بچپن بڑی مہربان چیز ہوتی ہے


\"mehwish\"زندگی میں وہ اصول جو لڑکپن یا ادھیڑ عمر میں بالکل نبھاۓ نہیں نبھتے، بچپن ان اصولوں پہ بہت آسانی سے عمل پیرا ہوتا ہے۔ دوستی ہی کی مثال لے لیں۔ بچپن کی دوستیاں اتنی پکّی اور سچی معلوم ہوتی ہیں کہ حد نہیں۔ مجھے یاد ہے چھٹی جماعت کی آخری کلاس تھی اور سخت دوپہر اور سخت بوریت ہو رہی تھی اور گھڑی دو بجا کے نہیں دے رہی تھی۔ کہ اچانک ہمارے برابر میں بیٹھی ہماری ایک سہیلی نے ہم سے کہا \’ہم بھی \’\’بیسٹ فرینڈز\’\’ بن جائیں؟ جیسے وہ فلاں فلاں لڑکیاں ہیں؟ ہائے ہمارا تو جیسے خوشی کے مارے دم ہی نکل گیا۔ بیسٹ فرینڈ۔ اور وہ بھی میری۔ ہم جھٹ تیار ہوگئے جیسے اب کمر کس لینی ہے اور بندوق لے کے سرحد کی حفاظت کرنی ہے۔ جیسے ہی کوئی دشمن ہماری دوست پہ کسی بھی قسم کا وار کرے گا ہم اس پہ اپنی پھرتیلی زبان کے نشتر چلا دیں گے۔ بھئی آخر ہماری \’بیسٹ فرینڈ\’ ہے۔ کوئی مذاق نہیں۔

خیر سے وہ وقت یاد کر کے اب ہنسی آتی ہے کیونکہ وہ بیسٹ فرینڈ بھی عجیب تھی – اور وہ بچپن کے مسائل بھی عجیب تھے۔ دسویں جماعت تک ہم \’بیسٹ فرینڈز\’ رہے لیکن اس دوستی کے عرصے میں اتنے نشیب و فراز آئے کہ ایک پورا ناول ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ چونکہ ہم نے وعدہ وفا کرنا تھا اور مرتے دم تک \’بیسٹ فرینڈ\’ ہونے کی قسم کھائی تھی اس لئے ہم نے اس دوست کی ہر طرح کی بیوقوفی اس دوستی کی خاطر برداشت کی۔ تفصیل میں کیا جائیں بس یہ سمجھئے کہ ہم کافی بیوقوف تھے اور وہ سہیلی ہم سے کہیں زیادہ عقلمند تھی۔

ہمارے ابا جان ایک شعر پڑھا کرتے تھے:

جو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں

صراحی سر نگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ

دسویں جماعت میں تو اس شعر کی گہرائی ہماری نس نس میں سما سی گئی تھی۔ لیکن اب یاد کر کے ہنسی آتی ہے۔ اور اپنا وقت بھی یاد آتا ہے جب بڑوں کی باتوں پہ ہنستے تھے۔ قہقہے لگاتے تھے کہ انہیں کیا پتہ جب ہم جوان ہوں گے، تو ایسے تو بالکل نہ ہوں گے۔

بچوں کو بوڑھوں کی کمزوریوں پہ ہنسی آتی ہے۔ اور بوڑھوں کو بچوں کی نادانیوں پہ۔

میری طرح کئی لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے بچپن میں اس طرح کی فضول باتوں کو اپنا دین ایمان بنایا ہوگا۔ کسی کی بات پہ اتنا پکا یقین کیا ہوگا جیسے پتھر کی لکیر۔ کسی دوستی کو اپنا سب کچھ مانا ہوگا۔ لڑکپن میں محبتیں بھی ایسی ہی ہوا کرتی ہیں نسیں کاٹ لینے والی، وصی شاہ کی شاعری پڑھ پڑھ کے آنسو بہانے والی۔ آجکل جسٹن بیبر کا زمانہ ہے۔ تو شاید گانوں میں اور الفاظ میں بدلاؤ آ گیا ہے۔ مگر سولہ سالہ محبتوں کی داستانیں اب بھی ویسی ہی ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے ہمارا واسطہ ایک سہیلی سے پڑا جس سے ہماری اچھی سلام دعا ہوگئی۔ ہمیں اس کی شخصیت کافی پسند آئی لہٰذا ہم نے سوچا کہ اس سے اچھی گپ شپ لگائی جا سکتی ہے۔ ہماری بھی باتیں شاید اس کو بھا گئی ہوں گی کہ انہوں نے بھی والہانہ انداز میں دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ ہم تو اپنے بچپن کی دوستی کے اصولوں کے پکے نکلے لیکن ان کا بچپن شاید کہیں کوہ قاف میں گزرا تھا۔ لہٰذا انہوں نے ہماری گرم جوشی کو ہماری کمزوری سمجھ کے ہم سے کترانا شروع کر دیا۔ ہم نے ایک دو دفعہ تو سنی ان سنی کر دی کہ شاید اتنی بے رخی زندگی کی کسی اور پریشانی کی پرچھائیں ہے۔ مگر جب ان کا رویہ کسی قدر بہتر نہ ہوا تو ہم نے ظرف کا مظاہرہ کرتے ہے ہاتھ آگے بڑھایا اور دریافت کیا کہ کیا ہم سے کوئی بھول ہوگئی جس کی وجہ سے ناراضی اس قدر سنگین ہوگئی ہے؟ ہم سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا کہ ہم سے اتنا برفیلا برتاؤ کیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ دوستی کسی ڈیپ فریزر میں قیام پذیر ہے۔ ہمیں کوئی جواب نہ ملا۔ ہم نے دو تین دفعہ پھر دریافت کیا۔ پھر بھی جوابی صدا نہ آئی۔ ہم ہی فون کر کے طبعیت دریافت کیا کرتے تھے۔ ان کی سن گن لیتے تھے۔ مگر جب ان کی طرف سے ہماری سن گن لینے کی کبھی بھی کوئی روایت نہ قائم ہو سکی – جب انہوں نے بھی ہمیں \’سٹپنی\’ کا ٹائر سمجھ کے سائیڈ پہ کیا ہوا تھا – تو ہم نے کہا اتنا ذلیل تو منو بھی نہیں ہوئی من مائل میں جتنا ہم اس دوستی کے پیچھے ہو رہے ہیں۔ بے جان اور بند دروازے کو خدا حافظ کہا اور اپنی راہ لے لی۔

سچ تو یہ ہے کہ دنیا بہت تیزی سے آگے نکل رہی ہے اور زندگی کی دوڑ میں ہم سب ہر روز ایک ریس میں دوڑتے ہیں۔ کبھی سستانے کا موقعہ مل جائے تو یار دوست یاد آتے ہیں۔ مگر اس کے علاوہ صبح شام کی بھاگ دوڑ میں کس میں اتنی ہمت ہے کہ چھٹی جماعت کی طرح بندوق لے کے کھڑا ہوجائے دوستی کی خاطر۔ انسان آخر کسی کے لئے کب تک ظرف کا مظاہرہ کرے۔

بچپن کی وہ دوست کبھی کبھی فیس بک پہ نظر آتی ہے تو تجسس ہوتا ہے مگر اس تجسس پہ عزت نفس حاوی ہو جاتی ہے۔ اور ہم کسی اور ویڈیو یا پوسٹ پہ لعنت ملامت والے کمنٹس کو دیکھ کہ ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اب ہم بوڑھے ہوگئے ہیں اس لئے دغابازیوں کا دکھ بھی زیادہ نہیں ہوتا۔ ہر طرح کے دوست اور احباب کو آزما کے دیکھ لیا اور اس نتیجہ پہ پہنچے کہ جس کو آپ کے ساتھ ظرف سے پیش آنا ہوگا وہ اپنی شخصیت کے حساب سے اپنا ظرف دکھائے گا۔ اور جس شخص میں ظرف کی کمی ہوگی تو آپ جتنا چاہے جتن کر لیں اور ظرف کا پہاڑ لا کے اس کے سامنے نچھاور کیوں نہ کر دیں، اس شخص کی کم ظرفی کبھی ختم نہ ہوگی۔

بقول غالب:

گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب

آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments