بیگم صاحبہ


آج بھی نواب صاحب کے کمرے سے آنے والے بازاری عورت کے قہقہے بیگم صاحبہ کی نماز میں مخل ہو رہے تھے لیکن وہ حسب معمول جائے نماز پر بیٹھی نواب صاحب کے حق میں دعائیں کر رہی تھیں۔

وہ کئی سال سے یہ بازاری آوازیں سن رہی تھیں مگر مجال ہے جو خاندان کے کسی فرد سے نواب صاحب کی رنگین مزاجی اور اپنی مظلومیت کے تذکرے کر کے ہمدردیاں بٹورنے کی کوشش کی ہو۔ خدا خود ہی جانے کہ اس نے کس مٹی سے اس عورت کو بنایا تھا۔ شاید وہ مٹی نہیں ریت سے بنی تھیں ایسی ریت جو نواب صاحب کی ہر بدکرداری کے گندے پانی کو اپنے اندر جذب کر کے ٹھنڈی ہو چکی تھی، نہ کبھی آنکھ سے آنسو چھلکا نہ لبوں سے کوئی گلہ ٹپکا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے تھے کہ ان کی دعائیں ہی نواب صاحب کی بد کرداری اور اللہ کے غضب کے درمیان ڈھال ہیں ورنہ وہ تو کب کے قہر خداوندی کے گرداب میں لپیٹ دیے گئے ہوتے۔

شادی کے وقت نواب صاحب 45 سال کے رنڈوے اور بیگم صاحبہ 18 ٍ، 19 سال کی ایک نو خیز کلی تھیں یہ اس زمانے کی بات ہے جب رشتے طے کرتے ہوئے عمر کی بجائے رتبے کی برابری ملاحظہ کی جاتی تھی لہذا بیگم صاحبہ کے جہاندیدہ والد نے اس شرط پر بیگم ان کا ہاتھ نواب صاحب کو دینے کی حامی بھری کہ اگر انہوں نے بیگم صاحبہ کے ہوتے ہوئے دوسرا نکاح کیا تو نہ صرف ان کی جائیداد کا تقریباً سارا حصہ بیگم صاحبہ کو منتقل ہو جائے گا بلکہ ان کو یہ اختیار بھی ہو گا کہ وہ نواب صاحب کے ساتھ رہیں یا طلاق لے کر علیحدہ ہو جائیں۔ نواب صاحب جوش نوابی میں ان کی ہر شرط قبول کرتے ہوئے بیگم صاحبہ سے مشرف بہ نکاح ہو کر انہیں اپنی حویلی لے آئے۔

’ شادی تو ہو گئی لیکن اگلے پانچ سال تک گھرمیں آبادی نہیں ہوئی۔ بیگم صاحبہ نے اولاد کی خواہش میں مسجدوں‘ درگاہوں اور امام باڑوں کے گلے اپنی دولت سے بھر دیے لیکن پھر بھی گود نہ بھری۔ مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری جہاں کہیں سے خبر ملتی کہ فلاں مسجد کا کنواں سوکھ گیا ہے تو منشی کو نیا کنواں کھدوانے کا حکم دے کر روانہ کرتیں، پھر کہیں سے پکار آتی کہ فلاں امام باڑے یا درگاہ کا فرش اکھڑ گیا ہے تو وہاں پہنچ جاتیں اور آن کی آن میں وہاں عرش سے ٹکر لیتا فرش ڈلوا دیتیں۔ لیکن نواب صاحب ہمت ہار گئے۔ انہیں یقین ہو گیا تھا کہ بیگم صاحبہ بانجھ ہیں۔ ایک دو بار تیسری شادی کا خیال بھی آیا لیکن اقرار نامے پر دستخط کر چکے تھے۔ شادی کرتے تو سڑک پر آ جاتے۔ جب کبھی انہیں تیسری شادی کا خیال آتا تو وہ سیدھے قبرستان جاتے اور بیگم صاحبہ کے مرحوم والد کی قبر پر جا کے انہیں خوب گالیاں بکتے اور شکایت بھی کرتے کہ انہوں نے قانونی گرہوں کے بعد اپنی بانجھ بیٹی ان کے گلے میں لٹکا دی۔

آہستہ آہستہ کمتری کے بہت سے احساس مل جل کے ان کے دماغ میں دھمال چوکڑی مچانے لگے۔ کبھی یہ احساس دھمال لگانے آ جاتا کہ جائیداد کی اصل مالک تو بیگم صاحبہ ہیں تمہارے پاس کیا ہے میاں۔ کبھی بڑھاپے کا سفید ریش احساس بدن کے ایک ایک بال پر خضاب تھوپے اور پاؤں میں گھنگرو باندھے آتا اور تھرکتے تھرکتے چوٹ لگاتے ہوئے کہتا تمہاری کم عمر بیگم کے چہرے پر ایسی سرخی ہے کہ ریاست کی ساری دوشیزاؤں کو خیرات کر دی جائے تو بھی یہ خزانہ کم نہ ہو۔ کبھی تنہائی میں پینے بیٹھتے تو اسی وقت سر پر عمامہ اور پیشانی پر سجدے کا داغ سجائے کمتری کا مارا کوئی بزرگ خیال جام سے برآمد ہوتا اور ان کے دماغ میں صفیں سیدھی کر کے تقریر شروع کر دیتا کہ نماز کی پابندی اللہ کی اس بندی کو اپنی بارگاہ میں اونچا مقام دے چکی ہے اس لئے ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے چہرے کا نور بڑھتا جا رہا ہے۔ جب نشہ اپنی معراج کو پہنچتا تو نواب صاحب کے شل دماغ کی کچھار سے برتری کا ایک ببر شیر دھاڑتے نکلتا جسے آتا دیکھ کر کمتری کے تمام احساس تھرکنا بھول کے اپنی اپنی عزت بچانے ادھر ادھر بھاگ کھڑے ہوتے۔ یہ ببر شیر نواب صاحب کے سامنے بیٹھ کر دست بستہ عرض کرتا۔

”حضور چاہے آپ کی بیگم کم عمر ہوں نسوانی حسن کی انتہا کو پہنچ گئی ہوں عزت اور دولت کی مالک بھی ہوں تب بھی آپ کی برابری نہیں کر سکتی کیوں کہ وہ بانجھ ہیں۔ بانجھ عورت کی کوکھ کو خشک کنویں کے برابر سمجھیں۔ جب کہ آپ کو اللہ پاک نے زرخیزی کی عظیم صفت سے نواز رکھا ہے۔ آپ کی رگوں میں دوڑتا مردانگی کا دریا آج بھی آس پاس کی ساری زمینوں کو سیراب کر رہا ہے“

یہ خیال اپنی لچھے دار باتوں میں انہیں ایسا الجھاتا کہ نواب صاحب اپنی کرسی سے جھومتے جھومتے اٹھتے خالی بستر کو شیر کی پشت سمجھ کر اس پر چڑھ جاتے اور ساری رات بند آنکھوں میں اپنی برتری کا احساس لئے اس شیر کی سواری کرتے رہتے۔

آج صبح انہوں نے ناشتے کی میز پر حسب معمول بیگم صاحبہ کے سامنے ان کی کمزوری کا ذکر کچھ ایسے چنیدہ الفاظ میں کیا کہ جس سے اپنی بات بھی کہہ جائیں اور نوابی شان بھی سلامت رہے لیکن وہ خدا کی نیک بندی ان کے طنز کا ہر تیر مسکرا کے اپنے جگر کے پار کراتی رہتی۔ آخر وہ کر ہی کیا سکتی تھیں بس خاموشی سے سنتی رہی۔ اور جب نواب صاحب اٹھ کے جانے لگے تو وہ بھی ایک کنیز کی طرح اٹھ کھڑی ہوئیں اور صرف اتنا کہا

”اللہ اپنا کرم ضرور کرے گا نواب صاحب آپ نا امید نہ ہوں۔ نا امیدی کفر ہے“

”آپ امید سے ہو جائیں تو میں نا امید ہونا چھوڑ دوں گا۔ آپ کا بانجھ پن مجھے کفر کی موت مارے گا بیگم صاحبہ“

جاتے جاتے وہ بیگم صاحبہ کے سینے میں اپنی زبان کے زہر میں بجھی کٹار اتار کے اپنے باغات کی طرف نکل گئے۔ اور بیگم صاحب سیدھی مصلے پر جا بیٹھیں اور رو رو کر نواب صاحب کے ایمان کی سلامتی کی دعائیں کرنے لگیں

شروع شروع میں تو مہینے میں ایک دو بار لیکن اب تو شام ہوتے ہی حویلی میں عورت کا آنا معمول بن گیا تھا۔ نواب صاحب عورتوں کے لئے کبھی باہر نہیں گئے۔ ان کا خاص ملازم حیدر بخش ہر شام نئی عورت پوچھے بغیر ہی لے آتا تھا۔ وہ اپنی عیاشی کا سامان دو وجوہات سے اپنے گھر منگواتے تھے۔ پہلی وجہ یہ کہ انہیں شام کے بعد باہر نکلنا پسند نہیں تھا اور دوسری یہ کہ وہ بیگم صاحبہ کا احساس دلانا چاہتے تھے کہ ان میں کوئی کمی نہیں۔ کمی ہوتی تو وہ کسی عورت کے قابل نہ ہوتے۔ نواب صاحب کی اپنی کمزور اور بے بس بیگم صاحبہ کے ساتھ یک طرفہ مقابلے بازی جاری رہی۔ لیکن بیگم صاحبہ ان سے شکایت کرنے کی بجائے خدا کی رحمت پر یقین کرتی تھیں۔ ایک طرف بیگم صاحبہ کی دعائیں چل رہی تھیں اور دوسری طرف نواب صاحب کی دوائیں۔ ہوا کچھ یوں کہ بیگم صاحبہ سے مایوس ہو کر نواب وسعت اللہ خاں اپنے باپ دادا کی جاگیر تیرے میرے کو فروخت کر کے اپنی عیاشیوں کو وسعت دینے میں مشغول رہنے لگے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جا گیر گھٹتی او ر صحت گرتی گئی۔ انہیں محسوس ہونے لگا کہ جس دریا کی طغیانیوں پر انہیں ناز تھا اب اس میں وہ شدت نہیں رہی اس سے پہلے کہ اس دریا کے سوتے خشک ہوں غذاؤں کے ساتھ ساتھ ادویات بھی استعمال کرنا ہوں گی۔ لہذا اپنی گرتی صحت کو سنبھالا دینے کے لئے دوسرے شہر سے حکیم عظیم اللہ خان مع اہل و اعیال خصوصی طور پر بلوائے گئے۔ حویلی کے پچھواڑے ایک مکان میں ان کے اہل خانہ کے مستقل قیام کا بندوبست کر دیا گیا اور دوسرے مکان میں حکیم صاحب طب یونانی کی مدد سے نواب صاحب کی حیوانی خواہشات کی تسکین کے لئے خمیرے اور کشتے تیار کرنے پر بٹھا دیے گئے۔

وہ شاید اپنی جائیداد لٹانے کے خیال میں تھے کہ نہ ہو گی نہ بیگم صاحبہ کے ہاتھ لگے گی کبھی کبھی یہ بھی فرماتے کہ اولاد تو ہے نہیں جس کے لئے جائیداد چھوڑوں اس لئے مرنے سے پہلے انشا اللہ کچھ نہیں چھوڑوں گا۔ زندگی دو دن کی ہے مزے میں گزرے تو اچھا ہے۔ اور واقعی ان کی زندگی بہت مزے سے گزر رہی تھی۔ ان کی ہر شام شراب شباب اور ادویات کے سہارے چلنے لگی

دو چار ماہ بعد نواب صاحب نے کشتوں کی افادیت پر ڈھکے چھپے انداز میں شک کا اظہار کیا تو حکیم صاحب کے کان کھڑے ہو گئے۔ انہیں حویلی کے پچھواڑے دیا گیا پانچ کمروں کا وسیع مکان ہاتھ سے نکلتا محسوس ہو نے لگا۔ اس لئے انہوں نے آہستہ آہستہ نواب صاحب کو حیدر بخش سے بدظن کر کے اسے صرف شراب لانے پر مامور کرا دیا اور شباب لانے کی ذمے داری اپنے کندھوں پر لے لی۔ حکیم صاحب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کے کشتے اب نواب صاحب کے ڈھلتے وجود کو ہوشیاری نہیں دے سکیں گے۔ اس لئے ایک طرف انہوں نے نواب صاحب کو مشورہ دیا کہ اگلے دو ماہ تک انہوں نے صرف ایک دوائی اور ایک عورت استعمال کرنی ہے تب ہی تیسرے مہینے میں اس کشتے کے ایسے اثرات سامنے آئیں گے کہ آنے والیاں الحفیظ الامان کا ورد کرتے ہوئے آپ کے کمرے سے نہ نکلیں تو حکمت چھوڑ کے جوتوں کی دکان کھول لوں گا۔ نواب صاحب نے حکیم کے مشورے پر آمین کہی۔ دوسری طرف حکیم صاحب نے اپنے شہر سے ایک ایسی عورت نسیم بانو بلائی جس کے ساتھ ان کی پرانی یاد اللہ تھی۔ بلکہ یوں کہیے کہ دونوں کاروباری شراکت دار تھے۔ حکیم کا کام تو نواب صاحب کو دوائیں دینا تھا اور نسیم کا کام انہیں بستر پر بددعائیں دینا

خدا آپ کو پوچھے نواب صاحب۔ آپ کا خانہ خراب ہو۔ آپ نے تو مار ڈالا مجھے۔

ایسی جھوٹی باتیں سن سن کر نواب صاحب زیر لب مسکراتے اور دل ہی دل میں حکیم عظیم اللہ خان کو دعائیں دیتے۔

بیگم صاحبہ نے بھی اپنا بانجھ ہونا قبول کر لیا تھا اس لئے انہوں نے کبھی ان کے مشاغل پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ حتیٰ کہ ایک شام نسیم کے ساتھ نواب صاحب کی محفل گرم تھی تو برف ختم ہو گئی۔ ”حیدرا حیدرا برف برف“ کی آواز نواب صاحب کا گلا پھاڑ کر نکلی۔ بیگم صاحبہ حیدر بخش سے پہلے ہی برف لے کر پہنچ گئیں

وہ ایک خدمت گزار باندی کی طرح چاندنی کی قاب میں برف لئے نظریں جھکائے کھڑی تھیں۔ نواب صاحب نشے میں بڑبڑائے

” آپ نے کیوں تکلیف کی؟ حیدر بخش لے آتا“ ”
کوئی بات نہیں نواب صاحب اور کچھ چاہیے؟ ”
” آپ کے پاس دینے کو کچھ ہے“

نواب صاحب نے معنی خیز نظروں سے انہیں دیکھا۔ وہ نشے میں بھی طنز کرنا نہ بھولے۔ بیگم صاحبہ نظریں جھکا کر باہر نکل گئیں۔

کچھ دیر بعد حویلی کے سناٹے میں نسیم کی چیخیں گونجنے لگیں حیدر بخش بھاگ کر اندر گیا۔ حکیم عظیم اللہ خان کے کشتے نواب صاحب کے پشتے لگا چکے تھے۔ نسیم سہمی ہوئی ایک کونے میں کھڑی تھی اور نواب صاحب انگریزی کا 8 بنے زمین چاٹ رہے تھے۔ ان پر فالج حملہ آور ہو گیا تھا۔ ادھر نواب صاحب کو ہسپتال لے جایا گیا ادھر عظیم اللہ خان نے اپنی حکمت سمیٹ کر نکل گئے۔ ایک ہفتہ ہسپتال میں رہنے کے بعد ایمبولینس صبح نو بجے کے قریب نواب صاحب کی بجائے ایک زندہ لاش لے کر حویلی کی دہلیز پر رکی۔ حیدر بخش اور دیگر ملازمین نے نواب صاحب کو عزت و احترام کے ساتھ اپنے کمرے میں پہنچایا۔ پہنچایا کیا جا کر پلنگ پر رکھ دیا۔

بیگم صاحبہ نے حکم نکالا کہ کوئی ملازم اب اس کمرے کی طرف نہیں آئے گا۔ وہ اکیلی ہی نواب صاحب کی خدمت کریں گی آخر کیوں نہ کرتیں وہ جیسے بھی تھے ان کے مجازی خدا تھے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک ماہر حجام کی طرح ان کے ٹیڑھے میڑھے چہرے کی شیو بنائی، قادر داد حجام اکثر نواب صاحب کے نرخرے پر کوئی نہ کوئی زخم لگا دیتا تھا لیکن مجال ہے جو بیگم صاحبہ نے انہیں کوئی ہلکا سا گھاؤ بھی لگایا ہو پھر گرم پانی سے انہیں نہلانے کے بعد بوسکی کا وہی جوڑا اور شیروانی پہنائی جو نواب صاحب نے شادی کی رات زیب تن کی تھی اپنی پوری کوشش اور خلوص سے انہوں نے اس فالج زدہ بڈھے میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔ سہ پہر کو بگھی منگوائی گئی اور بیگم صاحبہ ان کو لے کر جاگیر کی سیر پر روانہ ہو گئیں

وہ دیکھئے نواب صاحب گیہوں کٹنے کو تیار ہے۔ اجازت ہو تو کٹوا دیا جائے؟
نواب صاحب دریا بہت چڑھ آیا ہے، خدا خیر کرے اس سال پھر طغیانی نہ آئے،
آپ نے آموں کی فصل دیکھی، بور تو بہت آیا تھا پھل کچھ خاص نہیں ہوا۔

اس طرح کی باتیں کر کے وہ نواب صاحب کا دل بہلانے کی کوشش کر رہی تھیں لیکن بڈھا جواب دینے کے بجائے غوں غاں کی آوازیں نکال کر ماحول میں اداسی بکھیر رہا تھا شام کی سیر سے واپسی ہوئی، ملازمین دوڑ کر آئے نواب صاحب کو بگھی سے اتار اور لے جا کر کمرے میں رکھ آئے۔ اندھیرے سے لڑنے کے لئے حویلی کے طاقوں میں چراغ جلا دیے گئے۔ بیگم صاحبہ کو احساس ہوا کہ نواب صاحب کو شام سے ہی شراب کی طلب ستانے لگتی ہے۔ ان کے اندر کی فرحت گزار باندی جاگ اٹھی

آہستہ سے پوچھا، ”نواب صاحب کچھ چاہیے؟“ نواب صاحب کی آنکھیں اس الماری کی طرف اٹھ گئی جہاں شراب کا ذخیرہ رکھا تھا

بیگم صاحبہ سمجھ گئیں دوڑ کر بوتل اٹھا لائیں، حالانکہ انہیں شراب بنانے کا طریقہ نہیں آتا تھا۔ لیکن نواب صاحب سے پوچھ پوچھ کر اندازوں اور اشاروں سے ایک گلاس بنا ہی دیا۔

اس سے پہلے کہ وہ گلاس نواب صاحب کے ہونٹوں سے لگاتیں، دروازے پر پہلے دستک ہوئی اور پھر حیدر بخش کی آواز آئی۔

” نواب صاحب، اجازت ہے آ جاؤں؟ ’
’ ”آ جاؤ حیدر بخش“ بیگم صاحبہ نے اطمینان سے جواب دیا۔

دروازہ کھلا اور حیدر بخش اندر داخل ہوا، لیکن آج اس کے ساتھ نواب صاحب کے لئے کوئی عورت نہیں بلکہ بیگم صاحبہ کے لئے ایک مرد تھا۔

بڈھے نواب کی آنکھوں پر بھی فالج گر گیا۔

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 23 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments