پرویز ہودبھائی: بات سے بات نکلے گی


Hassan Umar Sahafi

گزشتہ ہفتے سندھی اسٹوڈنٹ سوسائٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام اسٹڈی سرکل کے گیسٹ اسپیکر عصر حاضر کے سقراط (ڈاکٹر پرویز ہودبھائی) صاحب تشریف فرما ہوئے، ڈاکٹر صاحب عصر حاضر کے قد آور اکابر سے چونچ لڑانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، علمی اور ادبی حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا تعارف لکھنا سورج کے آگے دیا رکھنے کے مترادف ہے لیکن پھر مختصراً بیان کرتا چلوں کہ ڈاکٹر صاحب دنیا کی بہترین یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ، حساب اور نیوکلیئر فزکس کے مضامین میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور نیوکلیئر فزکس میں باقاعدہ پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کی ابتداء کچھ اس طرح سے شروع کی کہ کوئی بات شروع کرو وہاں سے کوئی اور بات نکلے گی، تو میں نے وہاں سوال کر لیا کہ ہمارے معاشرے میں دن بدن بڑھتے ہوئے انتہا پسندی کا کیا سبب ہے؟

ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر ہم تاریخی پس منظر سے دیکھیں تو ہمیں مذہبی تشدد سے بھری ہوئی تاریخ ملتی ہے اور ریاست آج کی طرح ہمیشہ خاموش رہی۔ انتہا پسندی سے زیادہ جہالت دکھائی دیتی ہے اور شدت پسند کم و بیش دنیا کے ہر معاشرے، مذہب اور تہذیب میں پائے جاتے ہیں، ان کی تعداد مٹھی بھر اور پورے معاشرے کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے، تشویش ناک صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ شدت پسند عناصر ریاست اور نظام پر اثر انداز ہو کر پورے معاشرے کو یرغمال بنا لیں اور معاشرے میں اپنے وجود سے متعلق خوف اور دہشت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

معاشرے میں انتہا پسندی کو فروغ دینے میں سب سے بڑا کردار دگر گوں معاشی صورتحال کا ہے۔ جس ملک کے 39 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں، وہاں والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کروانے کے لئے کیسے بھیج سکتے ہیں۔ لہذا بچوں کو ابتدائی تعلیم کے لئے دینی مدارس میں داخل کروا دیا جاتا ہے اور بہت سے دینی مدارس ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں اور جب دینی مدارس پر چھاپے مارے جاتے ہیں جہاں سے اسلحہ برآمد ہوتا ہے اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والے لٹریچر بھی حاصل ہوتا ہے جو کہ انتہا پسندی کے فروغ میں بہت بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔

انتہا پسندی کو بڑھاوا دینے میں ایک اور انتہائی اہم کردار مذہبی اور مسلکی منافرت کا بھی ہے۔ دنیا کے ہر مذہب اور ہر قوم میں مسالک پائے جاتے ہیں مگر جو شدت پسندی ہمارے ہاں موجود ہے وہ دنیا کے کسی خطے میں موجود نہیں ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹے چھوٹے فروعی اختلافات کو بنیاد بنا کر قتل و غارت کا وہ بازار گرم کر دیا جاتا ہے کہ جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔

انتہاپسندی کے عفریت نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، پتہ نہیں چلتا کب کوئی کسی پے بھی کسی وقت بھی کفر کا الزام لگائے اور لوگوں کا جم غفیر تحقیق سے قبل ملزم کو مار ڈالے۔ اب تو نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ اگر کسی خاتون نے عربی رسم الخط کے کپڑے پہنے ہوں تو اسے بھی اسلامی شعائر کی توہین کا مرتکب قرار دے کر لوگ مارنے چل پڑتے ہیں۔

یونانی فلسفہ جب عرب سر زمین میں داخل ہوا تب مذہبی تشدد اپنی انتہاپسندی پر تھا، ہر اختلاف کو مذہبی آڑ میں دیکھا گیا اور اختلاف کو جبر و تشدد سے روکنے کا کام کیا گیا۔ مسلم فلاسفر کبھی بھی کسی بھی سیاسی نظام پر بات نہیں کر سکتے تھے اور نہ لکھ سکتے تھے اور یونانی سیاسی فکر کے اندر خلیفہ اور خلافت ڈھونڈتے نظر آئے۔

مسلم سائنس دانوں کے بارے میں ہودبھائی صاحب نے بتاتے ہوئے کہا کہ آج بڑے فکر سے کہا جاتا ہے کہ یہ ہمارے مسلم سائنس دانوں تھے ہاں وہ تھے لیکن جو انہوں کا مسلمانوں کے ہاتھوں حشر ہوا وہ بھی سوچو۔

یعقوب الکندی کے بارے میں بتایا کہ ان کا کتب خانہ ضبط کیا گیا اور بعد میں سرعام کوڑے مارے گئے۔

ابن رشد کو بے دین قرار دے کر اس کی کتابیں نذر آتش کر دی گئیں، اس عظیم انسان پر نمازیوں نے تھوکا بھی تھا۔

ابن سینا کو بھی گمراہی اور مرتد قرار دیا گیا۔

مزید ہودبھائی صاحب نے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قومی کلچر میں سائنس کا کوئی وجود نہیں ہے، ٹیلی ویژن پر دن رات سیاسی شعبدے بازی ہوتی تو ہے لیکن سائنس کے بارے میں ایک بھی معیاری پروگرام ہمارے ہاں نہیں بنتا، تقریباً تیس سال قبل میں نے جو سائنسی پروگرام کئیے تھے وہی ہیں۔

لاہور کے ایک سائنسی عجائب گھر کے علاوہ ملک میں اور کوئی عجائب گھر سائنس کے لئے مخصوص نہیں ہے۔

مسلم ممالک میں تقریباً 600 کے قریب یونیورسٹیاں ہیں جبکہ امریکہ میں 5758، ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں امریکہ سے بھی زیادہ یعنی 8500 یونیورسٹیاں ہیں۔ دوسری طرف ڈیلی ٹائمز کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 300 کے قریب مذہبی جماعتیں اور پارٹیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے تقریباً 28 سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہیں جبکہ 124 نے اپنا ٹارگٹ جہاد بنا رکھا ہے۔

مسلم ممالک میں شرح خواندگی 25 سے 28 فیصد کے درمیان ہے اور بعض ملکوں میں تو محض دس فیصد تک ہے، ایسے ممالک کی تعداد 25 کے لگ بھگ ہے جبکہ ایک بھی مسلم ملک میں شرح خواندگی سو فیصد نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق او آئی سی میں 76 مسلم ملک شامل ہیں اور ان میں بین الاقوامی سطح کی محض پانچ یونیورسٹیاں ہیں یعنی تیس لاکھ مسلمانوں کے لئے ایک یونیورسٹی۔ جبکہ امریکہ میں 6 ہزار، جاپان میں نو سو پچاس چین میں نو سو اور بھارت میں 8500 نجی و سرکاری یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں۔

ادھر پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد ایک کروڑ چوالیس لاکھ ہے اور مسلمانوں کے آبادی سوا دو ارب، یعنی ایک یہودی تقریباً 140 مسلمانوں کے برابر ہے، دوسرے لفظوں میں ایک یہودی ایک سو چالیس مسلمانوں پر بھاری ہے، گزشتہ ایک صدی میں 71 یہودیوں کو تحقیق، سائنس اور ادب کے شعبے میں نمایاں خدمات کے عوض نوبل انعام مل چکا ہے جبکہ مسلم دنیا میں صرف سات افراد یہ انعام حاصل کر سکے ہیں۔ یہاں تک کہ ”کنگ فیصل انٹر نیشنل فاؤنڈیشن سعودی عرب“ جو ایک مسلم آرگنائزیشن ہے، ان کی جانب سے دیے جانے والے کنگ فیصل ایوارڈ کے لئے میڈیکل سائنس اور تحقیق و ادب کے شعبے میں کوئی ایک امید وار بھی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔

کیا یہ بات نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر کے مسلمانوں کے لئے باعث شرم نہیں کہ ڈیڑھ کروڑ یہودی ہر میدان میں پیش پیش ہیں؟ 22 عرب ممالک بھی مل کر اسرائیل کی ایک اینٹ تک نہیں اکھاڑ سکے نہ سائنس میں، نہ تحقیق و ریسرچ میں نہ میڈیکل میں اور نہ ہی بے تیغ سپاہی کے طور پر۔ اس کے برعکس ڈیڈ ارب سے زائد مسلمان اختلاف و انتشار کا شکار ہیں۔

کیا مغرب کی جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے بغیر مسجد الحرام میں 30 لاکھ افراد کے بیک وقت نمازیں پڑھنے کا عمل ممکن تھا؟ حرم شریف میں بجلی کا جدید نظام، آسمان کو چھوتی عمارتیں، کیا یہ سب سائنس کی وجہ سے عالم وجود میں نہیں آیا؟ یہ سب مغربی تعلیم اور عیسائی یا یہودی سائنس دانوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔

درجنوں منزلوں پر لاکھوں نمازیوں کو چند لمحوں میں لے جانے والی جو لفٹس ہیں وہ ”مومنوں“ کی ایجاد نہیں، حرم میں بہترین قسم کا ساؤنڈ سسٹم ہے جس سے حرم شریف اور اس کے اطراف کی درجنوں بلڈنگوں میں واقع ہزاروں کمروں میں بھی امام کی آواز واضح سنائی دیتی ہے یہ ساؤنڈ سسٹم بھی مسلمانوں کی ایجاد نہیں ہے۔

ہودبھائی صاحب نے بتایا کہ حال ہی میں حامد میر نے نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اسلام آباد میں ہونے والی سرگرمیوں پر ایک پروگرام نشر کیا تھا کسی نے مجھے اس پروگرام کی ویڈیو بھیجی اور رائے طلب کی تو میں نے بذریعہ ای میل یہ جواب دیا کہ (منقول ) میں نے آپ کی بھیجی ہوئی ویڈیو دیکھی اور دل ہی دل میں یہ مصرعہ یاد کیا کہ ’حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں‘ ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آغا وقار کی جانب سے 2011 میں کی گئی دھوکہ دہی کے بعد سے کچھ نہیں سیکھا گیا۔ تفریح کے لیے میں نے اپنا پرانا مضمون پڑھا اور محسوس کیا کہ میرے پاس مزید بات کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ نیک خواہشات پرویز ہودبھائی ”۔

اظہر عنایتی صاحب نے کہا تھا کہ،
ہم اب تو صرف روایت میں اپنی زندہ ہیں
ہمارے معجزے سب مقبروں میں رکھے ہیں
نوٹ: یہ اسٹڈی سرکل سندھی اسٹوڈنٹ سوسائٹی اسلام آباد اور مہران چانڈیو صاحب کے کاوشوں سے ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments