جب غالب ملے بھگت کبیر سے (دوزخ نامہ سے اقتباس)


۔ میں جھوٹ نہیں بول رہاحضور۔ آپ تو جانتے ہیں جنت اس دنیا سے کتنی دور ہے جہاں پناہ۔ سورج اورچاند کے درمیان جو فاصلہ ہے اس میں سے کروڑوں ہاتھی اور اونٹ گزرسکتے ہیں۔ ہم آنکھ کی پتلی کے نقطے سے انھیں دیکھ سکتے ہیں، اور جہاں پناہ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ آنکھ کی پتلی کا وہ نقطہ سوئی کے ناکے سے بھی چھوٹا ہوتاہے۔

جہاں پناہ دیرتک میری طرف دیکھتے رہے۔ پھر مجھے آزادکردیا۔ آپ بہت کچھ چھپا سکتے ہیں، مرزا صاحب، لیکن جو آنکھیں کہتی ہیں اسے نہیں چھپا سکتے۔ خوشی اور غم میں ہمارے دل ہمیشہ آنکھوں کے ذریعے بات کرتے ہیں۔ وہ ایک حیرت انگیز تالاب بنا لیتی ہیں۔ میں ان کی گہرائی میں دیکھ سکتا ہوں۔ میں آپ کو روز دیکھتا ہوں، مرزاصاحب، اور سوچتا ہوں، رام رحیم کے پاؤں چھونے کے باوجود آپ کو کس قدر غلامی کرنی پڑ رہی ہے۔ آپ زندگی میں کہیں بھی جم کر نہیں بیٹھ پارہے۔

مجھے اس پرہنسی آگئی۔ کبیر جی سے میں نے کہا، ’دنیا میں اگر کوئی سب سے بڑا کافر ہے تو وہ میں ہوں۔ میں رام رحیم کے پاؤں چھونے کے لائق نہیں ہوں۔ ‘

۔ آپ لفظوں کی عبادت کرتے ہیں، مرزاصاحب، اور وہ لفظوں سے جنمے ہیں۔ کیا وہ آپ کو ممکنہ طورپر خودسے دُوررکھ سکتے ہیں؟

۔ لیکن آپ کی جیسی حصولِ مقصد کی لگن تو میری زندگی میں نہیں ہے۔

۔ حصولِ مقصد کی لگن کیا اتنی سہل ہے، میاں؟ مجھ میں اس کی قابلیت نہیں۔ یہ جس پوشاک کو مالکِ حقیقی نے دس مہینوں میں بُنا ہے، میں تو محض اس کی دیکھ ریکھ کرتا ہوں کہ کہیں یہ میلی نہ ہوجائے۔ یہ پوشاک ایک دن اس کے حقیقی مالک کو لوٹانی ہوگی۔ کیا کوئی میلی پوشاک لوٹاتا ہے؟

۔ میں اسے میلی پوشاک کے سِوا اور کچھ نہیں لوٹا سکتا، کبیرجی۔

۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ ایسا نہیں کرسکتے، مرزاصاحب۔ جب وقت آئے گا وہ آپ سے خودہی اس پوشاک کو صاف کروا لے گا۔ چلیے میں آپ کو کبیرداس کا گیت سنا تا ہوں :

صاحب ہے رنگریز چُنرمیری رنگ ڈاری

سیاہی رنگ چھڑائیکے رنگ دیو مجیٹھا رنگ

دھوئے سے چھوٹے نہیں رے دن دن ہوت سو رنگ

بھاؤ کے کُنڈ نیہہ کے جل میں پریم رنگ دئی بور

دکھ دئی میل چھٹائے دے رے خوب رنگی جھک جھور

صاحب نے چنری رنگی رے پیتم چتر سجان

سب کچھ ان پر واردوں رے تن من دھن اورپران

کہیں کبیر رنگریزپیارے مجھ پر ہوئے دیال

شیتل چنری اوڑھ کے رے بھئی ہوں مگن نہال

میاں، دنیا کے اس تالاب میں محبت کے پانی سے، پیار کے رنگ میں، وہی آپ کی پوشاک رنگ دے گا۔ اسی نے یہ دی ہے اور وہی اسے واپس لے لے گا، لیکن تب تک نہیں جب تک وہ اسے جذبات اور احساسات اور خوبصورتیوں سے رنگ نہیں دیتا۔ تمھاری کیا مجال کہ تم اس کے ہاتھوں میں میلی پوشاک تھماؤ۔ اب گھر لوٹ جائیے، میاں۔ سویرا ہونے والا ہے، اور آپ کو تو آگے سفر بھی جاری رکھنا ہے۔

۔ کیا آپ گھر نہ جائیں گے؟

۔ جب تک گنگا میّا کو بھیروی نہ سنا لوں، تب تک نہیں۔

۔ میں کہیں نہیں جانا چاہتا، کبیرجی، میں یہیں کاشی میں رہوں گا۔ مجھے یہ بھاگ دوڑ پسند نہیں ہے۔

کبیر جی، سرہلانے لگے۔ ’نہیں، نہیں میاں۔ یہ بات ٹھیک نہیں۔ جیون نے جو راہ آپ کے آگے کھولی ہے، اس پر تو آپ کو چلنا ہی ہوگا۔ پھر چاہے اس راہ میں کتنی ہی مشکلیں آئیں، ذلّت اٹھانی پڑے لیکن آپ اس راہ سے مکر نہیں سکتے، جو اس مالک نے آپ کے لیے قائم کردی ہے۔ اگر آپ ہی اپنی راہ پر نہیں چلیں گے تو کون چلے گا؟ ‘

۔ کیا میں کلکتہ جاکر وہ پاسکوں گا جو پانا چاہتا ہوں؟

۔ ہوسکتا ہے وہ نہ پا سکیں جو پانا چاہتے ہیں، لیکن اور ایسا بہت کچھ پالیں گے جو شاہجہاں آباد آپ کو نہیں دے سکتا، جوکاشی آپ کو نہیں دے سکتا۔ سنیے میاں، مرنے سے پہلے میں کاشی چھوڑ کر مگھر چلاگیا تھا۔ جب لوگوں نے میرے مگھر جانے کا سنا تو بولے کاشی جیسا پاک مقام چھوڑ کر آپ مگھر کیوں جانا چاہتے ہیں؟ اگر آپ وہاں مرے تو اگلے جنم میں آپ کو گدھا بن کر پیدا ہونا ہوگا۔ تو پھر ایسا ہی ہوگا۔ اگر مالک چاہتا ہے کہ میں دوبارہ ایک گدھے کی صورت میں جنم لوں تو ایسا ہی ہوگا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments