ایک من گندم سستی اور لارج پزا مہنگا


سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ بار بار نظر سے گزری اور ہر مرتبہ ہم دل تھام تھام کر رہ گئے۔ پوسٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس وقت گندم 2800 روپے کی من بک رہی ہے اور لارج پزا 3000 روپے کا فروخت کیا جا رہا ہے۔ ساتھ بتایا گیا کہ سرمایہ دارانہ نظام آدم خور بن گیا ہے۔
Capitalism is Cannibalism

ہم نے غور کیا تو بات کو درست پایا۔ سرمایہ داری نظام کا ظلم دیکھیں۔ چالیس کلو گندم کی قیمت 2800 روپے اور ایک کلو سے بھی کم وزن کے پزے کی قیمت تین ہزار۔ اس بات سے کوئی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا کہ اگر انصاف سے کام لیا جائے تو یا تو ایک من گندم کی قیمت تین ہزار فی کلو کے حساب سے سوا لاکھ روپے مقرر کی جانی چاہیے یا پھر ایک کلو وزن کا پزا گندم کے ریٹ پر 70 روپے کا بیچا جانا چاہیے۔ اگر انسانی محنت کے تناظر میں بھی دیکھا جائے تو پزا محض پندرہ منٹ میں بن جاتا ہے جبکہ گندم پیدا کرنے میں کئی ماہ لگتے ہیں، سو گندم مہنگی ہونی چاہیے۔

یہ بھی نوٹ کریں کہ پزا گندم کے بغیر بن ہی نہیں سکتا۔ بعض لبرل اس پر اعتراض کریں گے کہ پزے میں قیمتی پنیر ڈلتا ہے تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ یہ بھونڈی دلیل دینے والے یہ نہیں دیکھتے کہ گندم بنانے کے لیے بھی کھاد استعمال کی جاتی ہے جس کی ایک بوری کی قیمت آدھ سیر پنیر سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ پزا پنیر کے بغیر بھی بن جاتا ہے۔ ترک قوم پنیر کے بغیر کا پزا لحمجون کے نام سے بناتی ہے اور ہمارے دیس میں قتلمہ بھی بے پنیر کا پزا ہی ہے۔

لیکن یہ بات محض گندم اور پزے پر نہیں رکتی۔ اسی طرح کپاس سستی ہے اور کپڑا مہنگا۔ جپسم سستا ہے اور سیمنٹ مہنگا۔ ریت سستی ہے اور سلیکون مہنگا۔ بلکہ سلیکون کو بعض انسانی اعضائے رئیسہ یا کمپیوٹر چپ میں ڈال دیں تو سونے سے بھی مہنگا ہو جاتا ہے، کہ پہلی صورت میں وہ حسینہ کی کشش میں خاطر خواہ اضافہ کر دیتا ہے اور دوجی میں کمپیوٹر کی پراسیسنگ پاور میں۔ قیمتوں کا یہ تفاوت سرمایہ دارانہ نظام کی نا انصافی ہی نہیں بلکہ ظلم عظیم ہے۔

اب ہمارے لال سرخ دوست کہیں گے کہ پاکستان میں کارل مارکس کی بات پر توجہ دی جاتی تو نہ صرف ایک من گندم اور ایک لارج پزے کی قیمت ایک برابر ہوتی بلکہ ریت اور کمپیوٹر چپ بھی یکساں نرخوں پر فروخت ہوتے۔

کارل مارکس کا نام آیا تو اس کی بات بھی کر لیتے ہیں۔ یہ بات تو ہم بخوبی جانتے ہی ہیں کہ مغرب نے تمام سائنس مسلمانوں سے لی ہے اور ان سائنسی علوم کا انگریزی نام رکھ کر ہم ہی پر رعب گانٹھتے ہیں کہ وہ عالم فاضل ہیں اور ہم گزشتہ ہزار پانچ سو برس سے تاریخ کے دسترخوان پر مفت خوری کرتے ہوئے مکھیاں مار رہے ہیں۔

لیکن شاید آپ کے لیے یہ بات نئی ہو کہ کارل مارکس نے اپنا معاشی اور معاشرتی برابری کا نظریہ بھی ہماری مقدس سر زمین سے لیا ہے۔

اس دھرتی پر مارکس سے بھی صدیوں پہلے ایک دانش مند اور منصف مزاج راجہ نے معاشی اور سماجی برابری کا بہترین نظام قائم کر دیا تھا۔ اس عظیم مصلح کا نام مہاراجہ چوپٹ راج تھا جنہوں نے اندھیر نگری کے نام سے شہرت دوام پانے والی اپنی سلطنت میں اس بات کو یقینی بنایا کہ بھاجی بھی اسی ریٹ پر بکے جس ریٹ پر اس سے پکایا ہوا کھاجا ملتا ہے۔ اس منصفانہ نظام نے اندھیر نگری چوپٹ راج کے نام سے شہرت دوام پائی۔ ہمیں ہرگز بھی تعجب نہیں ہو گا اگر کوئی محقق یہ ریسرچ کر دے کہ ہندوستانی نظام معاشرت سے آشنا کارل مارکس نے اپنا معاشی اور معاشرتی برابری کا نظام مہاراجہ چوپٹ راج کے نظام سے اخذ کیا ہے۔

اب اگر ٹکے سیر بھاجی اور ٹکے سیر کھاجا کی یکساں قیمت کا نظام دوبارہ رائج کر دیا جائے تو سرمایہ دار نظام کی اس لعنت سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے جس میں خام مال کی قیمت کم رکھی جاتی ہے اور اس سے تیار شدہ مال کو فنشڈ گڈز کا فینسی نام دے کر مہنگا بیچا جاتا ہے۔ یوں ٹکے سیر گندم ہو گی تو پزا بھی ٹکے سیر ملے گا۔ جتنے پیسوں کی روئی ملے گی اتنے ہی پیسوں میں اسی وزن کی قمیض بھی سب کو دستیاب ہو گی۔ گنا جتنے روپے سیر ہو گا، چینی بھی اتنے ہی روپوں کی سیر ملے گی۔

مہاراجہ چوپٹ راج نے نہ صرف اشیا کی قیمتوں میں برابری کا سسٹم بنایا تھا بلکہ انہوں نے معاشرتی برابری پر مبنی ایسا قابل رشک نظام بھی تشکیل دیا تھا جس کے تحت کسی شخص کو محض اس بنیاد پر پھانسی نہیں دی جا سکتی تھی کہ اس نے کوئی جرم کیا ہے۔ بلکہ اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ جس شخص کی گردن میں پھندا فٹ آئے صرف اسے ہی سولی پر چڑھایا جائے۔ یعنی ثبوتوں وغیرہ کی پخ لگائے بغیر سو فیصد میرٹ پر سزا کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔

ہائے ہم نے اپنی دھرتی کے عظیم سپوتوں کو بھلا دیا، اور اب شکوہ کناں ہیں کہ ایک من گندم کی قیمت کم ہے اور ایک لارج پزے کی زیادہ۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1545 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments