بندوبستی نظام اور نری کم عقلی


سیاست کتنی آلودہ اور کثیف ہو گئی ہے کہ دائیں، بائیں اور آئیں بائیں شائیں سب مدغم، برے بھلے کی تمیز مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد پھر سے نئے مباحث شروع ہو گئے ہیں۔ نو مئی کے واقعات کو آپ ڈی جی آئی ایس پی آر کی عینک سے دیکھیں یا پھر رؤف حسن کے زاویے سے یہ واقعات ہر لحاظ سے قابل مذمت اور باعث تشویش ہیں، غریدہ فاروقی اور ارشاد بھٹی دونوں مفت میں خود کو ہلکان کر رہے ہیں۔

یہ تحفظ آئین پاکستان تحریک، اس سے پی ٹی آئی مائنس ہو گئی تو کیا بچے گا؟ وکلا کی لابنگ کا سنا تھا پہلی بار ججوں کی تقسیم کا سن رہے ہیں اور تو اور جسے آپ پاکستان کا خالص پاکستانی انٹیلیجنسیا سمجھتے تھے وہ بھی بٹ چکا ہے، لوگ ایک دوسرے کے خلاف سرٹیفکیٹ اور فتوے جیبوں میں لئے پھرتے ہیں اختلاف رائے دلیل کے ساتھ رکھنا مفقود ہو چکا ہے اور ایسے میں ستم بالا ستم یہ کہ دن بدن لاتعلق ہوتا عام آدمی کسی کھاتے میں ہی نہیں۔

نو اور دس مئی کے واقعات پاکستان کی گندی سیاست میں دو انتہا پسندانہ رجحانات کا پتہ دیتے ہیں آج ان واقعات کے ایک سال بعد بھی دونوں رجحانات بہت مضبوط ہیں دو انتہائیں ہیں جن کے بیچ ملک بٹ رہا ہے۔ وفاقی دارالحکومت سے سینکڑوں میل دور یہاں کوئٹہ میں بیٹھ کر میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ شہر اقتدار میں ان دنوں ہوا کس رخ پر جا رہی ہے مگر نوشتہ دیوار یہی نظر آتا ہے کہ یہ جو نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا ”بندوبستی نظام“ ہے یہ رسوائیوں کا سامان کر رہا ہے۔

بظاہر غیر جمہوری لگنے والا نکتہ ”لپیٹ دو“ ہی اس کا حل ہے مگر ذاتی طور پر میں اس حل کے خلاف اس لئے ہوں کہ اس سے منہدم ہوتے اسٹیٹس کو اور مصنوعی قیادت کے تسلط کی سوچ کو نئی جہتیں مل سکتی ہیں شاید اسی سوچ کے تحت میں نے گزشتہ روز پوسٹ لگائی کہ ”پاکستان اس وقت سچ میں ایک تاریخی دور سے گزر رہا ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ عدلیہ (اعلیٰ اور ماتحت) کی نالائقی پاکستان میں چیزوں کی تطہیر کا باعث بنی ہے اور شاید شر سے خیر کا برآمد ہونا اسی کو کہتے ہیں۔“

ایک ایسے وقت میں جب دونوں انتہاؤں پر بالادست طبقہ، میڈیا اور انٹیلیجنسیا پنجاب اور پشتونخوا کی ایک ایک چیز کو منصہ شہود پر لاکر معاملات کو تتر بتر کر رہا ہے ایسے میں سندھ اور بلوچستان میں بہت زیادہ خاموشی بلکہ لاتعلقی کا ماحول بنا ہوا ہے چیزوں پر دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں نظر صاف آتا ہے بس کوئی پردہ ہٹا کر دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ حسن اتفاق کہ دونوں صوبوں میں جیالے حکمران ہیں اور ”لگے ہوئے“ ہیں۔

بلوچستان میں کابینہ کی تشکیل کے بعد سے اب تک ٹرانسفر پوسٹنگ کے درجنوں حکمنامے جاری ہوئے درجنوں پراسس میں ہیں شاہد رند صاحب اور فرح عظیم شاہ صاحبہ کی ممکنہ لاجک کہ ”ثبوت لاؤ“ سے صرف نظر کر کے بتانا یہ مقصود ہے کہ سکول ٹیچر سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک (سیٹلمنٹ اور ریونیو کا تو پرسان حال نہیں ) افسران آپس میں سرگوشیاں کر رہے ہیں کہ فلاں پوسٹنگ کی فیس اتنی ہے اور فلاں کی اتنی۔ چھ اور سات مئی کو صدر آصف زرداری کوئٹہ کے دورے پر تھے اور اتفاق دیکھیں کہ جس روز صدر نے آنا تھا اسی روز نئے گورنر نے بھی حلف اٹھایا۔

سابق دور میں بی این پی کے کوٹے سے گورنر بننے والے ملک عبدالولی کاکڑ کی جگہ اب مسلم لیگ (ن) کے جعفر مندوخیل نے لے لی ہے۔ صوبے کے چوبیسویں گورنر بننے والے شیخ جعفر مندوخیل سینئر پارلیمنٹیرین ہیں جو دو ڈھائی عشروں تک لگاتار منتخب ہوتے رہے اور جماعتی وابستگی بھی بدلتے رہے حتیٰ کہ دو ہزار اٹھارہ میں مٹھا خان جیسے نو آموز سیاستدان کے ہاتھوں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مٹھا خان کے دوست اسے کاکڑی ووٹ کی جیت سمجھتے ہیں جبکہ شیخ جعفر کے ساتھی اسے بلوچستان عوامی پارٹی جوائن نہ کرنے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

برسبیل تذکرہ بلوچستان میں ژوب ( ڈویژن نہیں ضلع ) میں مڈل اور اپر مڈل کلاس کا سب سے پسندیدہ شعبہ کنسٹرکشن بزنس یا بہ الفاظ دیگر ٹھیکیداری ہے۔ شیخ جعفر خان کا ذکر کرتے ہوئے مجھے زرک میر کی کتاب شال کی یادیں یاد آ گئی جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ شیخ جعفر مندوخیل جب وزیر داخلہ تھے تو انہوں نے مری ہاؤس کے قریب پولیس کے ایک آپریشن کے جواز میں ایک ایسا بیان دیا جو اشتعال انگیزی پر مبنی تھا۔ بہرحال شیخ جعفر انتخابات ہار کر بھی گورنر بنے ہیں اور ان کی طرح متعدد سیاسی شخصیات انتخابات ہار کر بھی عہدوں کے حصول میں کامیاب ہو گئے ہیں ایک ایسا سیٹ اپ جس میں جیتنے والے محض رکن ہوں اور ہارنے والے ڈکلیئرڈ مشیر ایسے سیٹ اپ سے بلوچستان کے سلگتے مسائل کے حل کی امید لگانا نری کم عقلی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments