتے رہیں گے۔ جب معلوم ہی نہ ہو تو پھر کیسے اپنے کیوں کو ڈھونڈ پائیں گے یا اس پر کام کر سکیں گے۔

اس کے برعکس وہ لوگ جن کو اپنے وائے کا اچھی طرح ادراک ہوتا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ’کیوں چاہتے ہیں وہ کامیابی کی طرف چل پڑتے ہیں۔ پھر ان کو کوئی طاقت‘ مشکل ’مصیبت‘ آفت ’آندھی یا طوفان اپنے مقصد کو حاصل کرنے سے روک نہیں سکتی۔ وہ اپنی دھن میں اپنے کیوں کے پیچھے چلتے چلے جاتے ہیں۔

اگر ہمیں اپنا مقصدِ حیات مناسب وقت پر معلوم ہو جائے تو پیش قدمی کی سَمت واضح ہو جاتی ہے۔ لیکن صرف اس مقصد یا وائے کا معلوم ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ یہ اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ اس کو حاصل کرنے میں جو مشکلات آئیں ان کا سامنا کرنے کے لیے یہ ہمیں ہمت بھی دے سکے۔

یہ وائے یعنی ہمارا کیوں یا مقصد ’ہی وہ وجہ ہے جو ناکامی اور مایوسی کے لمحات میں جب ہم امید کھو دیتے ہیں اور چاروں طرف صرف اندھیرا ہی نظر آتا ہے ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہم نے یہ خار دار راستہ کیوں اپنایا تھا‘ وہ کون سے مُحَرکات تھے جن کی وجہ سے ہم نے اس سفر کا آغاز کیا تھا۔ ہم سب کی زندگی میں ایسا وقت ضرور آتا ہے جب ہم ہمت ہار دیتے ہیں لیکن ہمارا مضبوط کیوں ”وائے“ ہمیں حالات سے لڑنے کی ہمت دیتا ہے تاکہ ہم وہ سب حاصل کر سکیں جس کے لیے یہ جستجو شروع کی تھی۔

اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو یہ کیوں ہی ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہم ناکام کیوں ہوئے ’غلطی کہاں ہوئی‘ اور کہاں سے دوبارہ نئی حکمتِ عملی کے ساتھ شروع کیا جاسکتا ہے۔ یہ ”کیوں“ ہی ہے جو ہمیں مایوس ہو کر اپنے مقصد سے ہٹنے کی بجائے دوبارہ سے نئے سرے سے کھڑے ہونے اور جدوجہد کرنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔

آج تک جتنی بھی ایجادات ہوئیں ان سب کے پیچھے کسی نہ کسی کا کیوں ہی کارفرما رہا ہے اور اگر وہ کیوں نہ ہوتا تو ہمارے پاس یہ تمام آسائشیں نہ ہوتیں اور نہ ہی ہم ترقی کر پاتے اور اُسی پتھروں کے زمانے میں رہ رہے ہوتے۔

کیوں (وائے ) لوگوں کے اردگرد گھومتا ہے اگر ہم جان جائیں کہ درست کیوں کیا ہے تو کبھی ناکام نہ ہوں۔ یہ صرف ایک شخص پر ہی نہیں بلکہ بڑی بڑی کمپنیوں ’کاروباری شخصیات‘ سیاستدانوں وغیرہ پر بھی لاگو ہوتا ہے کیونکہ وہاں بھی فیصلے لینے والا کوئی نہ کوئی شخص ہی ہوتا ہے جس کا ”کیوں“ بہت ساری زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کسی سی ای او کا ایک غلط کیوں جو اس کی اپنی سوچ پر منحصر ہے پوری کمپنی پر تالے لگوا سکتا ہے۔

ہمارے ہاں بدقسمتی سے ہر شخص انفرادی فائدے کا سوچتا ہے لیکن جو بڑی سوچ کے مالک ہوتے ہیں ’تخلیقی دماغ رکھتے ہیں وہ اپنا فائدہ نہیں دیکھتے بلکہ ان کا کیوں بہت بڑا‘ منفرد اور انوکھا ہوتا ہے جس سے دنیا اِستِفادَہ کرتی ہے۔

یاد رکھیں کہ ہمیں ہمیشہ مثبت اور بڑا سوچنا چاہیے۔ آپ آج سے غور کریں اپنا مشاہدہ کریں کہ آپ کا کیوں یعنی ”وائے“ کیا ہے اور کیا وہ اتنا بڑا اور مضبوط ہے کہ آپ کو جدوجہد ’تگ و دو کرنے کے لیے ہمت و حوصلہ دے سکے اور آپ کو مایوسی سے نکال سکے‘ سب سے بڑھ کر یہ سوچیں کہ آپ کے اور کامیاب لوگوں کے کیوں میں کیا فرق ہے۔

خوش رہیں ’خوشیاں اور آسانیاں بانٹنے والے بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments