منصورہ میں ایک شام


جماعت اسلامی میں امیر جماعت کی تبدیلی کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن سے منصورہ میں کچھ شخصیات کے ہمراہ ملاقات ہوئی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی سے ایک جہان متاثر ہوا اور ان کی مذہبی فکر کی بہت ساری جہتوں نے مجھ سمیت بہت ساروں کو آج بھی اپنے حصار میں لئے رکھا ہے۔ لیکن نہایت ادب کے ساتھ یہ بھی بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی کی قائم کردہ جماعت سکڑتی ہی چلی جا رہی ہے اور اگر اس کے سکڑنے کی یہ ہی رفتار برقرار رہی تو خاکسار تحریک یا مجلس احرار سے اس کی حالت کی مماثلت ہو جائے گی۔

امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم، پروفیسر غفور احمد مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ لیاقت بلوچ، فرید پراچہ، امیر العظیم، فاروق چوہان، قیصر شریف سے ایک طویل عرصے سے باہمی احترام کا تعلق موجود ہے۔ اپنی شادی پر میں نے اس وقت کے امیر جماعت اسلامی منور حسن مرحوم کو دعوت نامہ دیا تو انہوں نے ڈھیروں دعاؤں سے نوازا اور تشریف لانے کا فرمایا، ان کی یہ شفقت ہمیشہ یاد آتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کا بطور امیر جماعت منتخب ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جماعت اسلامی اس بات پر آج تک قائم ہے کہ مومن کو اپنے عصر سے ہم آہنگ ہونا چاہیے کیوں کہ کسی روایتی مذہبی شخص کی جگہ ایک پڑھے لکھے شخص سے اس کی بجا طور پر توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ حالات حاضرہ کے مسائل کا حل صرف اسلاف کے کارنامے سنا کر پیش نہیں کرے گا۔

حافظ نعیم الرحمن نے پاکستان کے توانائی کے بحران پر گفتگو کرتے ہوئے درست کہا کہ پاکستان میں بڑی کمپنیوں کو تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش کا کام دینا چاہیے تاکہ پاکستان توانائی کے معاملے میں خود کفیل ہو سکے۔ ان کی رائے تھی کہ پاکستان کے تین ہمسایہ ممالک سے چین، ایران اور افغانستان سے امریکہ تعلقات کو خراب کروا رہا ہے۔ میں اس سے اتفاق نہیں رکھتا ہوں اول تو یہ کہ چین اور پاکستان کے تعلقات حالیہ کچھ عرصے میں مزید توانا ہوئے ہیں اور سی پیک میں بھی جو کام کی رفتار سست روی کا شکار تھی اس کے ازالہ کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔

جہاں تک چینی شہریوں کی سلامتی کے معاملات ہیں وہ پاکستان کی ذمہ داری ہے مگر اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی غرض سے چین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیوں کہ اقتصادی راہ داری سے دونوں ممالک کو فائدہ حاصل ہو گا اور اس کا دفاع بھی اسی سبب سے دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ پاکستان ایران تعلقات دونوں ممالک کی سلامتی کے لئے از حد اہم ہے اور دونوں ممالک کے ذمہ داران اس کی افادیت کے قائل بھی ہیں۔ اسی سبب سے جب کچھ عرصہ قبل پاک ایران سرحد پر ایک نا خوش گوار صورت حال پیدا ہو گئی تو تب بھی پاکستان نے رد عمل دینے کے ساتھ ہی یہ سفارتی بیان بھی جاری کیا کہ پاکستان کشیدگی کو بڑھانے میں دل چسپی نہیں رکھتا ہے اور یہ بھی سامنے کی بات ہے کہ کشیدگی کا آغاز کس وجہ سے ہوا تھا۔ اب امریکا کا اس میں زبر دستی کردار تلاش کر لیا جائے تو اور بات ہے ورنہ معاملہ صرف دو طرفہ ہی تھا اور پاکستان نے مزید جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابھی حال ہی میں ایرانی صدر کو خوش آمدید کہا اور یہ ان حالات میں کہا کہ جب ایران اور اسرائیل براہ راست تصادم کی کیفیت کا شکار تازہ تازہ ہی ہوئے تھے مگر پاکستان نے اس حوالے سے کسی دوسری بڑی طاقت کی پسند نا پسند کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دی۔

کچھ عرصہ قبل پاکستان نے گوادر کی بجلی کی ضروریات ایران سے پوری کرنی شروع کی، دباؤ ہوتے ہیں مگر ان کو سلیقے سے سنبھالا جا سکتا ہے۔ افغانستان کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے گمان تھا کہ جب افغان طالبان کابل میں بر سر اقتدار آ جائیں گے تو حامد کرزئی یا اشرف غنی جیسی صورتحال سے چھٹکارا نصیب ہو سکیں گا مگر ہمیں صرف کابل میں ”چائے کی پیالی“ پر ہی ٹرخا دیا گیا اور وہاں سے مستقل طور پر ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں یا ان کی پردہ پوشی کی جا رہی ہے کہ جو ہماری سرزمین کو لہو رنگ کر رہے ہیں اب ایسی کیفیت کے مستقل بنیادوں پر قائم رہنے کی وجہ سے پاکستان کو بھی اپنا جوابی رد عمل دینا پڑ رہا ہے۔

اگر کابل ہوش مندی کا مظاہرہ کرے تو بہت کچھ بہتر ہو سکتا ہے مگر اس کی نا عاقبت اندیشی کا ذمہ دار بہر حال امریکا کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اور اب جماعت اسلامی یا کسی بھی دوسری جماعت کو اس تصور سے باہر آ جانا چاہیے کہ امریکہ دشمنی کے نعرے پر عوام کی غالب اکثریت کو متاثر کیا جا سکتا ہے، وہ وقت ماضی ہوا۔ اب عوام کو جذباتی نعروں کی بجائے اپنے مسائل کے حل سے دل چسپی ہے۔ اور حافظ نعیم الرحمن کے پاس تو کراچی میں خدمت کی سیاست اور اس کے زور پر عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کا وسیع تجربہ بھی موجود ہے۔

کراچی میں انہوں نے عوامی مسائل سے اپنی سیاست کو جوڑے رکھا اور نتیجہ میں جماعت اسلامی کے لئے ایک حوصلہ افزا صورت حال قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس بات کا بھی انھیں خیال رکھنا چاہیے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت چاہے وہ حزب اقتدار سے ہو یا حزب اختلاف سے اس کی ہر معاملہ میں بس مخالفت سے گریز کریں۔ سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق پانامہ کیس میں عدالت چلے گئے جس سے صرف یہ محسوس ہوا کہ دیگر جماعتوں کی مانند جماعت اسلامی کا مقصد بھی صرف نواز شریف کی مخالفت تھی حالاں کہ اس وقت نواز شریف کی مخالفت جمہوریت کی مخالفت تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments