میری تمام تعارفی شناختیں، پکارتے مظلوم کے پاؤں کی مٹی برابر ہیں


ڈاکٹر طاہرہ کاظمی بھلے ڈاکٹر ہوں گی لیکن فلسفی ہر گز نہیں ہے۔ جس طرح خواتین کے نازک اعضاء پر لگے تالوں کے معاملے کو انہوں نے اچھالا ہے بغیر یہ جانیں کہ نظریہ افادہ پسندی کی رو اس طرح کے واقعات دنیا میں ہر جگہ ہوتے ہیں اور تاریخ کے ہر دور میں ہوتے رہے ہیں۔ جہاں آبادی زیادہ ہوتی ہے وہاں ایسے واقعات کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں تعلیم کم ہو گی وہاں یہ شرح تھوڑی سی مزید زیادہ ہو گی۔ یہ کوئی ایسی پیچیدہ بات نہیں۔ ابھی ان کا کالم شائع ہی ہوا تھا کہ ”لبرلوں“ کی پوسٹس نظر آنا شروع ہو گئیں۔ چلیں ان کی سمجھ آتی ہے ہر کسی کو اپنا مال بیچنا ہوتا ہے چاہے اس سے کسی ملک خطے قوم کی عزت پر حرف ہی کیوں نہ آتا ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میں سیاح نہیں؟ کیا میرے سامنے اس سے ملتے جلتے سیکڑوں واقعات سامنے نہیں آتے؟ لیکن میں تو نہیں بولتا کیوں؟

دیکھیے میں بھی پریشان رہتا تھا لیکن پھر بابا فیودور دوستویفسکی کے ناول میں ایک کمال کی چیز پڑھی۔

ناول کا مرکزی کردار غم روزگار و ذہنی دباؤ کی حالت میں ایک چوک سے گزر رہا ہوتا ہے۔ اچانک دیکھتا ہے ایک نوعمر بچی لڑکھڑاتے ہوئے آ رہی ہوتی ہے۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے زبردستی شراب پلا کر ریپ کرتے رہے۔ نوعمر لڑکی ہے اور پہلا ریپ ہے اور پہلی شراب ہے۔ اس کی حالت غیر ہوتی ہے۔ ایک بینچ پر گرتی ہے اور ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ رکھ کر دباؤ ڈالتی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار پاس جاتا ہے۔ لڑکی نیم کھلی آنکھوں سے دیکھتی ہے اور پھر اپنی گردن شدید اذیت کی وجہ سے بینچ پر ٹکا دیتی ہے۔ ایسے میں کہیں سے ایک دو فرد نمودار ہوتے ہیں جو لڑکی کو موقع پا کر لے جانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ مرکزی کردار لڑکی کو اپنی جیب میں جو تھوڑی سی رقم ہوتی ہے سب دے دیتا ہے کہ بے بسی کے عالم میں اس کے لیے کچھ کر نہیں سکتا۔ جو افراد لڑکی کو لے جا کر مزید ریپ کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں ان سے الجھتا ہے اور جب جسمانی طور پر کمزور مرکزی کردار ان طاقتور افراد سے ہاتھا پائی کی نوبت تک پہنچتا ہے تو ایک پولیس والا آ جاتا ہے۔ پولیس والا بیچ بچاؤ کراتا ہے لیکن مرکزی کردار کو شک ہے کہ پولیس والا بھی لڑکی پر بری نظر رکھتا ہے۔ بہر حال پولیس والا لڑکی لے جاتا ہے۔ مرکزی کردار جمع پونجی لڑکی کو دے بیٹھا ہے۔ اب اپنے آپ سے کچھ یوں کلام کرتا ہے

But what does it matter? That ‘s as it should be, they tell us. A certain percentage, they tell us, must every year go… that way… to the devil, I suppose, so that the rest may remain chaste, and not be interfered with. A percentage! What splendid words they have; they are so scientific, so consolatory… Once you’ve said “percentage” there ‘s nothing more to worry about. If we had any other word… maybe we might feel more uneasy… But what if Dounia were one of the percentage…

بات جب تک پرسینٹ تک رہے تو یہ جواز برا نہیں ہے۔ آواز اٹھانا تب بنتی ہے جب سو فیصد آبادی اس ظلم کا شکار نہ ہو جائے۔

میں آپ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ بظاہر پڑھے لکھے اور انسانیت دوست ہونے کا دعویٰ کرنے والے آپ کو کہیں گے کہ اگر ایک بچہ یا ایک بچی یا ایک عورت بھی ظلم کا شکار ہوتی ہے اور شدت کرب سے چیختی ہے پکارتی ہے تو بحیثیت انسان میری ساری شناختیں رنگ قوم نسل سب معدوم ہو جانی چاہئیں اور یہ سب شناختیں اس مظلوم کے پاؤں کی مٹی برابر نہیں ہونی چاہیں۔ اب کیا یہ بات آپ کو ہضم ہو سکتی ہے۔ یقیناً نہیں ہونی چاہیے۔ نظریہ افادہ پسندی ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ کچھ مخصوص شرح فیصد ہی ریپ و قتل وغیرہ کا شکار ہوتی ہے۔

آپ سیاستدانوں کو احمق تصور کرتے ہیں۔ لیکن سب ایسے نہیں ہوتے۔ کچھ سیاستدان ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہ کراچی کا سٹریٹ کرائم انہونی بات نہیں ہے۔ دو کروڑ کی آبادی کے شہر میں اتنے فیصد ہو جاتا ہے۔ اگر ہم بہت زیادہ شور مچائیں گے تو کراچی بدنام ہو گا۔ کراچی بدنام ہو گا تو کاروباری سرگرمیوں پر منفی اثر پڑے گا۔ ان کاروباری سرگرمیوں سے کروڑوں لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کروڑوں جب فائدہ اٹھاتے ہیں تو ہزاروں کا اگر نقصان بھی ہو جاتا ہے تو برا سودا نہیں ہے۔ ہمیں نتیجے پر توجہ کرنی چاہیے اور نتیجہ بتا رہا ہے کہ کروڑوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔

قصور والے اگر اس بات پر برہم ہو جائیں کہ کم سن بچیوں کے ریپ کے ذکر کرنے سے قصور بدنام ہوتا ہے تو وہ غلط نہیں ہیں کیونکہ ہزاروں لاکھوں بچیوں کا ریپ تو نہیں ہوا۔

حال ہی میں ایک ویڈیو کلپ حادثے کی شکل میں نظر سے گزرا۔ دو بچے ہیں۔ ان کی عمریں بمشکل سات یا آٹھ سال کی ہوں گی۔ ویڈیو بنانے والا پوچھ رہا ہے کہ فلاں کو تم نے بلو جاب کیسے دی۔ بچے پریشان ہیں۔ وہ ہنس رہا ہے اور دھمکی دیتا ہے۔ بچے کچھ بتاتے ہیں لیکن وہ بچوں کو کہتا ہے کہ نہیں اپنے ہاتھ کی انگلی سے بتاؤ کہ کیسے کیا۔ سائز کیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ سات آٹھ سال کے بچے ہیں۔ دکھی ہیں۔ اب ہو سکتا ہے آپ بھی دکھی ہو جائیں اور اگر آپ سیاح وغیرہ ہیں تو آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس حوالے سے زیادہ حساس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو بس اڈوں مکینکوں کی ورکشاپس اور اینٹ کے بھٹوں سمیت بہت سی جگہوں ایسے ملتے جلتے حادثے ہو رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم آواز اٹھاتے ہیں تو ہمیں ایسے جرائم کے محل وقوع پر بھی بات کرنی پڑے گی۔ آخر یہ ظلم کہیں مریخ پر تو نہیں ہوا اور ہوا بھی ہو تو مریخ وہاں کی شناخت ٹھہرے گی اور مجھے مریخ کا نام لینا پڑے گا گو کہ ظلم کے اس تذکرے سے مریخ بدنام ہو گا اور مریخ کے حساس دل شہریوں پر کیا گزرے گی۔ خیر بات ہو رہی ہے ظلم کی (اگر آپ اسے ظلم سمجھتے ہیں تو۔ ویڈیو بنانے والے کی طرح اکثریت اسے ظلم نہیں سمجھتی۔ ریپ ہونے والے بچے کے لیے لفظ ”گا۔ ن۔ ڈ۔ و“ تضحیک آمیز انداز سے ادا کیا جاتا ہے۔ ریپسٹ کے لیے ”بڑا حرامی ہے“ ہے اس انداز سے استعمال کیا جاتا ہے جس میں اس کی طاقت کے لیے چھپی مدح سرائی ہوتی ہے اس لیے نفسیاتی تجزیے کے حوالے سے ہماری اکثریت اسے ظلم نہیں سمجھتی) لیکن اگر آپ اسے ظلم سمجھتے بھی ہیں تو چھوڑیے۔ ہمارے ان بچوں کی تعداد اب بھی زیادہ ہے جن کا ریپ نہیں ہوا۔

چلیے آپ میری مثال لے لیجیے۔ میں اعوان ہوں۔ یہ میرا پیدائشی اختیار نہیں تھا۔ بڑا ہوا تو معلوم ہوا ہم اعوان قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لفظ میرا ڈاکخانہ تلاش کرنے کے لیے اہم ہو سکتا ہے لیکن میرا کسی طرح کا احساس تفاخر اس کے ساتھ نہیں جڑا ہوا۔ میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں۔ شماریاتی حساب کتاب نہیں سمجھتا۔ آپ میرے سامنے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ بچوں کے ریپ کے کیسز ہیں جن کا تعلق اعوان قوم سے ہے۔ اب کیونکہ میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں تو میرا ذہن فوراً بچوں پر ہونے والے ظلم کی جانب جائے گا۔ میرا تخیل اس نفسیاتی و جسمانی تشدد کے تانے بانے بننا شروع کر دے گا جس سے وہ بچے گزرے۔ میرے ذہن کے کسی نہاں گوشے میں بھی یہ بات نہیں آئے گی کہ اس سے ایک قوم جس سے میں تعلق رکھتا ہوں میری شناخت ہے وہ بدنام ہو رہی ہے۔ میرے نزدیک یہ ساری گروہی شناختیں ان مظلوم بچوں کے پاؤں کی مٹی برابر نہیں ہیں۔ لیکن میں ایسا کیوں سوچوں گا کیونکہ میں ایک جاہل آدمی ہوں۔ )

فرد سے کنبہ۔ کنبے سے محلہ۔ محلے سے گاؤں۔ گاؤں سے ضلع۔ ضلع سے صوبہ۔ صوبہ سے ملک۔ ملک سے براعظم۔ براعظم سے مشرق مغرب تقسیم۔ سب کے سب شناخت کی مختلف سطحیں ہیں۔ گروہوں میں بٹ کر ہم انتظامی امور میں بہتر ہو جاتے ہیں۔ یہ ان کی افادیت ہے۔ آج گروہ کا قدیم تصور معدوم ہو رہا ہے یا ہو جانا چاہیے۔ تصور کیا تھا کہ اس گروہ یا شناخت سے ہماری نسل کی بقا جڑی ہوئی ہے۔ کیونکہ قدیم انسان کی بقا ان گروہی شناختوں کے ساتھ جڑی ہوئی تھی اس لیے وہ اس قدر حساس ہو جاتے کہ گروہ کی بقا کی خاطر غیر عقلی فیصلے کر کے انہیں غیرت وغیرہ کے لفظی جامے پہناتے اور ضمیر کی خلش کو مطمئن کرتے۔ آج بھی پسماندہ معاشروں میں دوستی یا یوں کہیے کہ یاری کے یہی غیر عقلی معیارات ہوتے ہیں۔ یار وہ ہے جو آپ کی خاطر کسی طرح کا بھی غیر قانونی غیر اخلاقی کام کرنے کو تیار رہے۔ میرے جیسے افراد زندگی اسی سوال کا جواب تلاش کرنے میں گزارتے رہتے ہیں کہ ان کا کوئی ”حقیقی دوست یا یار“ کیوں نہیں بن سکتا۔

تفاخر کی کوئی بھی شکل ہو۔ چاہے وہ علمی تفاخر ہی کیوں نہ ہو آپ کو تنہا کرتا ہے۔ تنہا شخص یا گروہ کے لیے مادی و علمی ترقی کا سفر رک جاتا ہے۔ لیکن یہ سب خیالات ایک جاہل شخص کے ہیں جو کسی ایک انسان کی جان و مال کی حرمت کو تمام شناختوں سے ماورا سمجھتا ہے۔ احتیاط کیجیے ان خیالات سے اتفاق آپ کو جاہلوں کی صف میں لا کھڑے گا۔ اور۔ فیصد و شرح اور نظریہ افادہ پسندی کی رو سے یہ جاہل بہرحال پائے جاتے ہیں۔ کم تعداد میں پائے جاتے ہیں

میری تمام تعارفی شناختیں، پکارتے مظلوم کے پاؤں کی مٹی برابر ہیں

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments