ایک اور صحافی کو شہید کر دیا گیا


سندھ کے شہر گھوٹکی میں ایک سندھی اخبار کے صحافی نصراللہ گڈانی کو گولیاں مار کار شہید کر دیا گیا ہے۔ شہید نصراللہ کو جب گولیاں لگی تو اسی وقت اس کو رحیم یار خان کی ہسپتال داخل کرایا گیا تھا اور اس کے بعد ائر ایمبولنس کے ذریعے کراچی کی نجی ہسپتال میں لایا گیا مگر اس وقت دیر ہو چکی تھی اور کچھ ہی گھنٹوں میں نصراللہ گڈانی ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے۔ شہید نصراللہ گڈانی ایک غریب انسان تھا لیکن وہ ایک بہت بڑا صحافی تھا۔

وہ اپر سندھ کے وڈیرے اور سرداروں کو للکارتا تھا۔ پولیس افسران کو وہ کہتا تھا اگر آپ سندھ میں کرائم ختم نہیں کرا سکتے تو کرسی چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ اس کا کہنا تھا پولیس اور سندھ کے سردار اور وڈیرے مل کر سندھ میں لوگوں کو مرواتے ہیں اور اغوا کراتے ہیں۔ ان کی باتوں میں بہت کچھ صداقت بھی تھی۔ اپر سندھ میں ڈکیتوں کو ان سردار اور کرمنل وڈیروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اور افسوس کی بات یہ ہے ان کرمنل وڈیرے اور سرداروں کو سندھ حکومت کی مکمل سپورٹ ہے۔

کافی سردار تو ایم پی ای اور ایم این ای ہیں ان پر پیپلز پارٹی کی حکومت ہاتھ ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ کچھ دن پہلے نصراللہ گڈانی نے ہمارے آرمی پر بھی طنزیہ وی لاگ کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ہمارے ملک کی فوج سارے کاروبار کرتی ہے۔ اس نے سارے کاروباروں کا نام بھی لیا تھا اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے بھی لگائے تھے۔

ہمارے ملک میں بہت ساری صحافی کام کرتے ہے اور ان میں اکثر تو کسی موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے ان سے حکومت کا وزیر یا سردار ناراض نہ ہو جائے۔ لیکن نصراللہ گڈانی بہت دلیر اور سچا انسان تھا اور اس نے یہ تک کہا تھا کہ میری زندگی کا کوئی فائدہ نہیں اور مجھے مارنے سے کسی کو فائدہ ہوتا ہے تو مجھے مار دو۔ وہ ڈکیتوں سرداروں اور وڈیروں کے خلاف بڑی دلیری سے بات کرتا تھا۔ ایسے سچے لوگ ہمارے معاشرے میں ویسے بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ ان کا پورا معاشرہ دشمن ہو جاتا ہے۔ ملک میں اکثر چھوٹے صحافی بھی امیر ہو جاتے ہیں۔ کسی کرمنل کی اسٹوری کو چھپا کے یا کسی کی اسٹوری چلا کہ وہ امیر ہو جاتے ہیں مگر نصراللہ گڈانی کے بچے پڑوس سے اپنے لیے سالن مانگ کر کھاتے تھے۔ یہ بات شہید نصراللہ گڈانی کی والدہ نے کہی ہے۔ اس کا کہنا تھا نصراللہ غریبوں کے بچوں کے لیے بات کرتا تھا مگر ان کے اپنے بچے پڑوس سے کھانا لے کر کھاتے تھے۔

سندھ کے لوگ نصراللہ گڈانی کی قتل پر بہت غصے میں ہیں، اس وقت نصراللہ گڈانی کی میت کو ان کے آبائی گاؤں گھوٹکی کی طرف لیا جا رہا ہے۔ سندھ کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں میت کی گاڑی کو روک کر لوگ اس پر پھولوں کی پتیاں پھینک رہے ہیں۔ جامشورو میں سندھ یونیورسٹی کے بچوں نے میت والے گاڑی روک کر اس پر پھولوں کی پتیاں پھینکی اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور مطالبہ کیا کہ نصراللہ گڈانی کے قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور ان کو سخت سزا دی جائے۔

ایسے بہادر صحافیوں سے کرمنل لوگ ہمیشہ ڈرتے ہیں اس لیے ان کو مار کر راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔

کچھ مہینے پہلے بھی ایک بہادر صحافی جان محمد مہر کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ابھی تک صحافی احتجاج کر رہے ہیں مگر ان کو انصاف نہیں مل سکا۔ جان محمد مہر بھی ڈاکوں کے بارے میں لکھتا تھا اور ان کا بھی یہ ہی خٰیال تھا کہ ڈکیتوں کو سندھ کے سردار اور وڈیرے پالتے ہیں۔ اس لیے اس کو بھی راستے سے ہٹا لیا گیا۔

ویسے تو پورے ملک کے حالات اتنے اچھی نہٰیں مگر سندھ حالات کافی کشیدہ ہے۔ سندھ میں صرف 2024 میں 678 لوگ قتل ہوئے ہیں۔ کارو کاری کے 37 واقعات ہوئے ہیں جس میں اکثریت لاڑکانہ ضلع میں ہوئے ہیں 53 لوگ اغوا برائے تاوان ہوئے ہیں۔ زنا کے 123 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ پولیس رکارڈ کے مطابق یہ کیس صرف 15 مارچ کے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ کے حالات کتنے خراب ہیں۔

مین آخر میں سندھ حکومت سے گزارش کروں گا کہ شہید نصراللہ گڈانی کے بچوں کی تعلیم کے لیے بندوبست کرے، اور ان کی مالی مدد کی جائے ان کے بچے بہت چھوٹے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments