بابائے گرین زون ڈاکٹر خالد سہیل کا فلسفہ ذہنی صحت


انسان سرسبز جنت میں اگر رہتا تھا تو کیوں نکالا گیا اس بات پر کیوں بحث کی جائے۔ یہ بات بھی اگر طے تھی کہ یہ بنی آدم زمین پر فساد کرے گا۔ تو یہ بات بھی عیاں ہے کہ سرسبز جنت سے نکالا ہوا انسان اس زمین پر گویا ایک جہنم میں رہ رہا ہے۔ یہ کرہ ارض کبھی بھی امن کی جگہ نہیں بن پا رہا حالانکہ رہنا تو یہیں ہے۔ اس جنت کے سبزہ زار سے نکالے ہوئے انسان نے نہ جانے کیوں اس زمین کو اپنے ذہن کی ریشہ دوانیوں سے ایک عالم بد حواسی بنا رکھا ہے۔

ہر جا بے ترتیبی، بد نظمی ترش روئی، ایک دوسرے سے نفرت، اپنے سے نفرت، مار دھاڑ، غیظ و غضب، تعلقات میں اودھم، روز گاروں میں بے چینی، عدم اعتماد، عدم تحفظ، شادیاں، بربادیاں، اولاد، خاندان سب کچھ انسانی ذہن کے عدم توازن سے سوزش اور شورش کا شکار ہے۔ یوں تو ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے لیکن جوں جوں انسان ترقی یافتہ اور آزاد ہو رہا ہے توں توں وہ اپنے ذہن کے فشار فکر کے ہاتھوں خود بھی پریشان ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہر صبح سرخ آندھی ہے اور ہر شام سرخ بادل ہیں جس سے کہیں سبزہ زار نہیں ہے کہ جہاں جنت کا گمان ہو۔ یا سبزہ ہے بھی تو ذہنوں کی سرخ آندھیوں نے آنکھوں میں بھی سرخی اتار دی ہے۔ اپنوں سے ہی ایسا خوف بے جا ہے کہ ہر شخص پیرانوائڈ نظر آتا ہے۔

سائنس کی ترقی نے ایک راہ دکھائی اور علم نفسیات کا وجود عمل میں آیا، سائیکاٹری کی سائنس بھی دن رات ان سرخ آندھیوں کے تھمنے کے سامان پیدا کر رہی ہے۔ ادویات بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ لاتعداد مسیحا ایسے ہیں جنہوں نے انسانی دماغ اور ذہن کے سرخ ہیجانی طوفانوں کی وجوہات پیش کیں اور طریقہ ہائے علاج پیش کیے جن سے فرد اور معاشرے کے اندر بے چینی اور تکلیف دہ رویوں پر قابو پایا جا سکے۔ اس ضمن میں بہت سے نظریات نے شہرہ آفاق مقبولیت حاصل کی۔ سائیکاٹری کی ادویات نے بھی انقلاب برپا کیا۔

انیسویں صدی کے بابائے تحلیل نفسی سگمنڈ فرائیڈ کے نام سے تو سبھی واقف ہیں کہ جس نے انسانی ذہن کے اعمال و افعال کی تشریح کرتے ہوئے اڈ، ایگو اور سپر ایگو جیسی قوتوں سے متعارف کرایا اور شعور، لا شعور، تحت الشعور کی بھول بھلیوں کے انسانی کردار اور ذہنی امراض کی وجوہات میں عمل دخل ہونے کی وضاحت کی اور اسی تحلیل نفسی کے نظریہ کے تحت مختلف انقلابی طریقہ ہائے علاج متعارف کرائے جو آج بھی مختلف متنازعہ بحثوں اور مخالفتوں کے باوجود کسی نہ کسی صورت پسندیدہ ہیں اور ان کو معروضی بنا کر سائیکو تھیراپی میں مستعمل ہیں۔

لیکن آج ہم اکیسویں صدی میں ایک اور ماہر نفسیات سے متعارف ہو رہے ہیں جس کو ذہنی صحت کے نئے انداز کی بناء پر ”بابائے گرین زون“ کے لقب سے نوازا جا سکتا ہے۔ اور مجھے اعتماد ہے کہ اس لقب پر ڈاکٹر خالد سہیل کا استحقاق ہے۔ جو کسی شخصیت پرستی کی بنیاد پر نہیں بلکہ خالصتاً اس فلسفۂ ذہنی صحت کی فی زمانہ شدید ضرورت اور افادیت کی بنا پر ہے۔

اور نہ ہی یہ تھیراپی کسی پیری مریدی کی طرح تعویذ اور وظائف کا پیکیج دیتی ہے اور نہ ہی شخصیت پرستی کی دعوت ہے۔ یہ خالصتاً نفسیاتی اور کرداری سائنس کی ایک نئی کاوش ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل جو پیشے کے لحاظ سے سائیکاٹرسٹ ہیں جو عرصہ دراز سے ادویات کے استعمال سے ذہنی مریضوں کا علاج کرتے کرتے اس نتیجے پر پہنچے کہ ادویات کے علاوہ بھی کئی طریقے ہیں جن کو ادویات کے ساتھ اور علیحدہ بھی استعمال کر کے کسی بھی فرد کو ذہنی مرض سے بچایا جا سکتا ہے، اور اگر کوئی فرد مریض بن چکا ہے تو اس کو واپس نارمل دنیا میں لایا جا سکتا ہے اور اسی طریقے سے اسے بیماری کے بعد صحت کی حالت کو بحال رہنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔

مجھے ماہر نفسیات ہونے اور نفسیات کی طالبعلم ہونے کے ناتے سے ڈاکٹر سہیل اور ان کے طریقہ علاج سے متعارف ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔

ڈاکٹر خالد سہیل سے ملاقات کے بعد میں نے ذاتی دلچسپی سے ان کے متعارف کردہ طریقہ علاج اور فلسفہ ذہنی صحت کا بغور مطالعہ کیا، اس کا دیگر طریقہ ہائے علاج سے تقابلی جائزہ لیا اور اس کی اہمیت اور افادیت کو پرکھا۔

قارئین کی خدمت میں نفسیات اور ذہنی صحت کی دنیا میں انقلاب کی جانب پیش رفت کرنے والے اس نفسیاتی معالج کی انقلابی سوچ، فکر اور اختراع کو جو محض ڈرائنگ روم فلاسفی پر مبنی نہیں بلکہ خالصتاً عملی اقدامات پر مبنی تھیراپی کہلاتی ہے اس کا تعارف یوں ہے :

گرین زون فلاسفی بحیثیت طریقہ علاج : 2000 میں ڈاکٹر خالد سہیل کینیڈا میں اپنے گرین زون فلسفے پر مبنی طریقۂ علاج کو متعارف کروایا۔

اس نئی فکر کے ساتھ ڈاکٹر خالد سہیل سائیکیاٹرسٹ ہونے اور ادویات کی دنیا سے تعلق رکھنے کے باوجود لگتا ہے کہ وہ علاج کے مروجہ طریقوں سے مطمئن نہیں تھے اور ان کی افادیت سے مشکوک دکھائی دیتے ہیں اس عدم اطمینان کی وجہ سے ”فلسفہ گرین زون“ کا بانی ہونے کا تاج ان کے سر پر جاتا ہے: یہ دلچسپ اختراع ٹریفک کی ہری پیلی اور لال بتیوں کے اس مصرف سے مستعار لی گئی ہے جس میں سرخ بتی پر گاڑی کو رکنا ہے، پیلی پر چلنے کے لئے تیار اور سبز پر چلنا ہے۔ ٹریفک کے یہ اصول آفاقی اور جبلی قوانین ہیں۔ لال بتی پر نہ رکنا حادثے کا یقینی باعث ہے، پیلی پر چوکس نہ ہونا بھی اور سبز ہونے پر نہ چلنا بھی حادثے کا موجب ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل نے اس سوچ کو بڑے ٹھوس دلائل کے ساتھ زندگی کی ٹریفک پر اطلاق کر کے انسانوں کو اپنے دل اور دماغ کی گاڑی کو ”ڈرائیونگ“ سکھانے پر آمادہ کیا ہے۔ آج موٹر چلانا تو سب سیکھ گئے ہیں لیکن ایکسیڈنٹ کی بہتات بتاتی ہے کہ ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزیاں عام ہیں۔ اور یہی نہیں بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے دل اور دماغ کی گاڑیاں بھی خلاف قانون فطرت پر چل رہی ہیں۔ بلکہ ہم دھکا لگا رہے ہیں۔ کیونکہ ہم نے یہ تو سیکھ لیا ہے کہ ہم نے چلنا ہے زندگی کی مادہ پرستی کی دوڑ میں آگے بڑھنا ہے اور غلبہ حاصل کرنا ہے۔ اس ریس میں نہ تو ہمارے جی۔ پی۔ ایس درست سمت کے لئے سیٹ ہیں اور نہ ہی ہمارے دل اور دماغ تعین سمت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ہم بے سمتی کی وجہ سے نہ تو واقف ہیں اور نہ واقف ہونے کا طریقہ جاننے کا کوئی وسیلہ ہے۔ آج کے کنزیومر ازم کے دور میں ہر پراڈکٹ خرید کر اس کا مالک بننے کی خواہش میں ایک افراتفری کا عالم ہے۔ رات دیر گئے تک جاگنا، صبح آفس سے دیر ہونا اور جلدی پہنچنے کے لئے ٹریفک کے تمام اصول توڑتے ہوئے دفتر پہنچنا پھر ٹکٹ لگ جانے سے مالی نقصان پر کڑھنا اور ایک دوسرے کو الزام دینا جس سے دفتروں اور گھروں میں کشیدگی کا سلسلہ چل نکلتا ہے اور ان واقعات کی تکرار ہماری زندگیوں میں سٹریس جیسی خاموش قاتل کو داخل کرتی ہے۔

گرین زون فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ ٹریفک کی ان ہری پیلی لال بتیوں کا معاملہ انسانوں کو سڑکوں اور چوراہوں پر ہی نہیں بلکہ زندگی کی شاہراہ کے ہر سنگ میل پر درپیش رہتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں نے ابھی تک سیکھا ہی نہیں ہے کہ دل اور دماغ میں چلنے والے بھاپ کے انجن بھی ہر وقت چلنے بلکہ پھٹنے کو تیار رہتے ہیں۔ وقت بے وقت سیٹیاں بجتی ہیں۔ کبھی ہم سیٹیاں سن کر بھی نہیں چلتے اور کبھی سرپٹ دوڑتے ہیں۔ یہ دماغ کی بھاپ دراصل ہمارے وہ احساسات، خیالات اور جذبات ہیں جنہیں ہمارے شعور کے کنٹرول میں ایک توازن کے ساتھ رہنا اور ظاہر ہونا تھا۔ لیکن بہت ذہین اور سمارٹ انسان بھی شاید اس شعور کا شعور نہیں رکھتے۔ اور جذبات، خیالات اور احساسات کے بہاؤ کو کسی قانون اور ضابطے کے تحت رکھنے سے قاصر ہیں اور مناسب اظہار کا سلیقہ نہیں رکھتے۔ یعنی آپے میں نہیں رہتے۔ اس آپے میں رہنے کو فلسفۂ گرین زون کے مطابق ”زون“ کا نام دیا گیا ہے۔ جس کی درجہ بندی اس طرح کی گئی ہے :

ریڈ زون
ییلو زون
گرین زون

انسانوں کو آپے میں رہنے کے لئے سیکھنا ہو گا کہ انسانی جذبات اور احساسات کی گاڑی کو کب اور کیسے اور کیوں کس زون میں رہنا ہے۔

گرین زون فلسفے کی یہ تین بتیاں انسان کی ذہنی صحت کے نہ صرف استعارے ہیں بلکہ باقاعدہ تھیراپی کے سیشن ہیں۔ ان کے ذریعے بچے مرد عورتیں اور بوڑھے اپنی مدد آپ کے تحت ذہنی امراض کی روک تھام کر سکتے ہیں، مرض سے نکل سکتے ہیں اور شدید مرض اور مسائل سے اس طرح نبرد آزما ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنے اور دوسروں کے لئے خطرہ نہیں رہتے۔ اس ضمن میں گرین زون فلسفے پر مبنی تھیراپی ان کو صحت مند زون میں اس طرح لاتی ہے :

1۔ مریض اس فلسفے سے واقف ہو کر اپنی مدد آپ کے تحت اپنے آپ کو سمجھ کر اپنے احساسات، جذبات اور کردار کو ایسے زون یا دائرے میں خود ہی رکھنے کی صلاحیت پیدا کر لیتا ہے۔

2۔ دوسرا مرحلہ تب شروع ہوتا ہے جب مریض اپنے مسائل اور نفسیاتی الجھنوں کو نہ تو سمجھ سکتا ہے اور نہ ان پر قابو پاکر اپنی روز مرہ زندگی کے کاموں میں فعال ہو تا ہے۔ ایسے میں گرین زون تھیراپسٹ اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ ٹیم ورک کے ذریعہ اسے سکھایا جاتا ہے کہ کس طرح صحتمند زون میں داخل ہونا ہے۔

تیسرے درجے میں ایسے مریض آتے ہیں جو شدید نفسیاتی مسائل سے دوچار ہیں اور انہیں ادویات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ان مریضوں کو ادویات کے ساتھ گرین زون تیکنیک کے ساتھ منظم طریقے سے ہاتھ پکڑ کر گرین زون میں داخل ہونے کی سعی کی جاتی ہے جو کہ ایک صبر آزما اور طویل ہو سکتی ہے۔

فلسفۂ گرین زون سے ذہنی صحت ہر ایک کی دسترس میں کیونکر ممکن ہے؟

بابائے گرین زون ڈاکٹر خالد سہیل کا دعوی ہے کہ اس فلسفے کی بنیاد پر ذہنی صحت کا حصول ہر ایک کے لئے آسان ہے ایک تو یہ کہ ٹریفک لائٹوں کے تصور کی مثال سے زندگی کی شاہراہ پر چلنے کے طریقوں کو سمجھنا آسان ہے۔ اس کو بچے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ میں نے یہ جانا کہ جس طرح بچوں کو سڑک پار کرنے اور ہری پیلی لال بتیوں کا تصور ابتدائی کلاسوں میں سمجھایا جاتا ہے اسی طرح انہیں بہت ابتدائی کلاسوں میں اپنے جذبات، احساسات اور منفی کرداروں کو کنٹرول کرنا سمجھانے کے لئے آسان فہم طریقوں سے ٹریفک کی بتیوں کے تحت سمجھائے جائیں۔ اور یہ تصور درجہ بدرجہ ٹین ایج، پھر جوانوں اور شادی شدہ جوڑوں کے لئے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔

بابائے گرین زون ڈاکٹر خالد سہیل اپنی اس گرین زون تھیراپی میں ایک بہت کارآمد تکنیک کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ ہے ڈائری لکھنا۔ جس کا ذکر شاید نفسیات کے لٹریچر میں ملتا ہے جب فرائیڈ نے مریضوں کو کہا تھا کہ وہ رات کو دیکھے گئے خوابوں کو شب نامے کے طور پر لکھیں تاکہ ان کی تعبیروں کے ذریعے ان کے لاشعور تک پہنچا جا سکے۔

مگر بابائے گرین زون رات کے خوابوں کے بجائے دن کے اعمال کو ”روزنامچے“ کی صورت میں درج کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔

مجھے اس ڈائری لکھنے کے تصور نے بہت متاثر کیا۔ بلکہ اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ڈائری لکھنا اپنی مدد آپ کی بہترین حکمت عملی ہے۔ یہ ڈائری دراصل اپنا حساب کتاب رکھنا ہے۔ یہ وہ حساب کتاب ہے جس کو انسانوں نے ان دیکھے فرشتوں کراما کاتبین پر چھوڑ رکھا ہے اور خود اپنے اعمال کے اچھے اور برے نتائج کے لئے قیامت تک انتظار کرتے ہیں لیکن اس انتظار میں برے نتائج اسی زندگی میں بھگتتے رہتے ہیں۔

ڈائری لکھنے کو ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح ہمارا مذہب یہ سکھاتا ہے کہ جب مال اور پیسے کا لین دین کرو تو ”لکھ لیا کرو“ تاکہ جب واپسی کا وقت ہو تو بھول چوک نہ ہو اور فتنہ نہ ہو ”

میں نے اس مذہبی حکم کو گرین زون فلسفے پر اطلاق کیا تو یوں سمجھا کہ جس طرح ہم رقم اور مال کے لین دین میں لکھت پڑھت کے عمل سے گزر کر اپنے کاروبار کو شفاف بنانے کی سعی کرتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں نہیں ہم اپنے رویوں، کرداروں اور ہیجان کے مظاہروں، غصہ، منافقت اور وہ کنٹرول، حسد جھوٹ اور دیگر لا تعداد منفی اور مثبت جذباتی اور ذہنی معاملات کے لین دین کو جن کا تعلق فرد کی ذاتی اور دوسروں سے تعلقات پر اچھا اور برا اثر ہوتا ہے کو بھی لکھ لیں اور پھر دوسروں سے شکایات اور الزام تراشیوں اور زہریلے پن کی فضا قائم ہونے کے ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے اور اپنے ذہنی امن اور سکون کو خراب کرنے والے اپنے ہی اعمال کو پہلے خود پرکھیں اور اس حساب کتاب کے ذریعہ ہم خود آگاہ ہو جائیں گے کہ ہم نے دوسروں کو کیا دیا؟ اچھے روئیے، نرم مزاجی، ترش روئی، دھونس یا آزاد سانس لینے کے مواقع؟

ڈائری لکھنا ویسے ہی ہے جیسے ہم اپنے بخار، بلڈ پریشر اور شوگر کا ٹریک رکھتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ روزمرہ ڈائری فری ایسوسی ایشن کے بہاؤ کی طرح اپنی دماغی جوار بھاٹوں کو تخلیقی اور برجستہ لکھنا ہے۔

اور ڈائری لکھنے کو اگر ہر فرد معمول بنا لے تو اسے خود شناسی اور مشاہدہ باطن کرنے کی عادت ہونے سے وہ اپنے اچھے برے اعمال، احساسات، خیالات جذبات اور کرداروں پر نظر ثانی کرنے کا موقع ملے گا۔ ایک نارمل اور باشعور فرد خود ہی اپنی ذات کے خطرناک زون سے نکل کر ذہنی صحت کی حفاظت کر سکتا ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ وہ پہلے اس گرین زون فلسفے سے مکمل طور پر آگاہ ہو۔

اسی طرح اس ”ڈائری“ کا استعمال والدین، اساتذہ اور تھراپسٹ اپنی نگرانی میں بھی کروا سکتے ہیں۔ اور نفسیاتی مسائل کے شکار بچوں، ٹین ایجرز اور خاص طور پر شادی شدہ جوڑوں کی کاونسلنگ میں استعمال کروا کر انہیں ان کے اپنے اپنے خطرناک چوراہوں سے بچا کر بہ حفاظت محفوظ زون یعنی صحتمند طرز عمل اپنا کر صحتمند طرز زندگی جسے گرین زون کہا جاتا میں لا سکتے ہیں۔ یہ ڈائری دراصل ہر مذہب، عقیدے اور نظریے کے افراد کو اپنے باطن یا اپنے گریبان میں جھانکنے کا وسیلہ فراہم کر کے بلا شرمندگی اپنا احتساب خود کرنے کا آسان ذریعہ بنتی ہے۔ اور یہی ڈائری آئندہ پیش آنے والے شدید نفسیاتی مسائل کی نشاندہی کرنے اور ان کے علاج میں بھی معاون ہو سکتی ہے۔

تخلیقی صلاحیتیں اور ذہنی صحت : بابائے گرین زون کا نظریہ ذہنی صحت ہمیں بتاتا ہے کہ انسانوں کی دبی ہوئی جسمانی، دماغی، احساسات اور جذباتی خواہشیں ان کو ریڈ زون میں رکھتی ہیں جو صرف فرد ہی نہیں بلکہ پورے سماج کے لئے آتش فشاں کی صورت میں بے چین رکھتی ہیں جس سے ایک فرد یا معاشرہ ایک خطرناک معاشرہ ثابت ہوتا ہے بالکل گیس بھرے غبارے کی مانند جس میں زیادہ بھری گیس دھماکے کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ باشعور لوگ اپنی اس دبے ہوئے بھونچال سے واقف ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو اذیت سے بچانے کے لئے صحتمندانہ دفاع کرتے ہیں اور اس صحتمندانہ اقدام کو نفسیات کی زبان میں ”ارتفاع“ (SUBLIMATION) کہا جاتا ہے۔ اس کا اظہار فنون لطیفہ کی تمام اصناف کی صورت میں ہوتا ہے جیسے موسیقی، مصوری، اداکاری، رقص اور ادب کی تمام اصناف وغیرہ۔ بہت سے لوگ جو ذہنی طور پر بالغ نہیں ہوتے اس قسم کے شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے منفی رد عمل مثلاً غیظ و غضب، غصہ، توڑ پھوڑ اور جارحیت عدم تحفظ، دوسروں کو شعوری اور لا شعوری طور پر نقصان پہچانا، حسد، اور منافقت کے عملی مظاہرے کرتے ہیں اور آپے سے باہر ہو کر خود بھی برے بنتے ہیں اور دوسروں کی نظر میں ناپسندیدہ کہلائے جاتے ہیں۔

لیکن ذہنی طور پر بالغ اور چوکس افراد اپنے لئے ارتفاع یعنی سبلی میشن جیسی نفسیاتی دفاعی حرکیات استعمال کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور فنون لطیفہ کے کسی بھی شعبے میں نام کماتے ہیں۔ مگر ڈاکٹر خالد سہیل نے دنیا کے لا تعداد مصنفوں اور ادیبوں کی سوانح عمریوں سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ تخلیقی اظہارات اور ذہنی مرض کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ہر تخلیق کار کہیں نہ کہیں کسی دباؤ کا شکار رہا ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ مریض بھی رہ چکا ہو۔ اور تخلیق کے بعد بھی اس کا مرض جاری رہا ہو حتی کہ بہت سے نامور ادبی تخلیق کاروں کے خودکشی کرنے کے واقعات بھی ملتے ہیں۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گرین زون کے فلسفے کے مطابق ”ارتفاع“ جیسے مثبت دفاع کو استعمال کر کے دباؤ سے خود بخود نکلنے کے لئے ضروری نہیں کہ ہر کوئی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہاں دوبارہ کہنا پڑے گا کہ اس گرین زون فلسفے کو بہت ابتدا سے ہی افراد کو متعارف کرانا ہو گا تاکہ اگر کوئی اپنی مدد آپ نہیں کر سکتا تو اسے فیملی اور تھراپسٹ مل کر ”ارتفاع“ کے ذریعہ اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے طریقے سکھا کر اس کے دبے ہوئے منفی جذبات کو نکالنے کے صحتمند طریقے اور اصول بتائے جا سکتے ہیں اور اسے پاتال میں گرنے سے بچایا جا سکتا ہے یا گرے ہوئے کو نکالا جا سکتا ہے۔

گویا ڈائری لکھنے کے علاوہ ”تخلیقی تھیراپی“ جسے گرین زون کی اصطلاح میں ”کری ایٹو تھراپی“ کہا جاتا ہے ایک اہم مقام رکھتی ہے جو کسی بھی فرد کو بریک ڈاؤن سے بچا سکتی ہے اور بریک ڈاؤن سے بریک تھرو تک لا سکتی ہے۔ اس طریقۂ نے مجھے بھی اپنی کلینکل پریکٹس میں ایک بار چونکا دیا تھا جب میں ایک ایسی نوجوان لڑکی کا علاج کرنے کی کوشش میں تھی جو کسی صدمے کی وجہ سے بولنا بند ہو گئی تھی۔ جب اس کو لکھنے کو کہا تو ابتدا میں وہ اس بات پر راضی نہ ہوئی لیکن رفتہ رفتہ اس نے لکھنا شروع کیا اور ایک وقت آیا کہ جب اس نے اپنی تمام کہانی لکھ کر کہہ ڈالی اور ایک دن جب وہ آخری کاغذ مجھے تھما رہی تھی تو وہ مکمل بولنا شروع ہو گئی اور یوں مجھے نفسیاتی طریقہ علاج میں ایک نئی سوچ ملی لیکن اس پر کوئی حتمی اور مستند رائے نہ مل رہی تھی کہ چند سال قبل مجھے ڈاکٹر خالد سہیل کے بارے میں علم ہوا کہ وہ پہلے سے ہی اس طریقے علاج سے اپنا کلینک چلا رہے ہیں۔ جو گرین زون کے ان کے اپنے فلسفے پر قائم ہے۔

اور اس ضمن میں ایک گروہ بھی تشکیل دیا ہے جس میں ڈاکٹر خالد سہیل دنیا بھر کے ادیبوں، مصنفوں اور فنون لطیفہ سے منسلک لوگوں سے رابطہ رکھتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر ”فیملی آف دی ہارٹ“ نامی تنظیم قائم ہے۔ اس فلسفے سے جڑے تمام اقدامات ادیبوں کو متحرک کرنے، نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں ”ارتفاع“ کے مثبت استعمال کی جانب راغب کیا جاتا ہے اور صحتمند ادب سے صحتمند معاشرے کے قیام کی جانب ایک مستحسن اور انقلابی قدم ہے۔ اس کلینک میں ان لوگوں کے لئے بھی تحریک ہے جو اپنی زندگی میں کامیابی کے اہداف مکمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ایک اور منفرد تیکنیک ہے جسے اس کلینک میں ”کچھوے“ کے استعارے سے لیا گیا ہے۔ جس کے اصول ہیں ؛

آہستہ چلنا مگر روز چلنا۔
یعنی اپنے اہداف کے لئے روز کا کام روز کرنا
مستقل مزاجی
استقامت اور
جیسے کچھوا سست روی کے باوجود چلتا رہتا ہے اور۔ جیت جاتا ہے۔
”اگر تھوڑا تھوڑا کرو صبح شام،
بڑے سے بڑا کام بھی ہو تمام ”

دراصل ڈاکٹر خالد سہیل بذات خود ذہنی صحت کے حصول کے لئے ایک ”ہیلپ لائن“ ہیں جہاں سے کوئی بھی اپنی مدد آپ کرنا سیکھ کر صحتمند جسمانی اور ذہنی طرز زندگی اپنا کر اس کرہ ارض کو گرین زون بنا سکتا ہے تو کیا اس کرہ ارض کو سرسبز بنانا جنت ارضی بنانے کا خواب نہیں جہاں ہر رنگ، نسل، مذہب اور قوم کے افراد جس جنت سے نکالے گئے تھے اس علاقے کو دوبارہ حاصل کر لیں۔ سائنس کی بنیادوں پر امن کے ساتھ یہ جنگ جیت کر چین سے رہیں۔ گرین زون میں۔ اگر اس طرح یہ جنت ارضی قائم ہو جائے تو رہتی دنیا تک بابائے گرین زون کو یاد رکھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments