شراب، ناچ گانا، حسین لڑکیاں اور لبرل


یہ وہی رویہ ہے جو عورت کو کبھی ٹافی، کبھی مٹھائی اور کبھی موبائل فون سے تشبیہ دیتا ہے۔ اور یہ وہی رویہ ہے جو معاشرے کے ہر فساد کی جڑ عورت ذات میں ڈھونڈنے کا متمنی ہے۔ میں اس رویے کے خلاف کھڑا ہوں، ہمیشہ سے کھڑا ہوں اور پورے قد سے کھڑا ہوں۔ میرے نزدیک لبرلزم یہ ہے کہ جنس، رنگ، ذات اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی قوانین اور امتیازی سلوک کی حوصلہ شکنی نہیں بلکہ بیخ کنی کی جائے۔ رہے یہ جنسیات سے جڑے مفروضات تو یہ محض ایک بیمار ذہن کی نشان دہی کرتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

ایک مشہور کالم نگار نے کچھ دن پہلے تحریر کیا کہ سارے لبرل ٹرمپ کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔ صاحب کو اگر امریکی سیاست کی ذرا سی بھی شد بد ہوتی تو یہ بات نہ کرتے۔ ٹرمپ قدامت پرستوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور لبرلز کو اپنا جانی دشمن سمجھتے ہیں۔ شاید ہمارے کالم نگار بھی ناچ گانا، شراب اور جنسی بے راہ روی کو لبرلزم سمجھتے ہیں کیونکہ اس تعریف پر صرف ٹرمپ ہی نہیں، گرینڈ اولڈ پارٹی کی اکثریت پوری اترتی ہے۔ تاہم ان میں سے کسی کو آپ لبرل کہہ دیں تو وہ سمجھے گا کہ اسے گالی دی گئی ہے۔

ہمارے یہاں دائیں بازو، مذہب پرست، عسکریت پسند اور آمرانہ سوچ کے حامل ذہن نے اپنے لیے ایک خود ساختہ ولن بنایا۔ اس کی صفات کا فیصلہ کیا پھر اس ولن کا نام لبرل رکھ دیا۔ اس کے بعد اس ذہن نے جہاں بھی اپنے سے متصادم سوچ دیکھی اسے لبرلزم کے کھاتے میں ڈال دیا۔ ان میں سے کسی نے جان لاک، جان سٹیورٹ مل یا رچرڈ پرائس کا نام نہیں سنا۔ کسی کو قدیم یونان میں جنم لینے والی لبرل روایات کا علم نہیں ہے۔ کوئی یہ نہیں جانتا کہ آج جس پارلیمانی نظام کے باعث عام آدمی کو آواز ملی ہے وہ اسی لبرلزم کی دین ہے۔

عجب معاملہ ہے کہ لوگ باگ پرویز مشرف کو لبرل کہتے ہیں۔ بھلا کوئی آمر لبرل کیسے ہو سکتا ہے۔ لبرلزم تو آمریت کے خلاف سب سے مضبوط استعارہ ہے۔ ایک دوست لبرل پارٹی کی مثال دیتے ہیں تو سب سے پہلے ایم کیو ایم کا نام لیتے ہیں۔ کون ان کو بتائے کہ فاشزم اور لبرلزم کے ہجے مختلف ہوتے ہیں۔ فرق سمجھیے۔ عبدالستار ایدھی، راشد رحمان اور ملالہ یوسفزئی لبرل ہیں پر پرویز مشرف، الطاف حسین اور یحیی خان لبرل نہیں ہیں۔

ذرا زحمت کیجیے، لبرلزم کے بارے میں دو چار صفحات پڑھ لیجیے۔ کچھ لبرل اقدار پر نظر ڈال لیجیے۔ کلاسیکل اور جدید لبرلزم کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے۔ آمریت اور جمہوریت کی کشمکش کو اس کے درست تناظر میں دیکھیے۔ مذہبی استحصال اور مذہبی اخلاقیات کو الگ کرنا سیکھ لیجیے۔ پھر آئیے۔ لبرلزم پر بات کرتے ہیں۔ پھبتیاں کسنا، بے ہودہ مفروضے بنانا اور بے بنیاد طنز و تشنیع کا دفتر کھولنا محض اس امر کا اظہار ہے کہ آپ کے پاس علمی اور تحقیقی سطح پر کہنے کو کچھ نہیں ہے اور آپ صرف کچھ ایسے خطیبوں کے مقلد ہیں جن کے منہ میں زبان تو ہے پر کاسہ سر میں دماغ نہیں ہے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad