نواز شریف، بھٹو اور پیر خادم رضوی


ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل رکھی اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کیے۔
بھٹو نے قوم کو تیسرا آئین دیا اور نواز شریف نے موٹر ویز اور سڑکوں کا جال۔
نواز شریف نے قومی کو بجلی کے اندھیروں میں سے نکالا اور بھٹو نے عوام کو جاگیرداروں اور  وڈیروں کے چُنگل سے۔
وغیرہ، وغیرہ۔

ویسے تو پاکستان کے پہلے جمہوری وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا پینامہ لیکس کیس میں نا اہل ہونے والے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ موازنہ زیادتی ہے۔ لیکن چند اداروں کے فیصلوں اور برتاؤ نے ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ نواز شریف بھی بھٹو کی طرح مظلوم لگنے لگے ہیں۔

ایسا لگنے لگا ہے کہ جیسے جنرل ضیا الحق کی آمرانہ سپریم کورٹ نے بھٹو کو ناجائز پھانسی دی۔ ویسے ہی سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم کو اُس جرم کی سزا دیتے ہوئے نا اہل کردیا۔ جس کی استدعا کسی بھی درخواستگزار کی طرف سے نہیں کی گئی تھی۔ جس کے بعد سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایسی مہم چلا رکھی ہے کہ ان کے ساتھ عوام کو ہمدردی ہونے لگی ہے۔

ایسے کٹھن وقت میں جب کہ ان کی اہلیہ لندن میں کینسر جیسے موذی مرض سے نبردآزما ہیں۔ سابق وزیراعظم اور ان کی بیٹی مریم نواز احتساب عدالتوں میں پیش ہو کر عدلیہ کی بالادستی اور قانون کے سامنے جوابدہ ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کی زیرنگرانی زیر سماعت نیب ریفرنسز اور مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ واجد ضیا کے بدلتے بیانات۔ نواز شریف کی مظلومیت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے سابق وزیراعظم یہاں تک کہنے لگے ہیں اگر انھیں جیل میں ڈالنا ہے تو ڈال دیں۔

نواز شریف، نواز لیگ حکومت کے 5 سالہ دور کے آخری دنوں میں اداروں کو للکار کر عوام کی ہمدردی حاصل کرنے والے سابق وزیراعظم  پُر امید ہیں کہ اگر انھیں احتساب عدالت سزا دیتی ہے۔ تو عوام کا جمِ غفیر سڑکوں پر آکر کاروبارِ زندگی مفلوج کردیگا۔ جس کی وجہ سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو۔ جس کا یقینی فائدہ نواز لیگ کو ہوگا۔

فوج اور عدلیہ کو نشانہ بناتے ہوئے سابق وزیراعظم یہ بھول چکے ہیں کہ اپنی تقریروں میں بھٹو کو عظیم لیڈر گردانے والے نواز شریف بھٹو کی خوش فہمی کو نظر انداز کررہے ہیں کہ عوام کی طاقت انھیں بچا لے گی۔

سابق سربراہ پاکستان مسلم لیگ نواز کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھٹو کی پھانسی کے بعد کسی بھی شہر میں ایسے حالات ییدا نہیں ہوئے تھے کہ امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد راتوں و رات ان کی میت کو بذریعہ سی ون تھرٹی ان کے آبائی شہر لاڑکانہ پہنچایا گیا۔ جہاں ان کی تدفین میں چند مقامی لوگوں نے شرکت کی۔ جس کے بعد آج تک پیپلز پارٹی بھٹو کو بیچ ضرور رہی ہے۔ مگر 1979 میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور جیالے بھٹو کو بچانے میں ناکام رہے تھے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کا جدید اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور اس زمانے سے مختلف ہے اور سوشل میڈیا کسی بھی پابندی سے بالا تر ہے۔ لیکن نواز شریف کو اپنے دائمی حریف جنرل پرویز مشرف کی سوشل میڈیا پر مقبولیت بھی یاد رکھنی چاہیے۔ جس کی بنیاد پر سابق صدر پاکستان آگئے تھے اور عوام کے جمِ حقیر نے ان کا استقبال کیا تھا۔

نا اہلی کے بعد ہیرو بنے والے نواز شریف کو وہ وقت بھی بھولنا نہیں چاہیے کہ جب وہ سعودیہ سے اسلام آباد کے ایئرپورٹ پر جب لینڈ ہوئے تو انھیں ایئر پورٹ سے نکالے بغیر ہی واپس سعودیہ روانہ کردیا گیا۔ جس کے بعد نا تو سڑکوں پر کوئی احتجاج ہوئے اور نا ہی امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی۔

حالیہ واقعات اور موجودہ سیاسی حالات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے پاکستان میں احتجاج کرنے اور امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کا ٹھیکہ صرف مذہبی گروپوں کے پاس ہی ہے۔ جن میں ڈاکٹر مولانا طاہر القادری اور فیض آباد دھرنے سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے مولانا خادم حسین رضوی شامل ہیں۔

ماضی میں ڈاکٹر مولانا طاہر القادری سے قریبی تعلقات رکھنے والے نواز شریف اب اپنے بچاؤ کے لئے یقینی طور پر اج کل کینیڈا میں مقیم ڈاکٹر طاہر القادری کی خدمات حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ جبکہ ختم نبوت سے متعلق قانون میں تبدیلی کی وجہ نواز شریف سربراہ تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ مولانا خادم حسین رضوی سے تعلقات بگاڑ چکے ہیں۔ جو کہ آج کل ملک گیر دھرنوں کی نیٹ پریکٹس میں مصروف ہیں۔

ایسی صورتحال میں سابق وزیراعظم اور ان کی بیٹی کے لئے بہترین آپشن پہلے کی طرح بذریعہ ڈیل بیرون ملک جانا ہی بہتر ہوگا۔ جہاں لندن میں وہ کینسر سے لڑتی کلثوم نواز کی تیمار داری کریں اور سابق وزیراعظم بڑھاپہ اپنی دختر مریم نواز کے ساتھ گزارنے کی تیاری کریں۔ کیونکہ یہ سراسر ان کی خوش فہمی ہے کہ ان کو سزا دیے جانے پر عوام کا جمِ غفیر سڑکوں پر آئے گا۔ اگر عوام بھٹو کی پھانسی کے بعد سڑکوں پر نہیں آئے تو نواز شریف کو سزا ملنے پر کیوں آئیں گے۔ کیا نواز شریف بھٹو سے بڑے لیڈر ہیں۔ ہر گز نہیں، کسی بھی صورت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).