فکر اقبال کی عصری معنویت


اقبال کے نزدیک زیادہ اہم عبادت ہے پھر وہ اللہ کے بندوں کے کام آ کے کریں یا سجدہ زیر ہو جائیں۔ لیکن رب کو پہچان کر ہی انسان انسانیت کے اونچے درجے کو پا سکتا ہے۔ اقبال کے کلام میں اس کے دیے گئے تصورات کو سامنے رکھیں تو ان میں بھی ہمیں عصری معنویت کا ہی پرتو ملے گا۔

تصور عقل و دل، تصور عشق، تصور خدا، تصور خودی و بے خودی، تصور زندگی، تصور بندگی، تصور حضرت انسان، تصور شاہین، تصور ابلیس، الغرض جتنے بھی اقبال کے کلام تصورات پائے جاتے ہیں ان میں عصری ہم آہنگی کا پہلو نمایاں ہے۔ اقبال نے مولانا روم سے متاثر ہو کہ جو کلام فارسی میں لکھا اس میں تو اردو کلام سے زیادہ عصریت کا عنصر پایا جاتا ہے۔

ہم اقبال کی اردو نظموں میں عصری معنویت کی پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقبال کی نظم ”ساقی نا مہ“ کی مثال دیکھتے ہیں۔ یہ ایک طویل نظم ہے جو ننانوے اشعار پر مبنی ہے۔ اس نظم میں اقبال مسلمانوں کو اس دور کے تقاضے کے مطابق آگاہ کرتے ہیں کہ

حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب
مگر لذت شوق سے بے نصیب
بیان اس کا منطق میں سلجھا ہوا
لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا

اس نظم میں متعدد اشعار اسی طرح کے ہیں۔ جس میں اقبال نے مسلمان کو گمراہ ہونے سے آگاہ کیا ہے۔ یہ اس دور کا تقاضا تھا کی مسلمانوں کے درمیاں کوئی ایسا انسان ہو جو ان کو اچھے اور برے کا فرق اور تمیز سکھائے۔ یہ سب کام اقبال نے بخوبی نبھایا۔ اقبال کی یہ نظم آج کے مسلمانوں کو بھی ایسے ہی جھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہے جیسا کے گزرے ادوار میں ہوا۔

اقبال کی نظم ”خضر راہ“ میں ہم اس موضوع کو تلاش کرتے ہیں۔
جاوداں، پیہم داں، ہر دم جواں ہے زندگی
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

اقبال نے اس شعر میں بھی عصری آگہی کو اجاگر کیا ہے۔ انسان کے اندر کوشش محنت کا جذبہ موجود ہے تو وہ زندوں میں شمار ہوتا ہے۔ ہر دور کے مسلمان کو بلکہ ہر انسان کو ہی اپنی زندگی خود بنانا ہوگی۔ اپنی محنت کے بل بوتے پہ ہی اسے اپنی زندگی گزارنا ہوگی۔ اقبال کا کہنا ہے کہ دور کوئی بھی ہو لوگ کیسے ہی کیوں نہ حالات جو بھی ہوں انسان کو ہر وقت اپنا محاصرہ کرتے رہنا چاہیے۔ جو انسان خودی کو سمجھ جاتا ہے وہ زندگی کے ایک بڑے راز کو پا لیتا ہے۔

اقبال کی نظم ”طلوع اسلام“ میں دیکھیں تو اس میں بھی اقبال نے وقت اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو ان کے مقصد حیات کو پہچاننے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرے خیال میں یہ نہ صرف اس دور کی ضرورت تھی بلکہ آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں بھی اقبال کے ان خیالات کی اہمیت مسلمہ ہے

تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا رازداں ہو جا خدا کا ترجمان ہو جا
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زبان ہو جا

یہ نظم بھی اقبال کی بلند فکری کی مظہر ہے۔ اقبال نے اپنے دور کے اس وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نظم کہی اور یہ نظم آج بھی اسی قدر اہم اور مسلمہ حقیقت کی حامل ہے۔ مسلمان کسی بھی دور کا ہو اسے اس راز کو جاننا ہو گا کہ اس کی تخلیق کا راز کیوں ہے۔ اسے خدا نے زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے اور انسان کا جو فرض ہے اسے اس سے غافل نہیں ہونا ہے۔ اقبال کی نظم ”ذوق شوق“ کو سامنے رکھیں تو اس میں بھی ہمیں تقریباً ہر مصرع ہی عصری معنویت سے بھرپور نظر آتا ہے۔

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب
تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے
طبع زمانہ تازہ کر گردش آفتاب سے

اقبال نے طویل نظموں میں اور مختصر نظموں میں بھی اس خیال کو پیش کیا ہے۔ ان کے ہاں زمانے کی گردش کے ساتھ ساتھ ہی انسان کو چلنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ جس طرح وقت کسی کے لئے نہیں رکتا اسی طرح جو بھی دور ہے زمانے کی گردش ہے اس نے بھی نہیں رکنا اس کے ساتھ جڑے رہنے کے لئے انسان کو خود کو تیار کرنا ہو گا۔ اسے محنت کرنا ہوگی کہیں وقت کی دھول میں انسان اپنی ذات کو گم نہ کر بیٹھے۔ اسی لئے اقبال نے مسلمانوں کو ہمیشہ وقت کی رفتار کے ساتھ دوڑنے کا فن سکھانا چاہا ہے۔ اقبال کے یہ افکار بھی زمانے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔

اقبال کی فطرت پہ مبنی اشعار بھی عصر ہی کی عکاسی کرتے ہیں۔ پہاڑ، گلہری، مکڑا، مکھی، ہمالہ، قرطبہ، یہ سب ایسے موضوع ہیں جو ہر دور کے عکاس ہیں اور ہمیشہ ایسے ہی زندہ رہیں گے۔ ان موضوعات میں اقبال نے وقت کو قید کر دیا ہو جیسے کیوں کہ یہ نظمیں جب بھی جس بھی زمانے میں پڑھیں جائیں اسی ہی کی لگتی ہیں۔

حمید شاہد نے اقبال کے افکار میں عصری معنویت کی پہلو کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ وہ کچھ اس طرح سے اقبال کے فکر کی تقسیم کرتے ہیں کہ پہلے نمبر پہ وہ اقبال کی اپنی جو فکری اور تخلیقی صلاحیت ان کی شخصیت کا خاصا ہے اس کی بات کرتے ہیں اس کے بعد دوسرے نمبر پہ وہ لکھتے ہیں کہ فکر اقبال میں ایک جو بڑا حوالہ ہے وہ مذہب کا ہے۔ تیسرے نمبر پہ ان کا یہ کہنا ہے کہ فکر اقبال اور دو قومی نظریہ بھی عصری معنویت کی بدولت وجود میں آیا ہے۔ چوتھے نمبر پہ وہ اقبال کی عصری معنویت کو ربط و ضبط ملت کے ساتھ جوڑتے ہیں اور پانچویں نمبر پہ وہ اقبال کے کلام میں اس پہلو کو معاصر عالمی منظر نامے کے ساتھ ملاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اقبال کے اس پہلو پہ میں نے بھی اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق یہ چند سطریں لکھنے کی جسارت کی ہے۔ اب میں کس حد تک موضوع کو اپنی گرفت میں لے سکی یہ آپ جیسے ذہین فطین عقل و دانش کے مالک ہی بتا سکیں گے۔ آخر میں اقبال کے اس شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گی کہ

موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments