گلگت بلتستان: بچہ پیارا ہے مگر نہ جانے کس کا ہے؟


گلگت بلتستان کیسا پیارا بچہ ہے۔ ڈوگرہ راج نے اس بچے کو غلام بنا رکھا تھا، اس نے ڈوگرہ راج سے خود جان چھڑائی اور آنکھوں میں محبت، چہرے پر معصومیت سجائے پاکستان کی جانب بڑھا۔ بچہ ضد کرتا رہا کہ میرا کوئی نام تو رکھا جائے میری کوئی شناخت تو ہو۔ بچہ یا خوبصورت بچہ کوئی نام تو نہیں ہے۔ ہم نے اس بچے کا نام رکھنے میں ساٹھ سال لگا دیے۔ اس بچے کی خوبصورتی کواستعمال کرتے ہوئے اسے دنیا بھر میں اپنا تعارف ٹھہرایا۔ شاید ہی کوئی سیاسی تقریر ہوجس میں بالواسطہ ہم نے اس کا ذکر نہ کیا ہو۔۔

پاکستان آسمانوں سے باتیں کرتے ہوئے پہاڑوں کی سر زمین

پاکستان طویل ترین گلیشئرز کی سرزمین۔

نانگا پربت اور کے ٹو کا پاکستان وغیرہ وغیرہ

بھائی شیر نادر شاہی کے لکھے ایک مضمون میں پڑھا کہ گلگت بلتستان کونسل کے ممبران جب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کے لیے گئے تو انہوں نے حیرت کااظہار کیا کہ گلگت بلتستان کونسل نام کو کوئی ادارہ بھی ہے جس کا میں چئیرمین ہوں؟ حیرت درست تھی!

گلگت بلتستان کہنے کو تو ایک صوبہ ہے لیکن اس صوبے کی آبادی راولپنڈی یا گوجرانوالہ شہر کی آبادی سے زیادہ نہیں ہے۔ اس قدر کم آبادی کے صوبے میں بے چینی ہماری مجرمانہ غفلت کا چلتا پھرتا اشتہار ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے گلگت بلتستان میں بجلی کا شدید بحران چل رہا ہے۔ پورا صوبہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ دوسری طرف گذشتہ 10 دنوں سے ایک بار پھر ٹیکس کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ سی پیک کی وجہ سے گلگت بلتستان کا علاقہ اسوقت دنیا کی نظروں میں ہے۔ بھارت کو پورے صوبے میں سے 20 افراد نہیں مل رہے جس سے وہ کسی باقاعدہ مذموم تحریک کی بنیاد رکھ سکے۔ چند افراد جن کا براہ راست گلگت بلتستان سے تعلق بھی نہیں ہے بھارت کے ہتھے چڑھےتو اس نے گلگت بلتستان فرینڈز کے نام سے جنیوا شہر میں ‘فری گلگت بلتستان ‘ کے عنوان سے اشتہارات کی بھرمار کر دی۔ بھارت کی کوششوں کے باوجود اسے گلگت بلتستان سے کوئی نہیں ملا جس کی مدد سے وہ دنیا بھر میں شر انگیز مہم چلا سکے۔

دوسری طرف ہم ہے جو آئے دن ایسی غیر منطقی حرکتیں کیے چلے جا رہے ہیں جس سے اس اچھے بھلے پرامن خطےمیں آئے روز بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ آج بھی گلگت بلتستان کے شہریوں کا بنیادی مطالبہ آئینی حقوق کا ہے۔ اب ہم تھوڑی دیر کے لیےاس مقدمے کو دوسری طرف لے جاتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو مکمل آئینی حیثیت دینے اورپانچواں صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر متاثر ہو گا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر آپ ٹیکس کس حیثیت سے لینا چاہتے ہیں؟ اگر آپکا جواب یہ ہے کہ یہ ٹیکس گلگت بلتستان حکومت کے پاس آئےگا اوروہ اس کو ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال کرے گی تو گلگت بلتستان کے سیاسی اور انتظامی کلیدی عہدوں پر آپ کیوں براجمان ہیں؟ گلگت بلتستان کو مرکز سے کنٹرول بھی کرنا ہے اور شناخت بھی نہیں دینی تو ٹیکس کیسے وصول کیا جا سکتا ہے؟ جب تک کسی شہری کو ریاست بنیادی شناخت کے حقوق ہی نہ دے سکتی ہو تو اس سے ٹیکس کاتقاضا کیسا؟

گلگت بلتستان تو پھرشناخت کے بحران میں مبتلا ہے دنیا بھر میں بہت سے ممالک اپنے ایسے علاقےجہاں معاشی مواقع ناپید ہوں کو ٹیکس فری رکھتے ہیں۔ گلگت بلتستان کو گندم سے لیکر جہاز کے ٹکٹ تک میں سبسڈی حاصل تھی۔ کیونکہ گندم اگر پنجاب سے سفر کرتی ہوئی گلگت بلتستان تک پہنچتی تھی تو کارگو اخراجات سے اسکی قیمت اس قدرہو سکتی تھی کہ خود پنجاب کا فرد ایسے نرخ پر گندم نہ خرید سکے۔ گلگت بلتستان کو سبسڈی کوختم کرنے کی سوچ اس وقت ہی شروع ہوگئی تھی جب آصف علی زرداری حکومت نے گلگت بلتستان کو نام دے کر نام نہادصوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔

گلگت بلتستان کو اگر خوش نہیں صرف مطمئن کرنے کا بھی ارادہ ہو تو یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ گلگت بلتستان کی آبادی 20 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ ساری آبادی بلوچستان کی طرح پھیلی ہوئی نہیں ہے۔ اس کے بڑے مراکز میں گلگت شہر ہے جس کی آبادی تین لاکھ سے زائدہے۔ اس کےبعد سکردو، چلاس، استور، غذر اور ہنزہ نگر ہیں۔ اگر آپ صرف تین یا چار بڑی آبادیوں کو چن کر ان کو بجلی کی سہولت فراہم کر دیتے ہیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ساٹھ فیصد سے زائدآبادی کو بجلی کی مکمل سہولت دے دی گئی۔ چلیں ساٹھ فیصد یعنی آبادی کی اکثریت مطمئن ہوئی۔ یہی صورتحال تعلیم کی ہے جس پر حکومت کی کارکردگی انتہائی شرمناک ہے۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے تعلیم کے اعدادو شمار ہمیں گمراہ کرتے ہیں۔ جب گلگت بلتستان میں قدرے بہتر تعلیم کے اعداد و شمار سامنے آتے ہیں تو ہمیں جاننا چاہیئے کہ ہنزہ اور غذر کے بہتراعداد و شمار پورے صوبے کی بدترین شماریات پراثر انداز ہو رہے ہیں۔ یعنی اگر گلگت بلتستان میں تعلیم کی شرح پچاس فیصد بتائی جائے تو سمجھ لیں کہ ہنزہ اورغذر کےبہترین اعداد و شمار 10 اضلاع میں شامل ہو کر بہتراشاریے دے رہے ہیں۔ اگر آپ نے گلگت بلتستان کی حقیقی صورت حال سے واقفیت حاصل کرنی ہو تو ہنزہ اور غذر کے اعداد و شمار منہا کر کے دیکھئے آنکھیں کھل جائیں گی۔

آپ نااہلیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ گلگت بلتستان کی حکومتیں ماضی میں مرکز کی خوشنودی کے لیے ترقیاتی بجٹ کو واپس کرتی رہی ہے۔ دنیا بھر سے سیاح گلگت بلتستان آتے ہیں جہاں نہ بجلی ہے نہ دوسری بنیادی سہولیات۔ دنیا میں حکومتوں کا ایک چلن یہ بھی رہا ہے کہ ائیر پورٹس، ریلوے اسٹیشنز اوربڑی شاہراؤں کے ارد گرد ایک مصنوعی ترقیاتی ماحول بنایا جاتا ہے تا کہ غیر ملکی سیاح ایک اچھا تاثر لے کر جائیں۔ مجھے لگتا ہے ہم باقاعدہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ جہاں جہاں غیر ملکی سیاحوں کے آنے کا امکان ہو ان جگہوں کا ستیاناس کر کے رکھ دیں۔

گلگت بلتستان سے عام پاکستانیوں کی محبت ڈھکی چھپی نہیں۔ پورا انٹر نیٹ گلگت بلتستان کے سیاحتی دوروں اور مہمات کی تصاویر سے بھرا پڑا ہے۔ لیکن یہ محبت ایسے ہی ہے جیسے کسی سڑک پر کوئی خوبصورت بچہ کھڑا ہو۔ کوئی راہ چلتا اس بچے کو پیار کرے۔ کوئی محبت بھرے اشارے کرے، کوئی اپنی ذات کو خوبصورت اور اہم منوانے کے لیے بچے کے ساتھ سیلفیاں بنوائے لیکن کوئی یہ نہ پوچھے کہ۔۔۔ بچہ کب سے بھوکا ہے؟ کیا بچے کے پاس موسم کے مطابق کپڑے ہیں؟ بچے کے پاؤں میں جوتے ہیں؟ بچے کے چہرے پر افسردگی کیوں ہے؟ شاید ان باتوں کے لیے ہمارے پاس دماغ نہیں۔۔۔ ویسے بچہ شکر کرے اس کا نام تو رکھ دیا گیا ہے۔ خدا کرے وہ وقت بھی آئے جب بچے کی باقی ضروریات کی جانب بھی کسی کا دھیان جائے۔ بچہ غمزدہ ہے صرف سیلفیاں کافی نہیں۔۔ آئیے ہم سب اپنی اپنی سطح پراس بچے کا غم بٹائیں۔ اس کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔ اتنے دنوں سے گلگت بلتستان میں ٹیکس کے خلاف ہڑتال اور احتجاج جاری ہے۔ بجلی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے لیکن ایسی کوئی خبر آپ نے میڈیا پر سنی؟۔۔ کوئی اور آواز اٹھائے نہ اٹھائے ہم سب تو آواز اٹھا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کہرام برپا کر سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے بھائیوں کی آواز میں آواز ملا کر اس کو بلند کر سکتے ہیں۔ یہ گلگت بلتستانی کون ہیں؟ جب ہم گلگت بلتستان جاتے ہیں تو یہ وہی ہیں جو ہمارے سے سر سے پیر تک صرف محبت ہی محبت ہوتے ہیں۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik