”چاچا خواہ مخواہ“


انسان فطری طور پر انا کا غلام ہے۔ اس سے نجات کے لئے صوفیا چلے کاٹتے اور اکثر کنوؤں میں الٹے لٹک جاتے تھے۔ صوفیا سے مختص ریاضتوں سے گزرے بغیر میں اکثر بے اعتنائی کا رویہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ دل کی کمینگی مگر ہر دوسرے دن انگڑائی لے کر بے نقاب ہوجاتی ہے۔ منگل کے روز بھی ایسے ہی ہوا۔ فوج کے حتمی ترجمان۔ ڈی جی آئی ایس پی آر۔ کی پریس کانفرنس تھی۔ ٹی وی پر اسے لائیو دیکھ رہا تھا۔ سیاسی، دفاعی اور خارجہ امور پر نگاہ رکھنے کے دعوے دار رپورٹر کے لئے اس پریس کانفرنس کے دوران تفصیلی غور کو اکسانے کے لئے بے شمار پہلو نمایاں ہوئے۔ انا سے مغلوب ہوئے دل و دماغ مگر مذکورہ پریس کانفرنس کے بنیادی نکتے ہی پر اٹک کے رہ گئے اور وہ نکتہ تھا کہ ریاست کا طاقتور ترین ادارہ 9 مئی کے واقعات بھلانے کو تیار نہیں ہے۔ اس کے ذمہ داروں کو واجب سزائیں دلوانے کو بضد ہے۔

ملکی سیاست کے اہم واقعات کا ”تجزیہ“ کرنے کے دعوے دار ”صحافی“ کو مذکورہ نکتہ دریافت کرنے کے بعد فکر مند تو اس حقیقت کے بارے میں ہونا چاہیے تھا کہ 8 فروری 2024ء کے روز تمام تر مشکلات کے باوجود 92 کے قریب افراد کو قومی اسمبلی بھیجنے کے قابل ہوئی جماعت پاکستان کے کلیدی ادارہ کی نگاہ میں دوست شمار نہیں ہو رہی۔ دونوں کے مابین تناؤ ہمارے سیاسی بندوبست کو غیر مستحکم رکھے گا اور یہ خیر کی خبر نہیں ہے۔

مذکورہ پہلو پر فکر مندی سے غور کے بجائے انا پرست ذہن نے فخر سے یاد کیا کہ چند ہی روز قبل ایک کالم لکھا تھا۔ اس کے ذریعے ان خبروں کی ڈھٹائی سے تردید کی کہ پاک فوج سے ریٹائرڈ ہوئے ایک جنرل صاحب جو یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دوران سیکرٹری دفاع بھی رہے ہیں تحریک انصاف اور ریاستی اداروں کے مابین مصالحت کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ ”مصالحتی مشن“ پر اپنے تئیں مامور ہوئے صاحب کا اسم گرامی نعیم خالد لودھی ہے۔ وہ اپنے ہمنواؤں کے گروہ کو ”خیرخواہ“ پکارتے ہیں۔ تحریک انصاف اور ریاستی ادارے کے درمیان مصالحت کے حصول کے لئے انہوں نے ایک نو نکاتی فارمولہ بھی مرتب کر لیا۔ وہ ہمارے ”دی نیشن“ سمیت ملک کے دیگر اخباروں میں چھپا تو اسے پڑھ کر میرا پنجابی محاورے والا ”ہاسہ چھٹ“ گیا۔

لودھی صاحب خواہش مند تھے کہ تحریک انصاف کے عمران خان سمیت دیگر رہ نماؤں کے خلاف ”سیاسی بنیادوں پر بنائے“ مقدمات کے خاتمے کے بعد ریاستی ادارے سے مصالحت کی راہ بنائی جائے۔ عمران خان سمیت تحریک انصاف کے دیگر رہ نما جیلوں سے رہا ہوجائیں تو وہ شہباز حکومت گرانے کے لئے جلسے جلوسوں سے گریز کا اعلان کریں۔ واضح اعلان کر دیں کہ شہباز حکومت کو 2025 ء تک قائم رہنے دیا جائے گا۔ مذکورہ برس تک تحریک انصاف کی حمایت سے پارلیمان میں پہنچے افراد شور و غوغا کئے بغیر ہاتھوں پر سیاہ پٹیاں باندھے قومی اسمبلی اور سینٹ کی کارروائی میں حصہ لیتے رہیں۔ 2025ء کے بعد کیا ہو گا؟ اس کے بارے میں لودھی صاحب خاموش رہے۔

عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہونے کی وجہ سے ایوان ہائے اقتدار تک مجھے ان دنوں کسی بھی نوعیت کی رسائی میسر نہیں ہے۔ فقط صحافیانہ جبلت مگر یہ طے کرنے کو اکساتی رہی کہ نعیم خالد لودھی صاحب گلی کی زبان میں ”چاچا خواہ مخواہ“ کہلاتے کردار کی طرح از خود ”خیرخواہ“ ہوئے مصالحتی فارمولے اچھال رہے ہیں۔ وہ ریاستی ادارے کے پیغام بر نہیں۔ ایوان ہائے اقتدار تک رسائی کے حامل میرے چند ساتھیوں نے لیکن میرے پھکڑپن کو رد کر دیا۔ بضد رہے کہ ”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔“ اس کے علاوہ ”تحقیق ’کے بعد یہ“ انکشاف ”بھی کر دیا کہ لودھی صاحب مصالحتی مشن پر تنہا کام نہیں کر رہے۔ انہیں دو سابق وزراء کے علاوہ پاک فوج سے ریٹائر ہوئے چند ایسے سینئر افراد کی “سرپرستی” بھی میسر ہے جو ان دنوں کی قیادت کے بہت قریب تصور ہوتے ہیں۔ محض قیاس پر مبنی ذہن میں آئے نکات کو جوڑتے ہوئے یہ کہانی تراش لی گئی کہ “وہاں” سے اشارے کے بعد ہی مصالحتی مشن کی بات چلی ہے۔ میرا اندازہ غلط ثابت ہوتا محسوس ہوا تو انا کے ہاتھوں دل میں بٹھائے رپورٹر کو چابک مارکر بیدار کیا۔ خبر ڈھونڈنے کی زنگ آلود ہوئی صلاحیتوں کو ریگ مار لگایا اور باخبر افراد سے رابطوں کے بعد اس کالم میں بڑھک لگا دی کہ“خیرخواہوں” کو “وہاں” سے کسی بھی نوعیت کی تھپکی میسر نہیں۔ منگل کے روز ہوئی پریس کانفرنس میری خبر کو اثبات فراہم کرتی سنائی دی۔ رومال کھو دینے والے دیہاتی کی طرح یہ فرض کر لیا کہ مذکورہ پریس کانفرنس شاید میری دی خبر کی تصدیق کی خاطر ہی بلائی گئی تھی۔

مذکورہ پریس کانفرنس نہ ہوتی تو میں آج کا کالم ان پریشان کن خیالات کو بیان کرنے تک محدود رکھتا جو منگل ہی کے دن سپریم کورٹ کی کارروائی کو ٹی وی سکرین پر دیکھتے ہوئے ذہن میں آئے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 عزت مآب ججوں نے ایک مشترکہ خط کے ذریعے عدالتی معاملات میں ریاستی مداخلت کا شکوہ کیا تھا۔ اپنے دعوے کی حمایت میں چند واقعات کا ذکر بھی اس خط میں موجود ہے۔ جو دعویٰ ہوا اس کی تحقیق کے لئے چیف جسٹس صاحب نے حکومت کو ایک کمیشن بنانے کو آمادہ کیا۔ کمیشن کا قیام عمل میں آ گیا تو اس کے نامزد ہوئے سربراہ نے سوشل میڈیا پر اٹھے ہیجان سے گھبرا کر معذرت کا اظہار کر دیا۔ معاملہ اب سپریم کورٹ ہی کو سنبھالنا پڑ رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے عزت مآب ججوں سمیت وکلاء برادری بھی زیر غور معاملے کے بارے میں واضح طور پر منقسم نظر آ رہی ہے۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ عدالتی معاملات میں ”ریاستی مداخلت“ روکنے کے لئے ان افراد کو طلب کیا جائے جنہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چند اراکین کو مبینہ طور پر دباؤ میں لانے کی کوشش کی۔ اگر ان کے خلاف لگائے الزامات درست ثابت ہوں تو مبینہ مداخلت کے ذمہ دار اہلکاروں کو عبرت کا نشان بنانے والی سزائیں دی جائیں۔ دوسرا گروہ نظر بظاہر عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے ریاستی و سیاسی بندوبست کے حوالے سے ”حقائق“ کا ادراک کرتے ہوئے تجویز یہ دے رہا ہے کہ ماضی میں جو ہوا اسے بھلا کر ریاستی اداروں کی حدود و قیود کو واضح طور پر ازسرنو طے کر دیا جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ریاست کا ہر ادارہ اپنے لئے مختص دائرے میں رہتے ہوئے ہی کام کرے گا۔ دو انتہاؤں پر مبنی خیالات کے ہوتے ہوئے درمیانی راہ نکالنا دشوار تر محسوس ہو رہا ہے۔ غالباً اسی باعث سپریم کورٹ نے مذکورہ معاملہ کی سماعت کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا ہے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments