پشتو ادب میں بیدل شناسی ( 1 )


علمی و ادبی طور پر ایک حیران کن امر ہے کہ شہرۂ آفاق ’چار عنصر‘ ، ’نکات بیدل‘ ، ’عرفان‘ ، ’محیط اعظم‘ ، ’طور معرفت‘ اور ’طلسم حیرت‘ کے خالق ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل ( 1644 ع۔ 1720 ع ) کی وفات کے فوراً بعد ان کے افکار پشتو شعر ادب میں دیکھے جا سکتے ہیں، ’نغز بیدل‘ کے نام سے بیدل کے منثور و منظوم اردو مترجم ڈاکٹر سید نعیم حامد علی الحامد کے مطابق ’بیدل کی زندگی میں شاہجہاں سے لے کر محمد شاہ رنگیلا تک آٹھ مغل بادشاہ تخت طاوس پر متمکن ہوئے اور غزل، مثنوی، قصیدہ، قطعہ، رباعی اور دیگر اصناف سخن میں اڑسٹھ ہزار دو سو بیانوے اشعار کہے۔ لیکن زبان و بیان اور ندرت اظہار کی سطح گرنے نہیں دی‘ ۔ محمد سرور پاک فر کی نگرانی میں شائع شدہ ’سی مقالہ دربارہ بیدل‘ میں پشتو و فارسی کے مستند اور کہنہ مشق محقق علامہ عبدالحئی حبیبی دو علمی مقالوں ’سبک ہندو مکتب بیدل‘ اور ’دیوان بیدل بہ خط او‘ میں اول الذکر مقالہ میں ادبستان قندھار سے متعلق پیروان سبک بیدل میں سردار مہر دل خان، مرزا حنان، ملا جمعہ اور ملا شمس الدین کا ذکر کرتے ہیں۔

ابو المعانی مرزا عبدالقادر بیدل کے حوالے سے زمانی، اور ایک حد تک مکانی طور پر بیدل کے افکار کے زیادہ قریب خانوادہ خوشحال خان خٹک کے چشم و چراغ اور پشتو کے شاعر بے بدل کاظم خان شیدا ( 1727 ع۔ 1780 ع تخمیناً) ہیں، جو اس وقت رامپور میں مقیم تھے اور ان تمام ادبی محاسن سے مزین و متصف تھے جو بیدل کا طرۂ امتیاز تھے یعنی متصوف و مشکل پسند اور تازہ گوبھی تھے، اور فارسی شعری روایت کے دلدادہ اور خوشہ چین بھی۔ لیکن ندرت فکر اور معنی آفرینی میں جس طرح بیدل اہل زبان کو بھی بسا اوقات پیچھے چھوڑ جاتے ہیں بعینہٖ شیدا بھی اپنے معاصرین میں منفرد ممتاز نظر آتے ہیں۔

وسعت فکر میں کاظم خان، بیدل کے علاوہ میرزا صائب تبریزی، ناصر علی سرہندی، جلال اسیر، شوکت بخاری، غنی کشمیری، طالب آ ملی، ابو طالب کلیم کاشانی اور فارسی کے دوسرے شعراء کے افکار کا عمیق مطالعہ رکھنے کے علاوہ گاہے بہ گاہے انہیں خراج تحسین بھی پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ ہمیں پشتو، اردو اور فارسی کے پشتون شاعر قاسم علی خان آفریدی کے ہاں بھی بیدل کا ذکر ملتا ہے۔ محقق سید خیال بخاری ’دیوان قاسم علی خان آفریدی‘ کے ابتدائیہ میں ان کے عرصہ حیات سے متعلق رقمطراز ہیں کہ ’یہ سلطنت مغلیہ کے زوال او ر ملک میں طوائف الملوکی کے آغاز کے دن تھے‘ ، بیدل کے ہاں بھی یہی مضامین ملتے ہیں۔

کاظم خان شیدا چونکہ خاندانی رنجشوں اور تحصیل علم کی خاطر سرائے اکوڑہ (نوشہرہ۔ خیبر پختونخوا) سے عازم سفر ہو کر کشمیر، سرہند اور رامپور میں مہاجرت کے شب و روز گزار رہے تھے تو اپنے خاندانی علمی پس منظر اور تجسس علمی کی بنیاد پر باقی ہم عصر پشتون شعراء کے مقابلہ میں انہیں فارسی شاعری اور شعراء سے ایک بلاواسطہ رسائی تھی۔ اور سرہند کے خانوادۂ علمی کے چشم و چراغ حضرت غلام معصوم ثانی کے مرید ہونے کے ناتے مابعدالطبیعاتی افکار اور علوم متداولہ میں بھی قابل رشک درک رکھتے تھے۔

تذکرہ کا ملان رامپور میں حافظ احمد علی خان صاحب تذکرہ تکملۃ الشعراء کے حوالے سے کاظم خان سے متعلق لکھتے ہیں ’تمام انسانی صفات سے متصف، مجمع ہنر و قابلیت و سخندانی، صاحب فضل و کمال شاعر خوش مقال، نازک خیال، معنی یاب تازہ نزاکت بند، متلاشی مضامین دل پسند و بلند۔ اس وقت قوم افاغنہ۔ روہ میں ایسا خوش فکر اور خوش گو آدمی نہ پیدا ہوا اور نہ ہو گا۔ بلکہ بحث ایران میں بھی ہی نازک خیالی اور ادا بندی میں مثل سلیم، حکیم، شوکت بخارائی، صائب تبریزی، ناصر علی سرہندی، اور غنی کشمیری کے یکتا ہیں‘ ۔

ایسے میں بیدل عظیم آبادی جیسے کامل صوفی اور بے مثل شاعر کا مطالعہ ان کے ذوق کے عین مطابق تھا۔ اس لیے پشتو میں بیدل شناسی کی بات کرتے ہوئے ہمارے سامنے سب سے پہلے کاظم خان شیدا ہی آ جاتے ہیں۔ جن کے دیوان کی داخلی شہادتیں اس بات پر دال ہیں کہ بیدل کے افکار کا عمیق مطالعہ رکھنے او ران کے شعری علویت کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی تخلیقی انفرادیت بھی برقرار رکھی تھی۔

پشتو ادب میں بیدل شناسی کا سہرا خود کاظم خان شیدا ہی کے سر سجتا ہے جنہوں نے بعد کے شارحین اور پشتو اور فارسی تقابلی مطالعہ کے محققین کے لیے نئے در وا کیے۔ نتیجتاً شیدا شناسی اور بیدل شناسی لازم و ملزوم ٹھہرے۔ متعجبانہ طور پر سبک شناسی کے مصنف ملک الشعراء محمد تقی بہار جیسے ادبی مورخ اور محقق بھی رقمطراز ہیں کہ ’بیدل غنی اور ان کے متاخرین ایسی عبارات لاتے ہیں جس میں صنعت و مضمون کی گہرائی تو ہوتی ہے۔ مگر مقصد عنقا ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات ہوتا ہی نہیں‘ ۔

یوں ایران میں بھی بیدل کو ہندی ہونے کی نسبت سے ایک عرصہ تک نظرانداز ہی کیا جاتا رہا۔ جس طرح ان کی ایک حد تک نظرانداز رہنے کی وجہ ان کا اغراق، معنی آفرینی، تازہ گوئی اور مشکل پسندی رہی ہے۔ بعینہ پشتو ادب میں کاظم خان شیدا بھی اپنی انہی ادبی و لسانی اختصاصات، مشکل پسندی اور گنجلک علمی اور متصوفانہ مضامین پر طبع آزمائی کی وجہ سے محققین و شارحین کی دلچسپی کا سامان نہیں رہے۔ لہذا ان کی شعر گوئی کی تفہیم و تشریح پر گنے چنے، ناکافی اور تکراری تحقیقی کام نظر آتے ہیں۔

پشتو ادب میں شیدا کی شعری علویت اور انفرادیت سے آشنا محققین نے ان کے افکار کا کلی ادراک کرنے کے لیے بیدل وغیرہم کا مطالعہ اساسی سمجھ کر بیدل شناسی سے شناسائی کی بنیاد رکھ دی۔ شیدا شناسی کے اولین علمبرداروں میں عبدالروف بینوا اور ہمیش خلیل کے علاوہ کاظم خان شیدا کے شاعری کے مستنداردو مترجم اور شارح مرحوم سید انوارالحق پہلے محقق ہیں۔ جنہوں نے بیدل کے افکار پر اردو میں اجمالی لب کشائی کی ہے، بعد کے محققین دوست محمد خان کامل مومند، صدیق پسرلی، سیف الرحمان سید، فاروق سمائلزی، پروفیسر اور خان داؤد، پروفیسر قاسم بنوی، ڈاکٹر پرویز مہجور خویشگی، سعید گوہر، عبدالکریم بریالی، فرہاد محمد غالب ترین، مشتاق مجروح یوسفزئی، پروفیسر نسیم اچکزی، پروفیسر جمیل یوسفزئی، ڈاکٹر محمد زبیر حسرت، ڈاکٹر حنیف خلیل، پروفیسر محمود ایاز، اسداللہ غضنفر، نور الحبیب نثار، ڈاکٹر لیاقت تابان، ڈاکٹر بنارس خان خٹک، ڈاکٹر جہان عالم، عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ، محمد جواد شفق اور کئی دیگراحباب جب تفصیلاًٍ شیداشناسی پر لکھتے رہے تو اجمالاً بیدل شناسی اور فارسی ادب کو بھی احاطہ تحریر میں لاتے رہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نسیم اچکزی نے تو حال ہی میں کاظم خان شیدا کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔

پشتو میں بایزید انصاری المعروف بہ پیر روشان کے روشانی مکتب فکر کے بعد فارسی شعری روایت، لفظیات، افکار، رمزیت نگاری، اور سبک ہندی کی طرف کلی میلان ہمیں شیدا کے متقدمین علی خان بابا، عبدالحمید بابا، اشرف خان ہجری، محمدی صاحبزادہ، اور معاصرین و متاخرین شمس الدین کاکڑ، پیر محمد کاکڑ، کا مگار خٹک، حسین اور حنان بارکزئی کے ہاں بھی نظر آتا ہے لیکن شیدا سبک ہندی سے متعلق افکار نظم کرنے میں ید طولی رکھتے ہیں۔

افغانستان کے استاد ادب اور محقق عبدالشکور رشاد بیدل شناسی کے لیے متبادل لفظ ’بیدل پیژاند‘ (بیدل شناس) استعمال کرتے ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی اپنے دو رفقاء علامہ اقبال، اور سر راس مسعود کی معیت میں کیے گئے ’سیر افغانستان‘ کی روداد میں، جب ان کے لئے کابل میں محفل ساز منعقد کی گئی، تحریر فرماتے ہیں کہ ’ہندوستان میں تو بے دل عظیم آبادی کی بہت کم پرسش ہے مگر افغانستان اور سنا ہے وسطی ایشیا کے دوسرے فارسی داں ملکوں میں بیدل کی بہت قدر ہے، قوالوں نے بھی بیدل کی غزل شروع کی‘ ۔

بعد میں ’دارالامان میں واقع موزہ کابل میں فرغانہ سے حاصل شدہ بیدل کے کلیات کے نہایت عمدہ نسخہ کی موجودگی‘ کا ذکر فرماتے ہیں۔ ویسے محترم ڈاکٹر عبدالغنی کا ’عبدالقادر بیدل کی زندگی اور آثار ( 1960 ع)‘ پر انگریزی میں تحریر کردہ پی ایچ ڈی مقالہ کے میر محمد آصف انصاری کے فارسی ترجمہ ’احوال و آثار میرزا عبدالقادر بیدل‘ نے اسی قدیم نسبت کو پھر سے زندہ کر دیا۔ یہاں کے ایک اور بلند پایہ محقق حبیب اللہ رفیع بیدل کے ایک شعر کا تقابل پشتو کے لسان الغیب رحمان بابا کے ایک شعر سے کر کے دونوں کے درمیان ایک فکری رابطہ پیدا کرنے کی سعی کرتے ہیں، تاہم وہی شعر صائب تبریزی کے ہاں بھی ملتا ہے۔ اگرچہ دونوں کا عرصۂ حیات تقریباً ایک ہی ہے۔ تاہم یقینی طور پر کچھ کہنا حتمی نہیں ہو گا۔

محقق ڈاکٹر عبدالرحیم درانی کے ساتھ ایک مکالمہ میں افغانستان کے محقق اور شاعر ڈاکٹر عبدالغفور لیوال محو کلام ہیں کہ ’افغانستان میں اگرچہ بیدل کی شاعری پر پشتو میں مقالات تحریر کیے گئے ہیں۔ تاہم شاعری کا پشتو ترجمہ نظر نہیں آتا اور یہ شاید بیدل کے پیچیدہ افکار کی وجہ سے ہو۔ البتہ فارسی میں بیدل کی شاعری کی تعبیر و تفہیم کے ضمن میں کافی کام ہوا ہے۔ علامہ صلاح الدین سلجوقی نے‘ نقد بیدل ”ڈاکٹر اسداللہ حبیب نے ’بیدل و چار عنصر‘ محمد عبدالحمید اسیر قندی آغا بیدل شناسی کا عرفانی سلسلہ رکھتے تھے، کابل میں موسیقی کے ایک مکتب ’خرابات‘ استاد قاسم افغان اور استاد محمد حسین، استاد سر آہنگ بیدل کی شاعری کو گاتے رہے اور تشریح میں مہارت رکھتے تھے، بیدل قندھار سے محبت رکھتے تھے اور ’چہار عنصر‘ میں قندھار کا ذکر ملتا ہے ’۔ افغانستان کے مستند محقق زلمی ہیواد مل کے مطابق افغانستان میں کلام بیدل کے کلام کے کئی منظوم پشتو ترجمے ہوچکے ہیں تاہم زیور طباعت سے تاحال محروم ہیں۔

عربی اور فارسی ادب سے دوری نے جہاں باقی پاکستانی زبانوں کو علمی لحاظ سے تہی دامنی کا شکار کر دیا ہے۔ وہاں پشتو بھی ان مسائل سے نبرد آزما رہی ہے۔ حالانکہ لسانی قدامت اور صرفی و نحوی ساخت کے لحاظ سے پشتو کے لسانی روابط جدید فارسی کی بجائے قدیم پہلوی سے بھی جا ملتے ہیں۔ قدیم پشتون شعراء پشتو کے علاوہ فارسی اور اردو زبانوں میں بھی شعر و ادب تخلیق کرتے رہے لیکن برصغیر میں فارسی زبان سے لسانی اور ثقافتی انقطاع نے ہمیں یکسر ان علمی خزائن سے محروم کر دیا۔

بیدل شناسی بھی فارسی سے نابلد ہونے کی وجہ سے اخفا ہی میں رہی۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پشتو میں بیدل شناسی کے نئے زاویے وا ہوتے جا رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں کہ پشتو اور فارسی زبان کے درمیان اسی قدیم رشتہ کو ازسرنو دریافت کیا جائے گا اور فکر و نظر کی نئی جہتیں منکشف ہو جائیں گی۔ نوجوان محققین سے اس ضمن میں بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments