کائنات: ارتقا کے چار بلین سال ( 2 )


یہ کہانی آپ کے بارے میں ہے، میرے بارے میں اور آپ کے کتے کے بارے میں۔ کتوں سے پہلے بھی ایک وقت تھا، جب وہ وجود نہیں رکھتے تھے۔ اب وہ بڑے، چھوٹے، لپٹنے والے، پاسبان اور شکاری ہیں۔ ہر طرح کا کتا جس کی آپ خواہش کر سکتے ہیں۔ یہ کیسے ہوا؟ یہ صرف کتے نہیں تھے۔ یہ جانداروں کی مختلف اقسام کہاں سے آئی۔ اس کا جواب ہے بدلنے کی طاقت، ۔ یہ سننے میں پریوں کی کہانی یا دیومالا لگتی ہے، لیکن ایسا کچھ نہیں۔

چلیے وقت میں 30، 000 سال پہلے چلتے ہیں، کتوں سے پہلے، جب ہمارے اجداد آخری برفانی عہد میں نا ختم ہونے والی سردیوں میں رہتے تھے۔ آسمان ہی ان کی زندگی کے لیے کہانی کی کتاب، کیلنڈر اور ہدایت نامہ تھا۔ یہی انہیں بتاتا تھا سخت سردیاں کب آئیں گی، کب جنگلی فصل پکے گی، بسن (Bison) کے گروہ کب چلنا شروع کریں گے۔ ان کے گھر کا تصور فقط زمین ہی تھی۔ لیکن وہ بھوکے جانداروں کے ڈر میں زندہ رہتے تھے، پہاڑی شیر اور ریچھ جو انسانوں کے شکار میں ان کے مقابل تھے۔ اور بھیڑیوں سے جو ان کی بہت قیمتی چیزیں اٹھا کر لے جاتے تھے اور برباد کر دیتے تھے۔

تمام بھیڑیے ہڈی پر لپکتے ہیں لیکن ان میں بہت سے قریب آنے سے ڈرتے ہیں۔ ان کا ڈر ان کے خون میں دباؤ کے ہارمونز کے زیادہ اخراج کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ بقا کا معاملہ ہے۔ کیونکہ انسانوں کے زیادہ قریب آنا جان لیوا ہو سکتا ہے۔ لیکن کچھ بھیڑیوں میں، فطری کمی بیشی کے باعث، ان ہارمونز کی سطح کم ہوتی ہے۔ وہ انسانوں سے خوفزدہ کم ہی ہوتے ہیں۔ انہوں نے سیکھ لیا کہ شکار انسانوں ہی کو کرنے دیا جائے اور باقیات پر دعوت اڑائی جائے۔

تمہیں مستقل زیادہ کھانے کو ملے گا، تم زیادہ بچے چھوڑ کے جاؤ گے اور تمہاری اولادیں تمہاری فطرت کی وارث ہوں گی۔ یہ سدھانے کا چناؤ ہر نسل کے ساتھ بڑھتا گیا، یہاں تک کہ یہ جنگلی بھیڑیوں کی نسل کتوں میں ڈھل گئی۔ آپ اسے دوستی کی بقاء (Survival of the friendliest) کا نام دے سکتے ہیں۔ اس وقت، جیسے کہ آج، یہ انسانوں کے لیے بھی اچھا تھا۔ یہ شکاری کتے صرف صفائی کرنے والا عملہ نہیں تھا، محافظ بھی تھا۔ جیسے جیسے یہ بین النوع شراکت وقت میں آگے کی طرف چلتی گئی، کتوں کی صورتیں بھی بدلتی گئیں۔ خوبصورتی ایک چنیدہ فائدہ بن گیا۔ آپ جتنے خوبصورت ہوں گے، اتنا ہی زیادہ موقع ہے کہ آپ زندہ رہ سکیں اور اپنی جینز کو دوسری نسل تک پہنچا سکیں۔ جو سہولت کے لیے اتحاد تھا، وہ دوستی میں ڈھل گیا اور وقت کے ساتھ گہرا ہوتا گیا۔

یہ جاننے کے لیے کہ آگے کیا ہوا، ہم اپنے 20، 000 سال پرانے اجداد کو چھوڑتے ہیں اور ذرا قریب کے وقت میں آتے ہیں، برفانی عہد کے بعد کے وقفے میں۔ اس موسم کی تبدیلی نے ایک انقلاب برپا کر دیا۔ بھٹکنے کے بجائے، لوگ ایک جگہ رہنے لگے۔ اب دنیا کی دہی دنیا میں کچھ نیا تھا۔ لوگ اب بھی شکار کرتے تھے مگر غذا کے لیے زراعت اور لباس شروع ہوا۔ بھیڑیوں نے مستقل غذا کی ضرورت کے لیے اپنی آزادی بیچ دی۔ وہ اپنے لیے جوڑا چننے کے حق سے بھی دستبردار ہو گئے۔

اب ان کا جوڑا انسان چننے لگے۔ انسان مستقل مزاجی سے ان کتوں کو مارتے رہے جن کو تربیت نہیں دی جا سکتی تھی، وہ جو کھانا دینے والے ہاتھ کو کاٹے۔ ان کتوں کی افزائش کرتے رہے جو انہیں پسند تھے۔ انہوں نے ان کتوں کو پالا جو التجا کریں، شکار کریں، جمع کریں، حفاظت کریں، دھکیلیں اور انہیں ساتھ دیں۔ انسان ہر گروہ سے بہترین بچے چنتے رہے۔ کئی نسلوں بعد کتے ارتقاء پذیر ہوئے۔

اس طرح کے ارتقا کو آرٹیفیشل سیلیکشن (Artificial Selection) یا افزائش نسل کہا جاتا ہے۔ بھیڑیوں کو کتوں میں بدلتے ہوئے انسانوں نے پہلے با ر ارتقاء کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اور اس وقت سے ہم جانوروں اور پودوں کو، جن پر ہمارا انحصار ہے، اپنی مرضی کی شکلیں دینے میں مصروف ہیں۔ 15000 سے 20000 سال کے وقفے میں ہم نے سرمئی بھیڑیوں کو کئی طرح کے کتوں میں بدل دیا جن سے آج ہم محبت کرتے ہیں۔ ذرا سوچیے۔ کتوں کی ہر وہ نسل جو آپ نے دیکھی ہے اسے انسانی ہاتھوں نے تراشا ہے۔ بہت سے ہمارے بہترین دوست۔ مشہور نسلیں۔ پچھلی چند صدیوں میں تخلیق ہوئی ہیں۔ ارتقاء کی زبردست طاقت نے خونخوار بھیڑیوں کو ایماندار گڈریے میں بدل دیا جو گلے کی رکھوالی کرتا ہے اور بھیڑیوں کو دور بھگاتا ہے۔

مصنوعی چناؤ نے بھیڑیے کو گڈریے او جنگلی گھاس کو گندم اور مکئی میں بدل دیا۔ حقیقتاً ہر وہ پودے اور جانور جو آج ہم کھاتے ہیں، ان کی افزائش جنگل ہی سے ہوئی ہے، ناقابل نوش اجداد۔ اگر مصنوعی چناؤ 10، 000 سے 15، 000 سالوں کے درمیان اتنا گہرا بدلاؤ لا سکتا ہے تو ملین سالوں میں نیچرل سیلیکشن (Natural Selection) نے کیا کچھ کر دیا ہو گا۔ اس کا جواب زندگی کی تمام خوبصورتی اور تنوع ہے۔

ہمارے تصور کا جہاز ہمیں زماں و مکاں میں کہیں بھی لے جا سکتا ہے، یہاں تک کہ خرد کائنات (microcosmos) میں بھی، جہاں ایک طرح کی زندگی کسی دوسری میں ڈھل رہی ہے۔ میرے ساتھ آئے۔ یہ دو ملین سال پہلے کی بات ہے جب زیادہ تر موسم سرد اور خشک تھا۔ قطب شمالی کی برف آج کے جنوبی حصوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ ان لمبے برفانی تو دو کے وقت میں جہاں سمندری برف قطب شمالی سے لے کر آج کے لاس اینجلس تک پھیلی ہوئی تھی، عظیم ریچھ آئر لینڈ کے جمے ہوئے میدانوں میں گھومتے تھے۔

یہ ایک عام سی ریچھ ہے لیکن اس کے اندر کچھ غیر معمولی ہو رہا ہے۔ کچھ ایسا جو ایک نئی نسل کو جنم دے گا۔ اس سب کو دیکھنے کے لیے ہمیں بہت چھوٹا ہونے کی ضرورت ہے، شاید سیل کی سطح تک تاکہ ہم اس مادہ ریچھ کے تولیدی نظام کو جانچ سکیں۔ ہم دل سے سب کلیوین شریان (subclavian artery) کا راستہ لیتے ہیں۔ ہم پہنچ گئے۔ یہاں پر اس کے کچھ انڈے ہیں۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ ان میں سے ایک کے اندر کیا ہو رہا ہے ہے، ہمیں اور چھوٹا ہونے پڑے گا۔ ہمیں خود کو مالیکیول کی سطح تک لے جانا پڑے گا۔ ہمارے تصور کا جہاز اب اتنا چھوٹا ہے کہ ایک مٹی کے ذرے میں دس لاکھ سما جائیں۔

ان لوگوں کو دیکھیے جو اس کڑی پر اتراتے ہوئے چل رہے ہیں۔ یہ پروٹینز ہیں جنہیں کینی سن (kinesin) کہا جاتا ہے۔ یہ کینی سن وہ نقل و حمل کا عملہ ہے جو سیل کے اندر سامان کی ترسیل کرتا ہے۔ کتنے اجنبی لگ رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ چھوٹے وجود اور ان کی طرح کے دوسرے، ہر زندہ سیل کا حصہ ہیں۔ اگر زندگی کی کوئی مقدس جگہ ہے تو وہ یہ نیوکلیس ہے جس میں ہمارا ڈی این اے ہے، ہمارے جینیاتی کوڈ کا مقدس صحیفہ۔ اور یہ اس زبان میں لکھا ہے کہ تمام زندگیاں اسے پڑھ سکتی ہیں۔

ڈی این ایک مالیکیول ہے جو ایک بل کھاتی سیڑھی یا ڈبل ہیلکس کی طرح ہے۔ اس سیڑھی کے درجات چار مختلف طرح کے چھوٹے مالیکیولز سے مل کر بنتے ہیں۔ یہ جینیاتی الفاظ کے حروف تہجی ہیں۔ ان الفاظ کی خاص ترتیب تمام جانداروں کے لیے ہدایات ہوتی ہیں۔ وہ انہیں بتاتے ہیں کہ کس طرح بڑھنا ہے، حرکت کرنی ہے، ہضم کرنا ہے، ماحول کی سمجھنا ہے، شفا پانی ہے اور نقل پیدا کرنی ہے۔ یہ ڈی این اے کا ڈبل ہیلکس ایک مالیکیولر مشین ہے جس میں 100 بلین چھوٹے پرزے ہیں جو ایٹم کہلاتے ہیں۔

آپ کے ڈی این اے کے ایک مالیکیول میں اتنے ایٹم ہوتے ہیں جتنے کسی عام سی کہکشاں میں ستارے۔ یہی کتوں اور ریچھوں کے لیے اور ہر جاندار کے لیے سچ ہے۔ ہم اور ہم میں سے ہر ایک، ایک چھوٹی کائنات ہے۔ یہ ڈی این اے کا پیغام ایک سیل سے دوسرے سیل اور ایک نسل سے دوسری نسل میں بہت احتیاط کے ساتھ نقل ہوتا چلا جاتا ہے۔

جب ایک غیر بل کھایا پروٹین ڈبل ہیلکس کے دو دھاگوں کو علیحدہ کر دیتا ہے اور سیڑھی کے درجات کو توڑ دیتا ہے تو ایک نئے ڈی این اے مالیکیول کی پیدائش شروع ہوتی ہے۔ نیوکلیس کے مائع میں جینیاتی کوڈ کے مالیکیولر الفاظ آزادی کے ساتھ تیرتے رہتے ہیں۔ ہیلکس کا ہر دھاگہ اپنے جدا ہونے والے ساتھی کی نقل بناتا ہے۔ نتیجتاً دو ہو بہو ڈی این اے مالیکیول بن جاتے ہیں۔ اس طرح زندگی، جینز کی افزائش کرتی ہے اور انہیں ایک نسل سے اگلی میں منتقل کرتی ہے۔

جب ایک زندہ سیل دو میں تقسیم ہوتا ہے تو ان میں سے ہر ایک ڈی این اے کی نقل اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ ایک مخصوص پروٹین جانچ کرتا ہے کہ صرف صحیح الفاظ ہی چنے جائیں تاکہ ڈی این اے کی صحیح نقل تیار ہو۔ لیکن کوئی بھی مکمل نہیں۔ کبھی کبھی جانچ کی غلطی پھسل کر جینیاتی ہدایات میں بے ترتیب تبدیلی کر دیتی ہے۔ ریچھ کے انڈے کے سیل میں ایک میوٹیشن ہو گیا ہے۔ اس طرح کے معمولی بے ترتیب واقعہ کے بھی بہت بڑے پیمانے پر نتائج ہوسکتے ہیں۔ اس تغیر نے سمور (fur) کے رنگ کے جینز کو بدل دیا ہے۔ یہ ریچھ کی آنے والی نسلوں کے سمور کو گہرا رنگنے والے مواد کی پیداوار پر اثر انداز ہو گا۔

بہت سارے میوٹیشن غیر نقصان دہ ہوتے ہیں۔ کچھ جان لیوا ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ، اتفاقاً، کسی بھی آرگین ازم کو مقابلے اہم فائدہ دے سکتے ہیں۔ ایک سال گزر گیا ہے۔ ہماری ریچھ اب ایک ماں ہے۔ اس میوٹیشن کے نتیجے میں، اس کے دو بچوں میں سے ایک سفید سمور کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ جب یہ بچے بڑے ہو جائیں گے اور خود گھومنے پھرنے لگیں گے تو کس ریچھ کے پاس بے خبر شکار پر حملہ کرنے کی صلاحیت زیادہ ہو گی؟ بھورا ریچھ برف پر ایک میل دور سے نظر آ سکتا ہے۔

سفید ریچھ نے ترقی کی اور اس نے اپنی خاص جینز کو آگے منتقل کر دیا۔ یہ بار بار ہوتا رہا۔ آنے والی کئی نسلوں کے بعد سفید سمور کے جینز پورے قطبی ریچھوں کی آبادی میں پھیل گئے۔ گہرے سمور کے جینز بقاء کے مقابلے میں ہار گئے۔ میوٹیشن بالکل بے ترتیب لیکن ہمیشہ ہوتے ہیں۔ لیکن ماحول انہیں انعام سے نوازتا ہے جن کے پاس بقاء کے مواقع زیادہ ہوں۔ یہ فطری طور پر انہیں چنتا ہے جن میں باقی رہ پانے کی صلاحیت ہو۔ اور یہ چناؤ بے ترتیب کی ضد ہے۔ ریچھوں کی دو آبادیاں الگ ہو گئیں اور ہزاروں سالوں میں وہ خصوصیات ارتقاء پذیر ہوئیں جس کے نتیجے میں وہ دونوں بالکل علیحدہ ہو گئے۔ وہ دو مختلف انواع بن گئے۔

چارلس ڈارون کی ”انواع کی ابتدا (The Origin of Species)“ سے یہی مراد تھی۔ ایک ریچھ ارتقاء پذیر نہیں ہوا بلکہ ریچھوں کی نسلوں کی آبادیاں ارتقاء پذیر ہوئیں۔ اگر عالمی پیمانے پر درجہ حرارت میں اضافے سے قطبی برف پگھلتی رہی تو قطبی ریچھ ناپید ہوسکتے ہیں۔ ان کی جگہ بھورے ریچھ لے لیں گے جو پگھلے ہوئے ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں۔

یہ کتوں کے مقابلے میں مختلف کہانی ہے۔ کسی نسل بڑھانے والے نے ان تبدیلیوں کی رہنمائی نہیں کی۔ یہ ارتقاء نیچرل سیلیکشن کے نتیجے میں ہوا ہے اور یہ سائنسی تاریخ کا ایک عظیم انقلابی تصور ہے۔ ڈارون نے اس تصور کا ثبوت 1859 میں دیا جس پر اٹھا طوفان ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ کیوں؟ اس خیال سے کہ ہمارے مشترکہ اجداد بندر ہیں، ہم جانتے ہیں کہ اس سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ ایک رشتہ دار سے زیادہ آپ کو کوئی شرمندہ نہیں کر سکتا۔

ہمارے قریبی، چیمپینزی، وہ مجمع میں اکثر ناشائستہ حرکتیں کرتے ہیں۔ انسانوں کی انہیں اپنے آپ سے دور رکھنے کی ضرورت سمجھ میں آتی ہے۔ روایتی عقائد کا مرکزی مقدمہ یہ ہے کہ ہمیں دوسرے جانوروں سے الگ پیدا کیا گیا تھا۔ یہ دیکھنا آسان ہے کہ کیوں یہ نظریہ مضبوط ہو گیا۔ یہ ہمیں خاص محسوس کراتا ہے۔ لیکن درختوں سے ہماری رشتہ داری کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ آپ کو کیسا محسوس کراتا ہے؟ اچھا، یہ ایک بلوط (oak) کے درخت کے ڈی این اے کا حصہ ہے۔

اسے بار کوڈ کی طرح سوچیے۔ اس زندگی کے ضابطے میں جو ہدایات لکھی ہیں وہ اس درخت کو یہ بتاتی ہیں کہ وہ کیسے شکر کو تبدیل (metabolize) کرے گا۔ اب میرے ڈی این اے کے اسی حصے کو دیکھیے۔ ڈی این اے جھوٹ نہیں بولتا۔ یہ درخت اور میں، ہم بہت پہلے بچھڑے ہوئے بھائی ہیں۔ اور یہ صرف درختوں کا معاملہ نہیں۔ اگر آپ کافی پہلے جائیں، تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہمارے اجداد تتلی، سرمئی بھیڑیے، کھمبی، شارک، بیکٹیریا اور چڑیا سے مشترک ہیں۔

کیا ہی خاندان ہے! بار کوڈ کے دوسرے اجزاء نوع بہ نوع مختلف ہوتے ہیں۔ یہی ایک الو اور ایک ہشت پا (octopus) میں فرق پیدا کرتا ہے۔ مماثل جڑواں کے علاوہ پوری کائنات میں آپ جیسا ڈی این اے کسی اور کا نہیں ہو سکتا۔ دوسری انواع میں جینیاتی فرق نیچرل سیلیکشن کے لیے خام مال مہیا کرتا ہے۔ ماحول یہ چنتا ہے کہ کون سی جینز باقی رہیں گی اور ضرب ہوں گی۔ جہاں تک بنیادی افعال، جیسے شکر کو ہضم کرنے کی جینیاتی ہدایات کا تعلق ہے، ہم اور دوسری انواع تقریباً ایک جیسی ہیں۔ کیونکہ یہ افعال زندگی کے لیے انتہائی بنیادی ہیں اور یہ اس وقت ارتقاء پذیر ہوئے جب مختلف زندگی کی شکلیں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئیں۔

یہ ہمارا شجر حیات ہے۔ سائنس نے ہمیں اس قابل بنا دیا ہے کہ ہم زمین پر موجود تمام زندگی کی انواع کا یہ درخت تعمیر کریں۔ قریبی جینیاتی رشتہ دار درخت کی ایک شاخ پر ہوں گے جبکہ دور کے رشتہ دار ذرا دور شاخوں پر۔ ہر چھوٹی شاخ ایک زندہ نوع ہے۔ اور درخت کا تنا زمین پر موجود تمام زندگی کے مشترک اجداد کی نمائندگی کرتا ہے۔ زندگی کا مادہ اتنا نرم تھا کہ جب ایک بار یہ شروع ہو گیا تو ماحول نے اسے حیران کن شکلوں میں ڈھال دیا۔

ہم یہاں صرف 10، 000 گنا کم ہی دکھا سکتے ہیں۔ ماہرین حیاتیات نے صرف بیٹلز (beetles) کی پانچ لاکھ اقسام کی فہرست مرتب کی ہے۔ بیکٹیریا کی ان گنت اقسام کا ذکر ضروری نہیں ہے۔ لاکھوں کے حساب سے جانوروں اور پودوں کی اقسام کے بارے میں سائنس کچھ نہیں جانتی۔ سوچیے۔ زندگی کی مختلف شکلوں سے رابطہ کرنا ابھی باقی ہے۔ اس چھوٹے سے سیارے پر زندگی کی اقسام کا یہ تناسب ہے۔ یہ شجر حیات اپنی شاخیں ہر طرف پھیلاتا ہے، تلاش کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کیا کام کا ہے، نئی شکلوں کے لیے نیا ماحول اور مواقع تخلیق کرتا ہے۔

شجر حیات ساڑھے تین بلین سال پرانا ہے۔ یہ کافی وقت تھا کہ چالوں کی متاثر کن فہرست بنا لی جائے۔ ارتقاء نے جانوروں کو شکاریوں سے چھپنے کے لیے پودوں کی شکل اختیار کرنا سکھا دیا۔ یا وہ پودوں کو جانوروں کی شکل میں چھپا دیتی۔ کھلتے ہوئے پھولوں نے بھڑ (wasp) کی شکل اختیار کرلی۔ یہ آرکڈ (orchid) کا طریقہ تھا کہ وہ اصلی بھڑ کو پولی نیشن کے لیے اکسائے۔ یہ نیچرل سیلیکشن کی شکل تبدیل کرنے کی زبردست طاقت ہے۔

سائنس نے ہمیں بتایا کہ تمام حیات ارضی ایک ہے۔ ارتقاء کی اصل میکانیت کو ڈارون نے دریافت کیا۔ عام عقیدہ یہ رہا ہے کہ زندگی کی تمام پیچیدگی اور رنگا رنگی کسی بہت ہی ذہین نمونہ ساز کا کارنامہ ہے جس نے کروڑوں مختلف انواع الگ الگ تخلیق کی ہیں۔ کہا گیا کہ جاندار اتنے پیچیدہ ہیں کہ یہ کسی بے راہ رو ارتقاء کا نتیجہ نہیں ہوسکتے۔ انسانی آنکھ کو دیکھیے، پیچیدگی کا شاہکار۔ اس میں قرنیہ (cornea) ، پتلی (iris) ، عدسہ (lens) ، پردہ چشم (retina) ، عصب بصری (optic nerves) ، پٹھے اور دماغ کا ایک پورا نظام جو شبیہوں کی توضیع کرتا ہے۔ یہ انسانی ذہانت کی ایجاد کردہ تمام آلات سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس لیے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ یہ کسی لاپروا ارتقاء کا کام نہیں ہو سکتا۔

اس کی سچائی جاننے کے لیے ہمیں اس وقت کا سفر اختیار کرنا پڑے گا جب دنیا میں دیکھنے والی آنکھ موجود ہی نہیں تھی۔ ابتدا میں، زندگی نابینا تھی۔ اندھے پن میں کئی سینکڑوں ملین سال گزر گئے اور پھر ایک دن، بیکٹیریا کے ڈی این اے میں نقالی کی خردبینی غلطی ہوئی۔ ایک بے ترتیب میوٹیشن نے ایک جرثومے کو وہ پروٹین مالیکیول دیا جو سورج کی روشنی کو جذب کر سکتا تھا۔ میوٹیشن بے ترتیبی سے ہوتے رہے، جیسے کہ تمام جانداروں کی آبادی میں ہوتے ہیں۔

The Most Common Marine Plants

اسی طرح کے دوسرے میوٹیشن نے سیاہ بیکٹیریا کو روشنی سے دور بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ یہاں کیا ہو رہا ہے؟ رات اور دن۔ وہ بیکٹیریا جو رات اور دن میں تفریق کر سکتے تھے، انہیں دوسرے بیکٹیریا پر ایک فیصلہ کن فائدہ حاصل ہوا۔ کیوں؟ کیونکہ دن کا وقت شدید الٹرا وائلٹ روشنی لاتا تھا جو ڈی این اے میں توڑ پھوڑ کا پیش خیمہ تھی۔ حساس بیکٹیریا شدید روشنی سے بھاگتے تھے تاکہ اندھیرے کی محفوظ پناہ گاہ میں اپنے ڈی این اے تبدیل کرسکیں۔

وہ بیکٹیریا جو سطح پر رہتے تھے، ان کے مقابلے میں گہرائیوں میں رہنے والے بڑی تعداد میں زندہ رہ گئے۔ وقت کے ساتھ، روشنی سے حساس پروٹین جمع ہوئے اور جدید یونی سیلولر جاندار میں ایک رنگین دھبے کی صورت اختیار کر گئے۔ اس سے روشنی کو ڈھونڈنا آسان ہوا، ایک جاندار جو سورج کی روشنی سے غذا بناتا ہے، اس کے لیے ایک زبردست فائدہ۔ کئی سیلز والے جانداروں نے اس رنگین دھبے کو ایک گڑھے میں بدل دیا۔ پیالے کی شکل کے اس جھکاؤ نے جانور کو روشنی اور سائے میں فرق کرنا سکھا دیا تاکہ وہ اپنے علاقوں میں اشیاء کا ہلکا اندازہ کرسکیں۔

اس میں وہ بھی شامل تھا جسے وہ کھا سکیں اور جو انہیں کھا سکے۔ یہ ایک بہت برا فائدہ تھا۔ بعد میں چیزیں اور زیادہ واضح ہونے لگیں۔ وہ گڑھا گہرا ہوتا گیا اور ایک چھوٹی سی درز کے ساتھ ایک ساکٹ میں ارتقاء پذیر ہو گیا۔ ہزاروں نسلوں میں فطری چناؤ آہستہ آہستہ آنکھ کو تراش رہا تھا۔ یہ درز سمٹ کر ایک سوئی کے سوراخ میں ڈھل گئی اور اس پر ایک حفاظتی شفاف جھلی چڑھ گئی۔ صرف ہلکی سی روشنی ہی اس سوراخ میں داخل ہو سکتی تھی لیکن یہ ایک مدہم تصویر بنانے کے لیے کافی تھی۔

اس سے فوکس تیز ہوا۔ بڑی درز زیادہ روشنی لاتی۔ اس سے تصویر روشن تو ہو جاتی مگر فوکس بگڑ جاتا۔ اس ترقی نے بصری طور پر برابر کے جانوروں میں جنگ شروع کردی۔ بقاء کے لیے مقابلے کی ضرورت پڑ گئی۔ پھر آنکھ میں ایک شاندار روپ کا اضافہ ہوا۔ آنکھ میں ایک ایسے لینس کا اضافہ ہوا جس سے فوکس میں روشنی کے ساتھ تیزی بھی آ گئی۔ ابتدائی مچھلیوں میں، اس سوئی کے سوراخ کے اوپر ایک شفاف جیلی ایک لینس میں ڈھل گئی۔ ساتھ ہی وہ سوئی کا سوراخ بڑا ہوتا گیا تاکہ زیادہ روشنی لے سکے۔

اب مچھلیاں ہائی ڈیفینیشن میں دور یا قریب دیکھ سکتی ہیں۔ اور پھر ایک پریشان کن بات ہوئی۔ کیا آپ نے دیکھا ہے کہ جب آپ پانی کے گلاس میں ایک تنکا ڈالیں تو وہ پانی کی نچلی سطح پر ٹیڑھا نظر آتا ہے؟ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ جب روشنی ایک سطح سے دوسری میں داخل ہوتی ہے تو مڑ جاتی ہے، جیسے پانی سے ہوا میں۔ اپنی اصلی حالت میں ہماری آنکھیں پانی میں دیکھنے کے لیے ارتقاء پذیر ہوئی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں نم مادہ مڑنے کی خرابی کو صفائی سے صحیح کر دیتا تھا۔

خشکی کے جانوروں میں تصویریں خشک ہوا میں اور روشنی سے ابھی تک گیلی آنکھوں میں بنتی ہیں۔ روشنی کی لہروں کا مڑنا اس طرح کی خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ جب ہمارے (amphibious) ایم فیبیس اجداد نے خشکی کے لیے پانی کو چھوڑا، ان کی آنکھیں، جو پانی میں دیکھنے کے لیے ارتقا پذیر ہوئی تھیں، خشکی میں دیکھنے کے لیے نہایت نامناسب تھیں۔ اس وقت سے آج تک ہماری نظر صحیح نہیں ہوئی۔

ہم یہ سوچنا چاہتے ہیں کہ ہماری آنکھیں انتہائی مکمل شاہکار ہیں لیکن 375 ملین سال پہلے تک، ہمیں اپنی ناک سے آگے نظر نہیں آتا تھا اور مچھلی کی طرح ہلکے اندھیرے میں ہم تفصیلات نہیں دیکھ سکتے۔ جب ہم نے پانی کو چھوڑا، تو فطرت پھر سے شروع کیوں نہیں ہوئی اور اس نے ہمارے لیے وہ آنکھیں کیوں نہیں بنائی جو ہوا میں بھی صحیح دیکھ سکتیں۔ فطرت اس طرح کام نہیں کرتی۔ ارتقا موجودہ شکلوں کی کئی نسلوں سے چھوٹی چھوٹے تبدیلیوں کی آبیاری کرتی ہے۔

ایسا بالکل نہیں ہو سکتا کہ یہ سب دوبارہ سے شروع کیا جائے۔ ترقی کی ہر سطح پر، ارتقاء پذیر آنکھ بہتر سے بہتر ہوتی چلی گئی اور بقاء کے لیے فائدے پہنچاتی رہی۔ آج کے زندہ جانداروں میں ہمیں وہ ترقی کی مختلف سطحوں کی آنکھیں نظر آجاتی ہیں اور وہ سب کام کرتی ہیں۔ فطری چناؤ کے لحاظ سے انسانی آنکھ کی پیچیدگی ارتقاء کے نظریے کے سامنے کوئی چیلنج پیش نہیں کرتی۔ حقیقتاً، آنکھ اور تمام حیاتیات ارتقاء کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی۔

کچھ کا دعویٰ ہے کہ ارتقاء صرف ایک نظریہ ہے، جیسے کہ یہ فقط ایک رائے ہو۔ نظریہ ارتقاء، نظریہ کشش ثقل کی طرح سائنسی حقیقت ہے۔ ارتقاء واقعی ہوا ہے۔ زمین کی ساری حیات کو اپنا رشتہ دار مان لینا نا صرف ٹھوس سائنس ہے بلکہ، میرے خیال میں یہ ایک بڑھتا ہوا ایک روحانی تجربہ بھی ہے۔ چونکہ ارتقاء نابینا ہے اس لیے وہ تباہ کن واقعات کی پیشین گوئی کر سکتا اور نا ہی ان سے مطابقت پیدا کر سکتا ہے۔ شجر حیات کی کچھ ٹوٹی ہوئی شاخیں ہیں۔ ان میں بہت ساری پانچ عظیم آفتوں میں برباد ہوئیں جو زندگی نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ یہیں کہیں گم گشتہ نسلوں کی بھیڑ کی ایک یادگار ہے، یادگار معدومین (Halls of Extinction) ۔ میرے ساتھ آئے۔

یادگار معدومین میں خوش آمدید۔ شجر حیات کی ٹوٹی ہوئی شاخوں کی یادگار۔ آج کی کئی ملین نسلوں میں سے ہر ایک کے لیے شاید ہزاروں دوسرے مٹ گئے۔ ان میں سے کئی دوسری انواع حیات روزمرہ کے مقابلے میں ہار کر مٹ گئیں۔ لیکن ان میں سے بہت ساری ان عظیم سیلابوں میں بہہ گئیں جو پورے سیارے پر اثر انداز ہوئے۔ پچھلے 500 ملین سالوں میں یہ پانچ مرتبہ ہوا۔ زمین کی حیات کو پانچ بار بڑے پیمانے پر معدومیت کی تباہی سے گزرنا پڑا۔

ان میں سب سے بدترین 250 ملین سالوں پہلے پرمیئن (Permian) دور کے آخر میں ہوئی۔ ٹرائلو بائٹس (Trilobites) بکتر بند جانور تھے جو سمندری فرش پر بڑے گروہوں میں شکار کرتے تھے۔ یہ پہلے جانور تھے جن میں عکس بنانے والی آنکھیں ارتقاء پذیر ہوئیں۔ ٹرائلوبائٹس 270 ملین سالوں تک زندہ رہے۔ ہماری زمین کبھی ٹرائلو بائٹس کا سیارہ تھی۔ لیکن اب وہ سب جا چکے ہیں، معدوم ہو چکے ہیں۔ ان میں سے آخری ان گنت دوسری انواع کے ساتھ ایک غیر متوازی ماحولیاتی تباہی سے زندگی کے سٹیج سے مٹ گئے۔

اس عظیم تباہی کا آغاز آج کے سائبیریا سے ہوا۔ اتنا بڑا آتش فشانی اخراج ہوا جو انسانی تجربہ میں کبھی نہیں آیا۔ اس وقت زمین بہت مختلف تھی۔ اس میں صرف ایک بر عظیم اور ایک بحر عظیم تھا۔ جلتے ہوئے بے صبرے لاوے کے سیلابوں نے مغربی یورپ سے بڑے علاقہ کو گھیر لیا۔ یہ بھڑکتا ہوا اخراج سینکڑوں ہزاروں سال جاری رہا۔ جلتی ہوئی چٹانوں نے کوئلے کے ذخائر کو آگ لگا دی اور ہوا کو کاربن ڈائی آکسائڈ اور دوسری گرین ہاؤس گیسوں نے آلودہ کر دیا۔

اس نے زمین کو گرم کر دیا اور سمندر کی دھاروں کو گردش کرنے سے روک دیا۔ نقصان دہ بیکٹیریا پھلے پھولے لیکن سمندری حیات تقریباً ختم ہو گئی۔ کھڑے پانی زہریلی ہائیڈروجن سلفائیڈ کے بھبوکے ہوا میں اڑانے لگے جس نے زیادہ تر خشکی کے جانوروں کا دم گھونٹ دیا۔ سیارے کی دس میں سے نو انواع فنا ہو گئیں۔ ہم اسے عظیم موت (The Great Dying) کہتے ہیں۔ زمینی حیات خاتمے کے اتنے قریب پہنچ چکی تھی کہ اسے اپنے آپ کو بازیافت کرنے میں ایک کروڑ سال لگ گئے۔

لیکن نئی حیاتی شکلیں آہستہ آہستہ ارتقاء پذیر ہوئیں اس خلا کو بھرنے کے لیے جو پرمیئن عالمگیر بربادی نے پیدا کر دیا تھا۔ بڑے جیتنے والوں میں ڈائناسور شامل تھے۔ اب زمین ان کا سیارہ تھی۔ ان کا دور 150 ملین سالوں تک جاری رہا۔ جب تک کہ وہ بھی ایک بڑی معدومیت کا شکار نہیں ہوئے۔ حیات ارضی نے قرنوں میں کئی بار مار کھائی ہے، لیکن پھر بھی، یہ اب تک موجود ہے۔ زندگی کا ضدی پن دماغ کو گھما دیتا ہے۔ یہ ہمیں وہاں بھی مل جاتی ہے جہاں ہم سوچ بھی نہیں سکتے یہ ہوگی۔

میں ایک جانور کو جانتا ہوں جو ابلتے ہوئے پانی اور ٹھوس برف میں زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ دس سال تک پانی کے قطرے کے بغیر رہ سکتا ہے۔ یہ سرد خلاء اور شدید خلائی تابکاری میں برہنہ سفر کرنے کے بعد بغیر کسی نقصان کے واپس آ سکتا ہے۔ ٹارڈیگریڈ (tardigrade) یا پانی کا بھالو یا ریچھ۔ یہ پہاڑوں کی اونچائیوں اور سمندروں کی گہری خندقوں میں گھر جیسا محسوس کرتا ہے۔ آپ کے گھر کے پچھلے حصے میں کائی کے ساتھ یہ ان گنت تعداد میں رہتا ہے۔

آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا کیونکہ یہ بہت ہی چھوٹا ہے۔ تقریباً سوئی کی نوک کے برابر لیکن یہ بہت سخت جان ہے۔ ٹارڈیگریڈ پانچوں عظیم معدومیات میں زندہ رہا ہے۔ یہ دنیا میں آدھے بلین سالوں سے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ زندگی بہت حجتی ہوتی ہے۔ یہ وہیں پنپتی ہے جہاں نا زیادہ گرمی ہو، نا سردی ہو، زیادہ اندھیرا نا ہو، نمک، تیزابیت یا تابکاری نا ہو۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں تو آپ غلط ہیں۔ جیسے کہ یہ سخت جان ٹارڈیگریڈ دکھاتا ہے۔ زندگی وہ شرائط بھی برداشت کر لیتی ہے جو ہم انسانوں کے لیے یقینی موت ہے۔ لیکن ہم میں اور ان زندگیوں میں جو ہمارے سیارے کے شدید ماحول میں بھی زندہ رہتی ہیں، فرق صرف موضوع کے تغیرات کاہے یا ایک زبان کی مختلف بولیاں۔ حیات ارضی کا جینیاتی کوڈ۔

لیکن دوسری دنیاؤں میں حیات کیسی ہوگی؟ دنیائیں، ہمارے سیارے سے بالکل مختلف تاریخ، کیمیا اور ارتقاء کی حامل ہوں؟ میں آپ کو ایک دوردراز دنیا میں لے کر جانا چاہتا ہوں۔ ایک دنیا ہماری دنیا سے بالکل مختلف لیکن جو زندگی کو پناہ دے سکتی ہے۔ اگر اس نے ایسا کیا تو یہ ایسا ہو گا جو ہم نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔ بادلوں اور گرد و غبار نے ٹائٹن (Titan) کی سطح کو بالکل چھپا رکھا ہے۔ زحل کا ایک دیو قامت چاند۔ ٹائٹن مجھے تھوڑی سی گھر کی یاد دلاتا ہے۔

زمین کی طرح اس کی بھی فضاء ہے جس میں زیادہ تر نائٹروجن ہے لیکن چار گنا گاڑھی ٹائٹن کی ہوا میں آکسیجن بالکل نہیں ہے اور وہ زمین میں کہیں سے بھی زیادہ سرد ہے۔ لیکن میں پھر بھی وہاں جانا چاہوں گا۔ ہمیں سطح تک پہنچنے کے لیے کئی سو کلومیٹر کے دھوئیں اور سموگ سے گزرنا ہو گا۔ لیکن اس کے نیچے چھپا ہوا عجیب طرح کا جانا مانا منظر نامہ ہے۔ ٹائٹن ہی ہمارے نظام شمسی میں ایک دنیا ہے جہاں ہر وقت بارش ہوتی رہتی ہے۔

اس میں دریا ہیں اور سمندر کے کنارے ہیں۔ ٹائٹن میں سینکڑوں جھیلیں ہیں۔ ان میں سے ایک شمالی امریکہ کی لیک سپیرئیر (Lake Superior) سے بھی بڑی ہے۔ بخارات جھیلوں سے اٹھتے ہیں، جمتے ہیں اور بارش کی صورت برستے ہیں۔ بارش دریاؤں کو سیراب کرتی ہے، جو منظر نامہ میں وادیاں بھرتے ہیں، بالکل زمین کی طرح۔ لیکن ایک بہت بڑا فرق ہے۔ ٹائٹن پر، سمندر اور بارش پانی کے نہیں ہوتے بلکہ میتھین اور ایتھین (methane and ethane) کے ہوتے ہیں۔

زمین پر یہ مالیکیول قدرتی گیس بناتے ہیں لیکن سرد ٹائٹن پر یہ مائع ہوتے ہیں۔ ٹائٹن پر پانی بہت ہے لیکن وہ سخت چٹانوں کی طرح جما ہوا ہے۔ حقیقتاً پورا منظر نامہ اور پہاڑ جمے ہوئے پانی سے بنے ہیں۔ صفر کے نیچے سینکڑوں ڈگری پر ٹائٹن پانی کے لیے مائع بننے کے لیے بہت ہی ٹھنڈا ہے۔ خلائی حیاتیات کے ماہرین (Astrobiologists) کارل سیگن کے وقت سے یہ سوچتے تھے کہ کیا ٹائٹن کی ہائیڈرو کاربن جھیلوں میں زندگی تیر سکتی ہے۔

Deep Hydrocarbon Lakes on Titan

ایسی زندگی جس کی کیمیائی بنیادیں ہماری علم سے قطعاً مختلف ہوں۔ زمین کی تمام حیات مائع پانی پر انحصار کرتی ہے۔ اور ٹائٹن کی سطح پر ایسا کچھ نہیں ہے۔ لیکن ہم دوسری طرح کی زندگی کے بارے میں تصور کر سکتے ہیں۔ ایسی کوئی مخلوق جو آکسیجن کی جگہ ہائیڈروجن میں سانس لیتی ہو اور کاربن ڈائی آکسائڈ کی جگہ میتھیں نکالتی ہو۔ شکر کی جگہ ایسیٹی لین (acetylene) ، آتش گیر مادے سے توانائی حاصل کرتی ہو۔ زمین کی تمام قدرتی گیس اور تیل ٹائٹن کے ذخائر کے سامنے ایک چھوٹا سا اعشاریہ ہیں۔

ایک آخری کہانی جو مجھے آپ کو سنانی ہے۔ اور یہ سائنس کی عظیم کہانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ ہماری زمین پر حیات کی کہانی ہے۔ چار بلین سال پہلے کی زمین پر خوش آمدید۔ یہ حیات سے پہلے کا سیارہ ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ زندگی کیسے شروع ہوئی۔ اس وقت کے زیادہ تر ثبوت زمین پر خلائی حملوں اور کٹاؤ نے تباہ کر دیے۔ سائنس علم اور جہالت کی درمیانی سرحد میں کام کرتی ہے۔ ہم اس سے ڈرتے نہیں کہ ہم نہیں جانتے۔ اس میں کوئی شرم نہیں۔

شرم کی بات یہ ہے کہ ہم یہ ظاہر کریں کہ ہمارے پاس سارے جوابات ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں کوئی سمجھ جائے کہ زمین پر زندگی کیسے شروع ہوئی۔ زندہ جراثیموں کے ثبوتوں سے معلوم ہوا ہے کہ ان کے اجداد زیادہ درجہ حرارت پسند کرتے تھے۔ ارضی حیات شاید ان گرم پانیوں میں پیدا ہوئی جو ڈوبے ہوئے آتش فشانی اخراج تھے۔

اگر ایک مالیکیول کو ارتقاء کے چار بلین سال مل جائیں تو وہ اس جاندار سے جو رات اور دن میں فرق نہیں کر پاتا، اس وجود میں ڈھل جاتا ہے جو کائنات کو کھوجنے نکل جاتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو ایک مالیکیول ارتقاء کے چار بلین سالوں میں کر سکتا ہے۔

(نیل ڈی گراس ٹائسن، ایسٹرو فیزیسیسٹ، مصنف اور سائنسی رابطہ کار، کی مشہور دستاویزی فلم کوسموس کی دوسری قسط کا ترجمہ جاوید صدیق نے کیا ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments