فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح پر بننے والے ترک ڈرامے کا سحر


آج ہم آپ کو ایک بادشاہ ایک سلطان کی کہانی سناتے ہیں اور یہ کوئی فرضی کہانی نہیں ہے سچ مچ کی کہانی ہے لیکن جب آپ اس کہانی کا اختتام جان لیں گے آپ پر حیرت کے نئے جہان کھل جائیں گے

کہانی سلطان کے محل سے شروع کرتے ہیں۔ سلطان کے خوبصورت محل کا منظر ہے سلطان جنگ پر ہے اور اس کے پیچھے اس کی غیرموجودگی میں سازشی وزیروں اور فوج نے بغاوت کردی ہے محل میں سلطان کی بیگمات اور شاہی خاندان کی دیگر خواتین بھی موجود ہیں لیکن باغیوں کو ایک شہزادے کی تلاش ہے اور اس شہزادے کی عمر ہے کوئی 10 سال۔ محل پر حملہ ہوتا ہے اور اس حملے کو روکنے کے لئے بادشاہ کے وفادار سپاہی ڈٹ جاتے ہیں گھمسان کی لڑائی ہوتی ہے باغیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور وہ ایک ایک کر کے سلطان کے وفاداروں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ہرطرف لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں محل کا کونہ کونہ خون سے رنگ جاتا ہے باغی اس شہزادے تک پہنچنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں لیکن سلطان کے وفادار باغیوں کو اس شہزادے تک پہنچنے سے روکنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں محل پر ہونے والے اس حملے کی کامیابی کا دار و مدار شہزادے کے ہاتھ لگنے پر ہے اور محل کے وفادار سپاہیوں نے شہزادے کو باغیوں کے ہاتھ نہ لگنے کی قسم کھا رکھی تھی خون ریز جنگ ہوتی ہے باغی سلطان کے پایہ تخت تک جا پہنچتے ہیں جہاں شہزادے کو چھپا کر رکھا گیا ہوتا ہے۔ باغیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ان کے سامنے کوئی نہیں ٹک پاتا اور وہ شاہی دربار کا دروازہ توڑٖ کر اندر داخل ہو جاتے ہیں وہاں شہزادہ ان کے سامنے موجود ہوتا ہے لیکن اسے دیکھ کر باغیوں کو خوشی نہیں انتہائی دکھ ہوتا ہے ان کے چہرے اداس ہو جاتے ہیں اور آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو جاتے ہیں

کیونکہ ان کے سامنے پایہ تخت پر شہزادے کی لاش پڑٖی ہوتی ہے اس شہزادے کو سلطان کے وفادار ساتھیوں نے اپنے ہاتھوں سے خود ہی موت کی گھاٹی میں اتار دیا تھا

آپ سوچ رہے ہوں سلطان کے وفاداروں نے شہزادے کو کیوں مارا؟ باغی شہزادے تک کیوں پہنچنا چاہتے تھے؟ اگر شہزادہ باغیوں کے لئے ضروری تھا تو بادشاہ کے وفاداروں نے اسے شہزادے کو چھپانے کے بجائے موت کے گھاٹ کیوں اتارا؟ باغیوں کو شہزادہ زندہ کیوں چاہیے تھا؟ وفاداروں نے زندہ شہزادہ باغیوں کے حوالے کرنے کے بجائے اسے مارنا کیوں پسند کیا؟

ان تمام سوالوں کے جوابات آپ کومل سکتے ہیں ترک ڈرامہ سیریز مہمت فاتح سلطان میں جس کی کہانی شاندار ڈائیلاگ مختصر مگر جاندار پروڈکشن بے مثال اور تاریخی پس منظر کے حساب سے تخلیق کیا گیا ماحول لاجواب ہے

ہم جاننے کی کوشش کریں گے سلطان محمد فاتح کی غیرموجودگی میں ان کے بھائی شہزادہ احمد کو انہی کے وفاداروں نے اپنے ہاتھوں سے کیوں قتل کیا؟ لیکن پہلے اس ٹی وی سیریز کے بارے میں تھوڑی سی بات کرلی جائے

ترک ڈرامہ سیریز ”سلطان محمد فاتح“ عثمانی سلطنت کے عظیم سپہ سالار اور مجاہد سلطان محمد الثانی کی زندگی پر بنایا گیا ہے جنہوں نے صرف 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ کو فتح کر کے بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کر دیا تھا اس سیریز کا آغاز 27 فروری 2024 کو ہوا اور مشہور ترک اداکار  سرکان چائیولو  نے سلطان محمد فاتح کا کردار ادا کیا ہے جن کی لاجواب اداکاری نے اس کردار کو ایسا زندہ جاوید کر دیا کیا کہ دیکھنے والے اس کے چہرے کے تاثرات بولتی آنکھوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے یہ اداکار اپنے چہرے کے تاثرات اور آنکھوں سے شاندار اداکاری کرتا ہے

مہمت فاتح قسطنطنیہ سیریز ترکیہ کے معروف ٹی وی چینل ٹی آر ٹی پر نشر کی گئی ہے اور اس میں ترکیہ کے تاریخی ہیروز کلچر ثقافت اور روایات کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ ارطغرل غازی کی کامیابی کے بعد ترک ڈرامہ انڈسٹری نے اپنے ہیروز اور اسلامی تاریخ کی ریاستوں پر مبنی سیریز کا آغاز کیا جس سے دنیا بھر میں ترک ڈراموں کو پسند کیا جانے لگا سلطان محمد فاتح کی زندگی پر مبنی یہ سیریز تین سیزن پر مشتمل ہے اور اس کی پہلی قسط 27 فروری 2024 کو نشر کی گئی تھی۔

سیریز میں سلطان محمد فاتح کی فتوحات ان کی انتظامی صلاحیتوں اور ان کے دور حکومت کی مذہبی رواداری اور بین الاثقافتی برداشت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ سلطان محمد فاتح کو علم و ہنر کی سرپرستی کے لیے بھی جانا جاتا ہے اور ان کے دور میں کئی قابل شخصیات دربار کا حصہ تھیں اس سیریز کو ترکیہ کے علاوہ دنیا بھر میں بہت سراہا گیا ہے اور اس نے ترک ڈرامہ انڈسٹری کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔

سلطان محمد فاتح سیریز میں متعدد مشہور ترک اداکار شامل ہیں جنہوں نے ماضی میں کئی سیریز میں اپنی بہترین اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں ان اداکاروں کو صرف پاکستان میں ہی پسند نہیں کیا جاتا بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں

اس ٹی وی سیریز کے علاوہ بھی سلطان محمد فاتح کی زندگی پر متعدد ڈرامے سیریز اور فلمیں بن چکی ہیں۔ ان کی زندگی کی تاریخی اہمیت اور ان کی فتوحات کی وجہ سے مختلف فلم اور ڈرامہ سازوں نے ان کی کہانی کو مختلف زاویوں سے پیش کیا لیکن جو مہارت اور خوبصورتی اس ترک سیریز میں ٹیم نے پیش کی ہے وہ انتہائی شاندار ہے اس ٹی وی سیریز کو دیگر ترک ڈراموں کی طرح نہ تو بلاوجہ طویل کیا گیا ہے نہ ہی کہانی کو جگہ جگہ پر دہرایا گیا ہے جس کی وجہ سے ہر سین نیا اور ہر موڑ دلچسپ محسوس ہوتا ہے اور ناظرین ایک ایک سین کا لطف اٹھاتے ہیں

ماضی میں بھی سلطان محمد فاتح کی زندگی پر مبنی متعدد کتابیں فلمیں اور ڈرامے بنائے گئے ہیں جو کہ ان کی شخصیت اور تاریخی کردار کو اجاگر کرتے ہیں

لیکن ہمارا سوال اب بھی وہیں موجود ہے کہ آخر سلطان کے پایہ تخت پر ان کے بھائی شہزادہ احمد کو کیوں قتل کیا گیا؟ ہم اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہیں ہماری کھوج جاری ہے جب ہم تاریخ کے اوراق کو کھنگالتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتاہے سلطان کے دور میں تخت سنبھالنے کے بعد بھائیوں کو قتل کرنے کی روایات پر مختلف تاریخی روایات اور کتابوں میں معلومات موجود ہیں۔ عثمانی سلطنت کی تاریخ میں ایک متنازع روایت یہ تھی کہ سلطان کے باقی تمام بھائیوں کو سلطنت کی بقا کے لیے قتل کیا جاتا تھا یہ روایت بعد میں ختم کر دی گئی تھی لیکن اس کے بارے میں مختلف آراء موجود ہیں۔

تاہم بعض تاریخی ریکارڈز کے مطابق اس دور میں بھی اس روایت کا اطلاق ہوتا تھا ان کے بھائی شہزادہ احمد کو بھی اس روایت کے تحت ان کے وفاداروں نے قتل کیا کیونکہ وہ جنگ پر تھے اور ان کے پیچھے باغی شہزادہ احمد کو تخت پر بٹھا کر سلطان محمد فاتح کو ہٹانا چاہتے تھے اس سے بچنے کے لئے محل میں موجود سلطان کے وفاداروں نے شہزادہ احمد کی جان لے لی ٹی وی سیریز میں یہ منظر سب سے زیادہ متاثرکن اور دل کو چھو لینے والا ہے جب ننھا شہزادہ سلطان کے وفادار کو کہتا ہے کہ وہ چھوٹا ہے اور اس کی والدہ کیا سوچیں گی اگر وہ موت کو گلے لگا لیتا ہے ننھے شہزادے کی معصومیت خوبصورتی اور بے ساختگی نے اس دل ہلا دینے والے منظر میں حقیقت کا روپ دے دیا یقیناً جس جس نے یہ سین دیکھا ہو گا اپنے دل پر چوٹ محسوس کی ہوگی

سلطان محمد فاتح کا عظیم کارنامہ قسطنطنیہ کی فتح تھا۔ جس کے لئے اس نے بڑی بڑی توپیں تیار کیں ڈرامہ سیریز میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ سلطان نے ایسی توپیں بنوائیں جن کے دہانے غیرمعمولی چوڑے تھے جن کے گولے اس وقت کی توپوں سے کئی گنا بڑٖے تھے ان توپوں کی تیاری کے لئے اس نے ہنگری کے ایک ماہر کی خدمات حاصل کیں جو کسی وجہ سے بازنطینی شہنشاہ سے ناراض تھا سلطان خود بھی توپوں کی تیاری کا علم رکھتا تھا اور ہر موقع پر اس استاد کی رہنمائی اور مشاورت کرتا رہتا تھا روایات کے مطابق نبی اکرم ﷺ نے فاتح قسطنطنیہ اور اس کی فوج کو جنت کی بشارت دی تھی اس عظیم فتح کے بعد سلطان محمد فاتح اس خوشخبری کے مستحق ٹھہرے قسطنطنیہ کی فتح ایک الگ موضوع ہے

ابھی ہم بات کریں گے سلطان محمد فاتح کی جنہوں نے قسطنطنیہ جسے اس وقت استنبول کے نام سے جانا تھا ہے کو بھی فتح کیا اور اس کے علاوہ بھی کئی علاقے سلطنت عثمانیہ میں فتح کے بعد شامل کیے ایک نظر ان کی فتوحات پر ڈال لیتے ہیں۔ سلطان محمد فاتح نے 1458 میں موریا 1459 میں سربیا 1461 میں طربزون کا علاقہ فتح کیا جو بازنطینی سلطنت کا بچا کھچا حصہ تھا اور اس فتح کے ساتھ ہی بازنطینی سلطنت بھی اپنے اختتام کو پہنچی اس کے علاوہ انہوں نے یورپی ملک رومانیہ بھی فتح کیا ترک ڈرامہ سیریز سلطان مہمت میں سربیا کی فتح کی جنگ کو بھی دکھایا گیا ہے جس میں سلطان کی بروقت آمد نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا جنگی مناظر کو بھی انتہائی شاندار طریقے سے فلمایا گیا ہے وی ایکس ایف ٹیکنالوجی اور حقیقی سیٹ لگا کر تاریخی جنگی ماحول کی زبردست عکاسی کی گئی ہے ڈرامے میں یورپی ملک رومانیہ بھی 1462 میں سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں تسخیر ہوا

اس عظیم سلطان کی موت کے بارے میں بھی طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہیں عظیم فتوحات سمیٹنے والے سلطان محمد فاتح کی وفات 3 مئی 1481 ء کو ہوئی۔ ان کی وفات کے حوالے سے مختلف روایات ہیں لیکن عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ ان کی وفات قدرتی اسباب سے ہوئی تھی۔ کچھ روایات کے مطابق انہیں زہر دیا گیا۔ وفات کے وقت ان کی عمر 49 برس تھی۔

ترک ڈرامے میں ہمیں سلطان محمد فاتح کا بیٹا با یزید بھی دکھائی دیتا ہے جو بعد میں تاریخ میں بایزید ثانی کے نام سے حکمرانی کرتا رہا بایزید کے ساتھ ان کے بھائی سلطان جم بھی تھے۔ سلطان محمد فاتح کی وفات کے بعد بایزید ثانی نے تخت سنبھالا تو انہیں سخت خانہ جنگی کا سامنا تھا ساتھ ساتھ انہیں بھی تخت کے دعویدار کا سامنا تھا جو کوئی اور نہیں ان کا بھائی سلطان جم تھا۔ بایزید ثانی نے تقریباً 30 سال تک حکومت کی اس تمام عرصے میں وہ جنگوں میں اور اپنے بھائی کے ساتھ تخت کی لڑائی میں الجھے رہے

سلطان محمد فاتح کے بعد کئی عثمانی سلطان آئے اور گئے لیکن جو فتح سلطان محمد کے حصے میں آئی وہ کسی کو نصیب نہ ہو سکی ہاں 1520 سے 1566 تک سلطان سلیمان نے حکومت کی جسے تاریخ میں سلیمان قانونی کے طور پر جانا جاتا ہے اس سلطان کو جسے سلیمان اول بھی کہا جاتا تھا ان کے دورحکومت کو بہترین سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں قانونی معاشرتی ثقافتی اور فوجی اصلاحات کیں جو عثمانی سلطنت کی مضبوطی اور ترقی کے لیے اہم ثابت ہوئیں ان کے دور میں عثمانی سلطنت نے اپنی سرحدوں کو وسیع کیا اور یورپ ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصوں پر حکومت کی

سلطنت عثمانیہ کے روشن چہرے پر بھائیوں کو قتل کرنے کا داغ ایسا داغ ہے جسے سن کر آج بھی لوگ افسردہ ہو جاتے ہیں عثمانی سلطنت سنبھالنے والا سلطان اپنے دور اقتدار کو مستحکم کرنے اور محلاتی سازشوں سے بچنے کے لئے اپنے بھائیوں کوہی مار ڈالتا تھا روایت موجود ہے کہ ایک شہزادے نے اپنے 19 بہن بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتارا محل سے ایک ہی دن 19 جنازے اٹھے تو ہرطرف کہرام مچ گیا بعد میں اس روایت پر عمل بند کر دیا گیا۔ لیکن عثمانی سلطنت کی تاریخ کا یہ ایک خوفناک باب ہے جسے پڑھ کر لوگوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments