ایک باہمت عورت کی کہانی


یہ کہانی ہے 33 سالہ سیدہ نازش رضوی کی، جو ابھی دو برس کی تھی کہ ان کے والدین کے درمیان علیحدگی ہو گئی تھی، نازش نے اپنا بچپن بہت تلخ بسر کیا، ان سے بڑی تین بہنیں اور تھی مگر وہ بھی کم سن تھی، والدین کی علیحدگی کے وقت نازش کی سب سے بڑی بہن فقط دس برس کی تھی، ان کم عمر بچیوں نے نہ صرف والدین ناچاقی دیکھی بلکہ ان کے رشتے کو ٹوٹتا بھی دیکھا پھر باپ نے دوسری شادی کرلی، ابتدا میں تو ان کی دوسری ماں نے ان کی خوب دیکھ بھال کی تاہم اپنے بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی تمام تر توجہ اپنے بچوں کی جانب مرکوز ہوگی، والد صاحب کی کوئی خاص نوکری نہیں تھی مگر کچھ گزار بسر چل رہا تھا، یہ چاروں بہنیں سرکاری اسکول میں زیر تعلیم تھیں، نازش کہتی ہیں کہ گھر کے کثافت بھرے ماحول نے ان بہنوں کی شخصیت کو بری طرح متاثر کیا تھا مگر دادی کی محبت کے عوض انہیں راحت کے چند لمحات میسر آ جاتے تھے، نازش بتاتی ہیں کہ ان کے گھر کا ماحول سخت اذیت ناک تھا، ان کی تائی سوتیلی ماں سے بھی زیادہ سخت اور بدمزاج تھیں، ان بہنوں کا خیال رکھنا تو دور کی بات وہ تو ان پر الزامات عائد کرتی تھیں، شروع میں یہ الزامات خورد نوش اور ان کے بچوں کی چیزوں کی چوری تک محدود تھے پھر جیسے جیسے یہ بہنیں جوان ہونے لگی تو انہوں نے ان کی کردار کشی شروع کردی، نازش گلوگیر انداز میں بتاتی ہیں کہ نہ جانے اس خاتون میں ایسا کیا تھا کہ وہ اپنے شوہر سے اپنی ساس یعنی شوہر کی ماں تک کو پٹوا چکی تھیں کیونکہ وہ ان کی دادی ان کے حق میں بات کرتی تھیں،

نازش کا معصوم ذہن و دل یہ سب دیکھ کر بہت تکلیف محسوس کرتا تھا پھر عہد بلوغت نے دستک دی اور تینوں بہنیں اپنے گھر کی ہو گئیں، نازش کا تایا زاد ایک بد فطرت لڑکا تھا، نازش کی تائی اس سے بیزار تھیں، انہیں فکر تھی کہ اسے کون اپنی لڑکی دے گا نہ پڑھتا ہے نہ کسی ہنر کا ہے، ان کی اس فکر کو نازش کے حسن نے کم کیا، نازش بچپن سے ہی خوبصورت رہی مگر لڑکپن کے بانکپن نے تو جیسے اسے چار چاند لگا دیے تھے، اس کی چاند سی جوانی پر اس کا بد فطرت تایا زاد وسیم عاشق تھا، پھر یوں ہوا کہ اس نکمے سے نازش کو بیاہ دیا گیا، نازش کی بڑی تینوں بہنوں کی آزمائش تو ختم ہو گئی تھی اور وہ اپنے گھروں میں خوش تھیں مگر نازش کی آزمائش میں مزید اضافہ ہو گیا تھا، شوہر کماتا تو کیا خاک الٹا اس سے جھگڑے کرتا رہتا تھا، اس پر بہتان لگاتا، مارتا اور گالیاں دیا کرتا تھا، نازش یہ سب صبر سے سہتی تھی، اس دوران نازش کو اللہ نے گڑیا سی بیٹی عطا کی جس کا نام رانی رکھا، نازش نے بیٹی کی پیدائش کے بعد اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ میری زندگی جیسی بھی گزاری یا گزار رہی ہے میں رانی کو راج کرواوں گی، وقت گزر رہا تھا، نازش کے حسن کا دیوانہ اس کا نندوئی بھی تھا جو کہتا تو اسے بہن تھا مگر اس کی حرکات بھائیوں والی نہ تھیں، نازش نے جب اس کی گندی حرکات کو محسوس کیا تو اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی،

وقت گزرتا رہا، اس نے سلائی کرنا شروع کردی اور بیٹی کو انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرایا جس پر اس کے شوہر اور ساس نے اعتراض کیا مگر بیٹی کی تعلیم کے معاملے میں نازش نے ایک نہ سنی اور رانی کو اچھے اسکول میں ایڈمیشن دلایا وقت گزارتا رہا، نازش کپڑوں کی سلائی کے عوض اپنا اور بیٹی کا گزار کرتی رہی اور ساتھ ساتھ شوہر کے گندے الزامات سنتی اور مار کھاتی رہی، اسی تکلیف دہ روز و شب میں رانی پانچویں کلاس میں آ گئی، نازش اپنے دوپٹے سے آنسو صاف کر کے کہتی ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب میرے پاس رانی کی اسکول کی فیس جمع کرانے کے پیسے نہیں تھے، میں نے اس کے باپ سے کہا تو کہنے لگا بس اس نے بہت پڑھ لیا اب اس کا اسکول ختم کر دے، جس کے میں بالکل حق میں نہیں تھی، اسی پریشانی میں تین ماہ گزر گئے پھر ایک دن اسکول سے آنے کے بعد میری رانی خوب روئی میرے پوچھنے پر کہنے لگی کہ اب وہ اسکول نہیں جائے گی کیونکہ فیس کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے اسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس روز نازش نے اپنی انگلی میں پڑی وہ واحد سونے کی انگوٹھی بھی فروخت کردی جو اس کے شوہر کی نظروں سے نا جانے کیسے محفوظ رہ گئی تھی،

نازش بتاتی ہیں کہ مجبوراً یہ کتھا اپنی بہنوں اور سہیلیوں سے شیئر کی تاکہ رانی کی پڑھائی کا سلسلہ معطل نہ ہو ان کے تعاون سے رانی کی تعلیم جاری رہی جس کی اس کے شوہر کو تشویش تھی وہ تقریباً روز ہی اپنی بیوی سے اس بارے میں پوچھتا کہ شہر کے مہنگے اسکول کے تعلیمی اخراجات وہ کیسے پورے کر رہی ہے جبکہ وہ تو اسے ایک پیسہ نہیں دیتا ہے گھر کا راشن تک نازش کی سلائی مشین کی وجہ سے تھا اور گھر دونوں میاں بیوی کی دادی کا تھا، ایک دن نازش کا شوہر اسے مار رہا تھا کہ بیٹی اسکول سے آ گئی اس نے جب ماں کی یہ حالات دیکھی تو ماں کے دفاع میں آگے آئی، یہ انداز اس کے باپ کو بہت برا لگا اور اس نے بیٹی کو بھی مارا اور بہتان تراشی کی بارش کردی، یہ وہ وقت تھا جس نے نازش کو کمزور سے طاقتور عورت بنایا اس نے بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر دارالامان کی راہ لی، اپنی سہیلی کے معاشی تعاون سے عدالت سے خلع کے لئے رجوع کیا اور پندرہ سال بعد اس وحشی درندے سے چھٹکارا حاصل کیا،

رانی دسویں جماعت کی سمجھدار طلبہ ہے اس نے ماں کو دوسری شادی کے لئے فورس کیا اور خالاؤں کے ساتھ مل کر مناسب رشتہ تلاش کیا اور ماں کی شادی کرا دی، رواں 24 اکتوبر کو ایک تقریب کے موقع پر اپنے دوسرے باپ کی جانب سے گفٹ کردہ قیمتی جوڑے میں مزین رانی کو دیکھ کر نازش کا کہنا تھا کہ کبھی یہ وقت تھا میں اس کے اسکول کی فیس تک نہیں دے پا رہی تھی آج میری رانی کے نصیب سے میں بھی آسودہ اور وہ بھی خوشحال ہے، اب نازش لندن جانے کی تیاری میں ہے اس کا کہنا ہے کہ ندیم نے رانی کو حقیقی بیٹی کی مانند قبول کیا ہے، وہ نہ صرف رانی کو بہتر تعلیم دلوانے کی خواہش رکھتے ہیں بلکہ اس کی بہترین جگہ شادی کے بھی متمنی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میں اپنی نازش کو رانی اور اپنی رانی بیٹی کو خوب راج کر اؤنگا، نازش کا کہنا ہے کہ میں نے وسیم کا ستم اس لئے برداشت کیا کیونکہ میں تماشا نہیں چاہتی تھی مگر جب اس نے بیٹی پر ہاتھ اٹھایا اور الزامات عائد کیے تو وہ میں برداشت نہ کر سکی اور وہ کر گزاری جو پندرہ سال تک نہ کر سکی، بے شک اللہ حق ہے وہ بہترین کارساز اور تدابیر والا ہے۔

ہم نے اس کہانی کے مندرجات ماہر نفسیات ڈاکٹر صدف نصیر کے سامنے رکھ کر چند سوال کیے کہ گھریلو تشدد کا شکار بچیاں اور خواتین کی شخصیت کس قسم کی ہوتی ہے؟ متاثرہ خواتین کا اپنے بچوں کے ساتھ کیسا رویہ ہوتا ہے؟ کیا وہ انتہا پسند ہو جاتی ہیں یا بہت ڈرپوک؟ نازش نے جو قدم اٹھایا وہ اس کا جذباتی فیصلہ ہے یا دانشمندی؟

ہمارے ان سوالات پر ڈاکٹر صدف نصیر نے تفصیل سے بتایا کہ جو خواتین یا بچیاں گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں، جو بچپن سے ہی مار پیٹ یا گالم گلوچ سہ رہی ہوتی ہیں، ان کی شخصیت بہت زیادہ بکھری ہوئی ہے، وہ عدم تحفظ اور عدم توازن کا شکار ہوتی ہیں، وہ کبھی بھی اپنے جذبات کا بہت بہترین طریقے سے اظہار نہیں کر سکتی ہیں، اس لئے وہ توجہ کی طالب ہوجاتی ہیں، نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے یا تو وہ بہت جذباتی یا بھی ہر قسم کے جذبات سے عاری ہوجاتی ہیں، ان خواتین کے اندر ظلم سہ کر منفی رجحانات میں اضافہ ہوجاتا ہے، مار پیٹ کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار ہو کر وہ ہر ایک کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں، اپنے بچوں کے ساتھ بھی ان کا رویہ تشدد پسندانہ ہوتا ہے، جو تکلیف وہ سہ رہی ہوتی ہیں، اس کی گھٹن وہ اپنے بچوں پر نکالتی ہیں، ان پر بے جا ڈانٹ ڈپٹ، مار پیٹ کرتی ہیں، ان کی دیکھ بھال اور ذمے داری اٹھانے میں کوتاہی برتی ہیں،

آپ نے اپنے آرٹیکل میں نازش نامی خاتون کا ذکر کیا ہے، جس نے کم سنی سے ہی صدمے برداشت کیے ہیں، اس نے جس قسم کا قدم اٹھایا اس وقت اس کے جذبات بہت بھڑکے ہوئے تھے، اس نے ہمت سے کام لے کر معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے صحیح وقت پر درست فیصلہ کیا، اس قسم کے اقدامات بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں، نازش نے بالکل ٹھیک کیا کہ معاشرے کی فرسودہ روایات کو بالائے طاق رکھا اور اپنے اور اپنی بیٹی کے لئے ایسا اہم قدم اٹھایا جس سے اس کی پوری زندگی سنور گئی ورنہ ان کیسز میں اس طرح کی خواتین معاشرے کی فرسودہ روایات کا شکار ہو کر لوگ کیا کہیں گے کہ خوف کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں، انہیں ڈر ہوتا ہے کہ لوگ میرے کردار پر کیچڑ اچھالے گے کہ کیسی عورت ہے کہ ایک مرد سے طلاق لی اور دوسرے سے نکاح کر کے بیٹی کا مستقبل داؤ پر لگا دیا کیونکہ ہمارے یہاں سوتیلے باپ کو لے کر اچھی مثالیں دیکھنے کو نہیں ملتی ہیں بالخصوص بیٹیوں کے معاملے میں تجربات بہت تلخ ثابت ہوئے ہیں، بہرحال نازش کا فیصلہ مثبت ثابت ہوا جو ان کی خوش نصیبی اور ہمت کا صلہ ہے، نازش نے یہ قدم اٹھا کر ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments