انجینئر محمد علی مرزا کے خلاف ایک فتوے کی بازگشت


سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک فتوے کی بازگشت ہے جو دارالعلوم دیوبند کی طرف سے انجینئر محمد علی مرزا کے خلاف جاری ہوا ہے۔ جس میں متفقہ طور پر درجنوں علما کرام نے انجینیئر کو اہل سنت والجماعت سے خارج کرنے کا فرمان جاری کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مرزا جہلمی کے خیالات اہل سنت والجماعت کے برعکس ہیں اس لیے اب وہ ہم میں سے نہیں رہے اور امت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ مرزا جہلمی کے بیانات سننے سے گریز کریں، کیونکہ وہ گمراہی پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔

اب اسے فیضان ٹیکنالوجی کہیں یا کفار کی مہربانی، جنہوں نے شہرت کا یہ ٹول جسے یو ٹیوب کہتے ہیں ہمارے ہاتھوں میں تھما دیا ہے اور انہوں نے ابھی تک اس بات کا اعلان نہیں کیا کہ ان کے بنائے یہ ٹیکنالوجیکل ٹولز صرف فلاں فلاں استعمال کر سکتے ہیں اور مذہب کے پرچارک اس سے کوسوں دور رہیں۔

کفار کا یہ فیضان سب کے لیے ایک سا ہے کوئی بھی یوٹیوب پر اپنے کانٹینٹ کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتا ہے اور گولڈن بٹن حاصل کر کے وی آئی پی ہونے کا اعزاز حاصل کر سکتا ہے اور کروڑوں کما سکتا ہے۔

کچھ شخصیات کی شہرت اس سطح تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ فتویٰ سے ماورا یا بے نیاز ہو جاتے ہیں اور ان کی شخصیت کسی بھی فتوے سے متاثر نہیں ہوتی۔

انجینیئر کی شخصیت یوٹیوب کی بدولت اس مقام تک واقعی پہنچ چکی ہے۔

دوسری ان کی شخصیت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی بھی مسلک کے مدارس کی چین نہیں چلاتے اور اپنے آزادانہ کام کی وجہ سے ”فتویٰ پروف“ ہو چکے ہیں، لہذا فتوی بازی سے تو ان کا کچھ نہیں بگڑے گا البتہ شہرت کو کئی چاند ضرور لگ جائیں گے۔

اب رہا یہ سوال کہ علما امت آخر فتووں کا سہارا کیوں لیتے ہیں؟
آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ ذرا سے مختلف سوال یا مخالف آواز پر بدک جاتے ہیں؟
سوالات کا عقلی پیرائے میں جواب دینے کی بجائے مخالف کو فوری طور پر دائرہ مذہب سے خارج کر ڈالتے ہیں؟
ان سارے سوالات کا ایک ہی جواب ہے
”بے بسی“

اسی لیے تو یہ ہر اس آواز، موقف یا دلیل کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے روایتی تسلسل یا صدیوں سے قائم شدہ تصورات یا بندوبست پر کاری ضرب لگائے یا چیلنج کرے۔

المیہ یہ ہے کہ روایتی فکر کے دامن میں تاویلات کے سوا کچھ نہیں بچا، گزشتہ سے پیوستہ تاویلات کو مختلف رنگ و روغن کے ساتھ پیش کرتے رہتے ہیں اور جب انہیں بے بسی کا احساس ہونے لگتا ہے تو مد مقابل کو ملحد یا کافر قرار دے کر دائرہ مذہب سے ہی نکال باہر کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس قسم کا رویہ کب پیدا ہوتا ہے؟
جب دامن دلیل سے خالی ہو جائے اور سوال کی گنجائش نہ رہے۔

ظاہر ہے جو فکر یا فلسفہ سوالات کی چوٹ نہ سہ پائے یا تنقید کا سامنا نہ کر سکے اور اپنی اس کمزوری کا حل وہ مخالفانہ آوازوں یا سوالات کو دبانے یا دوسروں کو دائرہ مذہب سے نکال باہر کرنے میں ڈھونڈیں تو ذہن میں رکھیں کہ اس قسم کا جبری بندوبست زیادہ دیر تک قائم و دائم نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ ظلم و جبر یا ڈراؤ دھمکاؤ ایسے حربے کمزوری اور بے بسی کی علامت ہوتے ہیں اور یہ ہتھکنڈے تادیر نہیں چلا کرتے۔

اب رہا یہ سوال کہ انجینیئر کی فکر میں مختلف یا نیا کیا ہے؟ جو مخالفین کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔

1۔ ہماری نظر میں وہ روایتی حربوں کی بجائے مولویوں کو انہی کی زبان میں للکارتے ہیں۔ انہوں نے مناظرہ بازی یا کوئی بھی شعبدہ بازی کا سہارا لینے کی بجائے مختلف مسالک کے بانی علما کی ان تحاریر پر فوکس کیا جنہیں وہ کبھی اپنے عقیدت مندوں پر ولایت یا بزرگی کا رعب جھاڑنے کے لیے لکھ گئے تھے، ممکن ہے ان کو یہ گمان ہو کہ عقیدت کے اندھوں میں بھلا ایسا کوئی ”بینا“ کہاں پیدا ہو سکتا ہے جو ہماری تحریروں پر توجہ دے یا باریک بینی سے عرق ریزی کرے۔ انجینئر نے مختلف مسالک کے بڑوں کی روحانی حماقتوں کو انہی کے سامنے رکھ دیا، جنہیں پڑھ کر کچھ عقیدت مندوں کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے اپنے اپنے مسلک پر سوالات اٹھا دیے۔ انجینیئر مرزا نے کچھ نہیں کیا بس انہی کے فکری مواد کو ایک فکری چنگاری کے طور پر استعمال کیا اور اس نے آگ پکڑ لی۔

2۔ انجینئر نے خود کی شخصیت کو ایک برانڈ بنایا اور اپنی شخصیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور خود کو ایک اساطیری دیوتا کی مانند ناقابل رسائی بنالیا جس کا دیدار صرف ان کے آفیشل یوٹیوب چینل پر ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ ان کی اکیڈمی جو کہ جہلم میں واقع ہے صرف اتوار کے روز ان سے ملا جا سکتا ہے اور یہ بندوبست بھی اتنا آسان نہیں ہے۔ اس نے اپنی شخصیت کو ہر ایرے غیرے کے لیے دستیاب نہیں رکھا اور خود کو ارزاں بنانے کی بجائے مہنگا بنایا۔

3۔ انہوں نے اپنی فکر کا ایک ٹریڈ مارک بنایا جیسے ہر پروڈکٹ یا برانچ کا ایک ٹریڈ مارک ہوتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مطلوبہ پروڈکٹ اصلی ہے یا نقلی۔

انہوں نے اپنا فکری ٹریڈ مارک یا سلوگن اس اصول کو بنایا
” نہ میں بابی نہ میں وہابی میں ہوں مسلم علمی کتابی“

یہ ان کا دعویٰ ہے اب وہ اس دعویٰ پر پورا اترتے ہیں یا نہیں اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ صحاح ستہ کے مصنفین کون تھے؟

آئمہ کرام کون تھے اور جن واسطوں سے انجینیئر استفادہ کرتے ہیں وہ کون ہیں؟

4۔ کیا انجینیئر کی شخصیت سازی میں کسی بابے کا کوئی کردار نہیں؟

انجینئر پہلے بریلوی بابوں سے متاثر تھے، پھر اہل حدیث بابوں سے ہوئے اور کہا جاتا ہے کہ آج کے انجینیئر کی شخصیت میں جس شخصیت کا عکس نمایاں ہے وہ شیخ زبیر علی زئی ہیں۔ ان کے علاوہ انجینیئر کی شخصیت سازی میں مولانا اسحاق اور پروفیسر اسرار احمد کا بھی کردار رہا ہے کیا یہ بابے نہیں ہیں؟

ان کو بابا نہ بھی کہیں تو کیا فرق پڑتا ہے استاد یا پیشوا کہہ لیں۔

5۔ کیا انجینیئر ایک روایتی عالم ہے یا ایک ریفارمر؟

انہیں ریفارمر تو کسی حد تک کہا جا سکتا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذہب کو ریفارم کیا جا سکتا ہے؟

کسی بھی عمارت کو نئی شکل دینے کے لیے پہلی عمارت کو منہدم کرنا پڑتا ہے کیا مذہب کی ساخت میں یہ گنجائش موجود ہے؟

ہرگز نہیں۔ تو پھر ریفارم کا لفظ مناسب ہے؟

علم الکلام کو تو انہی حدود و قیود میں رہتے ہوئے پیش کیا جا سکتا ہے جن پر اکابرین مذہب کا اتفاق ہو اور مذہب تو عقیدے اور یقین کی دنیا ہے اس کے بنیادی اصولوں کی تشریح و توضیح تو ہو سکتی ہے ان کو تبدیل ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔

اس لیے جاوید احمد غامدی ہوں یا انجینیئر دونوں ایک طرح سے روایتی عالم ہی ہیں۔

6۔ انجینیئر کی فکر نئی ہے یا روایتی بندوبست کا تسلسل ہے؟ ان کی فکر میں مختلف مسالک کے مابین روایتی چھیڑ خانیوں کے سوا کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ وہ روایات کو لے کر ہی تو چل رہے ہیں۔ بس ان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ خواہ مخواہ کے اس اضافی بوجھ کو الگ کر رہے ہیں جو مختلف اوقات میں نئے آنے والے اپنے اپنے حساب سے مذہب پر چڑھاتے رہے ہیں۔

7۔ کیا انجینیئر ملحدین کو لوجیکل بنیادوں پر مطمئن کر پا رہے ہیں؟

ملحدین کے متعلق ان کا ایک سادہ سا موقف ہے کہ وہ کسی بھی ملحد سے اس وقت تک بات کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے جب تک وہ دائرہ ایمانیات میں رہ کر گفتگو کرنے کی حامی نہیں بھریں گے۔ ان کا ماننا ہے کہ مذہب کی بنیادیں ایمان و یقین پر کھڑی ہیں اور انہی بنیادوں کے تحت یا دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہی کسی سے بات کی جا سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو بندہ ہی لامذہب ہے اور اس کا مقدمہ ہی الحاد پر کھڑا ہے وہ آپ کے ساتھ آپ کی شرائط پر گفتگو بھلا کیوں کرے گا؟

یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے تئیں ملحدین کے سوالوں کا جواب دینے کی کوشش تو ضرور کرتے ہیں مگر ڈائریکٹ سینگ پھنسانے سے اجتناب برتتے ہیں۔

8۔ عقیدہ کی محدودیت اور انجینیئر کی بے بسی؟

مذہب عقائد کا مجموعہ ہوتا ہے اور عقیدے کی بنیاد اندھے یقین پر ٹکی ہوتی ہے، عقیدہ ایک طرح سے من کی دنیا ہوتی ہے اسی لیے مذہب کا تعلق انسان کے اندر یعنی باطن سے ہوتا ہے۔ عقیدہ و مذہب چھپا کے رکھنے کی چیز ہوتی ہے نہ کہ بیچ چوراہے عیاں یا بیان کرنے کی۔ جب آپ مذہب کو مارکیٹ کرنے کی کوشش کریں گے یا عوام میں سرعام تبلیغ کریں گے پھر سوالات تو اٹھیں گے نا۔

کوئی تنقید کرے گا تو کوئی اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کرے گا۔ ہماری محدود معلومات کے مطابق مذہب کے دامن میں سوال کی گنجائش خاصی محدود ہے، اس حقیقت کا ثبوت شہزادہ سلمان کا ویژن 2030 ہے جس میں انہوں نے مذہب کے اثرات یا عمل دخل کو خاصا محدود کر دیا ہے اور آج کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے مذہب کو ریاست سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس لیے مرزا انجینیئر جتنے بھی دلیر ہوں مذہبی باؤنڈری کو پار کرنا ان کے بس میں نہیں ہے اور موصوف وہ پر بھی کہاں سے لائیں گے جن کی بنیاد پر تشکیک کا پرندہ محو پرواز رہتا ہے۔

وہ مذہب پر اٹھنے والے سنجیدہ سوالات کا جواب ایمانی و مذہبی دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہی دے سکتے ہیں، اپنی فہم کی بساط کے مطابق تاویل کرنے کے علاوہ ان کے پاس بھی کوئی چارہ نہیں ہے یا شاید مذہب کے دامن میں ”بیانڈ یا آؤٹ آف دی باکس“ جانے کی گنجائش بہت محدود ہوتی ہے۔

چونکہ عقیدہ اور علم دو الگ الگ حقیقتیں یا دنیائیں ہیں۔ عقیدہ یقین کے دامن میں پناہ حاصل کر کے ابدی اطمینان یا منزل پا لیتا ہے جبکہ علم تو تشکیک و جستجو کے پرخار راستوں پر مسلسل سفر جاری رکھتا ہے۔ علم کو نتائج یا منزل کی بھلا کیا پرواہ؟

کرشنا مورتی کا کہنا تھا

” ٹرتھ از پاتھ لیس لینڈ“ سچائی کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا یہ ہر طرح کے روایتی راستوں یا حدود و قیود سے ماورا ہوتا ہے۔ 9۔ انجینیئر کی مناظرہ نہ کرنے کے پیچھے منطق کیا ہو سکتی ہے؟

انجینیئر اپنے شخصی خول کے اندر بند ہیں اور علمیت کے زعم کا شکار ہیں اور خود کی ذات کے متعلق نرگسیت کا شکار ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ جو ان کی ذہنی صلاحیت یا علمی قد کاٹھ ہے اس لیول کا عالم جب ان کے مد مقابل ہو گا تو وہ مناظرہ کر لیں گے۔

ابھی تک انہیں اپنے ”کیلیبر“ کے برابر کا عالم نہیں ملا اور بچے جمہوروں کو منہ لگا کر وہ اپنے شخصی معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے۔ اس لیے وہ مناظرہ کرنے کی بجائے صرف مناظرے کا ڈراوا رکھنا چاہتے ہیں۔

انجینیئر بڑے شاطر اور ذہین آدمی ہیں اور جس طبقے سے ان کا ٹکراؤ ہے انہی میں تو پل بڑھ کے وہ جوان ہوئے ہیں اور وہ اپنے روایتی حلقے کے سارے داؤ پیچ خوب جانتے ہیں اور جلد بازی اور جوش خطابت میں اپنی سفری کشتی کو کسی ایسے بھنور میں پھنسانا نہیں چاہتے جہاں سے نکلنا مشکل ہو جائے۔ وہ اپنے سفر کو ایسے ہی روایتی اٹکھیلیوں یا شغل میلے کے انداز میں جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں۔ جو شہرت، مقبولیت یا بلندی انہیں المہند علی المفند اور حسام الحرمین ایسی کتابوں کی نقطہ چینی کرنے، مختلف مسالک کے بابوں کی روحانی کوتاہیوں کی موشگافیاں کرنے، مختلف فرقوں کی کتابوں کی عرق ریزی کرنے اور مناظرے کا رعب جمائے رکھنے کی بدولت حاصل ہوئی ہے وہ خواہ مخواہ میں کسی مناظرے کی نظر نہیں کرنا چاہتے۔

اقرار الحسن نے نجانے کتنے بابوں کو ننگا کیا اور حال ہی میں شف شف سرکار کی جو بینڈ اس نے بجائی ہے کیا کہنے۔ لیکن حاصل کیا ہوا؟

کچھ بھی نہیں، اس کا لنگر پانی آج بھی اسی طرح سے چل رہا ہے اور کچھ عرصے بعد لوگ سب کچھ بھول بھی جائیں گے۔ انجینیئر بھی بڑے اچھے سے جانتے ہیں کہ اگر وہ مناظرہ کی سطح تک چلے جاتے ہیں تو فرقے والوں کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا البتہ انجینئر کا کچھ نہیں بچے گا۔

ان کے متعلق ایسی ایسی کہانیاں بنیں گی کہ موصوف کی بقیہ زندگی تردید اور رد کی نذر ہو جائے گی۔

ہمارا یہ ماننا ہے کہ جاوید احمد غامدی کی فکری بقا ان کے حلم، برداشت اور فلسفیانہ سی موشگافیوں میں پنہاں ہے۔ جس دن وہ اپنے اسٹائل سے ہٹے یا روایتی پن کی نذر ہوئے اس دن ان کا شخصی طنطنہ ختم ہو جائے گا۔

اسی طرح سے انجینئر محمد علی مرزا کی فکری بقا ان کے بلنٹ، تفاخرانہ و تکبرانہ انداز میں ہے اور دوسرے فرقوں کی وہ تحاریر ہیں جن کو رقم کرنے والے کب کے زمین کا رزق بن چکے، جس دن وہ اپنے اسٹائل سے ہٹے یا کسی کے ساتھ لائیو مناظرہ کر بیٹھے بس اس دن سے ان کا شخصی بت لوگوں کی نظروں میں شکستہ ہونا شروع ہو جائے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments