پاکستانی میڈیا امام کعبہ کو نہیں جانتا


امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد بن ابراہیم آل طالب پاکستان پہنچے ہیں۔ وہ اپنے قیام کے دوران مختلف دینی اجتماعات سے خطاب کے علاوہ اعلی حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔ گزشتہ روز ان کی آمد اور استقبال کے حوالے سے جو تصویر بڑے پاکستان اخبارات میں چھپی ہے اس میں امام کعبہ موجود ہی نہیں ہیں۔ روزنامہ جنگ، نوائے وقت، دنیا سمیت تمام اخبارات نے گورنر خیبر پختواہ اقبال جھگڑا کے ساتھ جس شخصیت کو امام کعبہ لکھا ہے وہ دراصل سعودی وزیر برائے مذہبی امور الشیخ صالح آل شیخ ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ مسلمانوں کے مقدس ترین مقام بیت اللہ شریف کے امام کے متعلق اس قدر لاپروائی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ کسی نے ذرا سی بھی تحقیق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ پاکستانی میڈیا امام کعبہ کے نام پر بھی ”متفق “ نہیں ہوسکا۔ ہر اخبار اور ٹی وی چینل نے اپنی مرضی کا نام چلایا ہے۔ فرنٹ پیج کی تصاویر میں امام کعبہ کا نام ” الشیخ صالح بن ابراہیم“ لکھا گیا ہے حالانکہ ان کا نام ” الشیخ صالح بن محمد “ ہے۔ دوسری جانب زیادہ تر اخبارات نے تو ان کا نام تک لکھنا گوارا نہیں کیا۔ پاکستان کے کثیر الاشاعت روزنامہ جنگ نے تو ایک اور بڑا کمال یہ بھی کیا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے خصوصی ایڈیشن میں ایک مضمون امام کعبہ کی شخصیت کے بارے موجود ہے۔ حیران کن طور پر اس ایڈیشن میں پورا مضمون ایک دوسرے امام کعبہ ” الشیخ سعود الشریم“ کے بارے میں شائع کر دیا گیا ہے جبکہ یہاں تصویر پاکستان کے دورے پر آئے امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد آل طالب کی لگائی ہے۔

ناموں کے تضاد اور تصاویربدلنے کے ساتھ ساتھ امام کعبہ کے دورے سے قبل بھی من مرضی کی خبریں شائع کیں جاتی رہیں۔ روزنامہ ایکسپرس نے گزشتہ روز فرنٹ پیج پر خبر چھاپی کہ امام کعبہ الشیخ عبدالرحمن السدیس پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ حالانکہ کئی روز قبل ہی یہ واضح ہو چکا تھا کہ پاکستان الشیخ صالح بن محمد آل طالب آئیں گے۔اس سے آپ پاکستانی میڈیا کی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔عالم اسلام کی معتبر ترین شخصیات کے بارے ان کی معلومات کو اکیس توپوں کی سلامی دینے کو جی چاہتا ہے۔ اسی طرح کئی اخبارات نے پاکستان پہنچنے والے امام صاحب کے ساتھ ” نائب“ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ حالانکہ بیت اللہ شریف کے کسی امام کے ساتھ نائب کا لفظ نہیں لکھا جاتا۔ سب کے ساتھ امام ہی لکھا جاتا ہے۔ شاید اس بارے تحقیق کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی گئی کہ مسجد الحرام بیت اللہ شریف کے ساتھ بیک وقت بارہ کے قریب امام منسلک ہوتے ہیں جو مختلف نمازوں کی امامت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔

پاکستانی میڈیا کی دینی طبقے کے بارے بے احتیاطی اور لاپروائی کی ایک انتہائی خطرناک مثال چند روز قبل اس وقت بھی سامنے آئی تھی جب افغانستان میں امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بننے والے القاعدہ رہنما ” قاری یاسین“کے بارے میں خبر نشر کی گئی۔اس خبر کے ساتھ ملک کے ایک معروف پنجابی خطیب ” قاری یاسین بلوچ“ کی تصویر چلائی گئی۔ میڈیا کے لئے شاید وہ غیر معروف ہوں لیکن ملک بھر سمیت بیرون ملک لاکھوں لوگ ان کو جانتے ہیں۔ آپ یہ سن کر حیران رہ جائیں گے کہ ملک کے سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی نیوز نے بھی یہ غلط تصویر بار بار چلائی۔آج نیوز، ابتک نیوز، اے آر وائی دیگر چینل کا بھی یہی حال تھا کہ انہوں نے گوگل پر سامنے آئی ایک معروف عالم دین کی تصویر کو ہی گمنام القاعدہ رہنما کے ساتھ جوڑ دیا۔ اب و ہ بیچارے عالم دین اپنے دوست احباب کو یقین دلا دلا کر تھک چکے ہیں کہ وہ نہ تو افغانستان میں ” جاں بحق“ ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کا تعلق کبھی القاعدہ سے رہا ہے۔

میڈیا میں بھی انسان ہی کام کرتے ہیں اور غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے لیکن بات ہے سنجیدگی اور توجہ کی۔ کئی ٹی وی چینلز میں کام کرنے اور میڈیا کا ایک مستقل ناظر و قاری ہونے کے باوجود یاد نہیںآ رہا کہ کبھی کسی فلمسٹار یا کھلاڑی کے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا گیا ہو۔ تمام مشکل سے مشکل نام اور ملتی جلتی تصاویر، بھاری میک اپ میں ڈوبے چہروں کو بھی باآسانی پہچان لیا جاتا ہے۔ نام لیتے ہوئے زیر زبر اور لہجے تک کی غلطی نہیں ہوتی۔ یہ معاملہ سراسر توجہ اور سنجیدگی کا ہی ہے ورنہ اتنے بڑے بڑے میڈیا نیٹ ورکس اتنی بڑی غلطی فرنٹ صفحات پر کیسے جانے دیتے ہیں۔ میڈیا والوں کو پتہ ہے کہ کون اس بارے بولے گا، کسے فرق پڑے گا جو مرضی لکھ اور بول دیں، جسکی مرضی تصویر اور نام بدل دیں کوئی بھی نوٹس نہیں لے گا۔ کوئی معذرت نہیں کرنی پڑے گی۔ پی ٹی اے نے سوشل میڈیا کی ایک تصویر پر غلطی سے ملک کے چیف جسٹس کا نام لکھنے پر کئی افراد کو گرفتار کیا تھا۔ لیکن یہاں کون پوچھے گا اور کون غلطی تسلیم کرے گا۔ دراصل یہ سب ہمارے معاشرتی رویے کی عکاسی ہے کہ ہمارا میڈیا کن چیزوں کو کتنی اہمیت دیتا ہے اور کن چیزوں کے بارے اس قدر لاپرواہی اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ امام کعبہ کو اردو نہیں آتی اور نہ وہ پاکستانی اخبارات کا مطالعہ فرمائیں گے اور دعا بھی یہی ہے کہ کوئی انہیں ہرگز نہ بتائے کہ پاکستانی میڈیا نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ ورنہ وہ کیا سوچیں گے کہ میں ایک ایسی قوم کا مہمان بنا ہوں کہ جو میرا نام تک نہیں جانتی اور نہ ہی مجھے پہچانتی ہے۔ جہاں تک میڈیا اداروں کے اعلی ترین دماغوں کا تعلق ہے تو ان سے درخواست ہی کی جا سکتی ہے کہ امام صاحب کو تھوڑی بہت کوریج دینا تو شاید ممکن نہ ہو کیونکہ اس سے ہالی وڈ، بالی وڈ کی کسی نہ کسی ہیروئن کی سالگرہ کی خبر نہ رہ جائے لیکن خدارا اگر مجبوراً دکھانا ہی پڑ جائے تو مسلمانوں کے مقدس ترین مقام بیت اللہ شریف کے امام کا نام اور تصویر تو کم سے کم پہچان لیں۔ کوئی آپ سے پوچھنے کی جرات نہیں کر سکتا لیکن جھوٹ، غیر سنجیدگی اور لاپروائی سے میڈیا کے اداروں کی ساکھ متاثر ہونے کا خدشہ توضرور ہے۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).