کائنات: خلا میں سیاحت (1)


”صرف یہ کائنات ہی ہے، یہی ہمیشہ سے تھی، یا ہمیشہ رہے گی۔ میرے ساتھ آئیے۔“

ایک نسل پہلے ماہر فلکیات کارل سیگن یہاں کھڑے تھے اور انہوں نے ہم کروڑوں انسانوں کو کائنات کی سائنسی دریافت کے لیے ایک عظیم مہم پر بھیجا تھا۔

اب وقت ہے کہ دوبارہ چلا جائے۔

ہم اس سفر کو شروع کرنے والے ہیں جو ہمیں ذرہ سے لامحدود اور وقت کے شروعات سے دور افتادہ مستقبل تک لے کر جائے۔ ہم کہکشاؤں، سورجوں اور دنیاؤں کو دریافت کریں گے، کشش ثقل کی لہروں اور خلا کے وقت پر سفر کریں گے، اور آگ اور برف میں رہنے والے وجودوں کا سامنا کریں گے، کبھی نا مرنے والے ستاروں کے سیاروں کو دریافت کریں گے، ہم ایسے ایٹم دریافت کریں گے جو سورجوں جتنے بڑے ہیں اور ایسی کائناتیں جو ایٹم سے بھی چھوٹی ہیں۔

کائنات ہمارے بارے میں بھی ایک کہانی ہے۔ یہ ایک داستان ہے کہ کیسے بھٹکتے شکاریوں کے گروہوں نے ستاروں کے راستے ڈھونڈ لیے، ایک مہم اور کئی ہیرو۔

اس مہم پر جانے کے لیے ہمیں تصور کی ضرورت ہوگی۔ لیکن صرف تصور کافی نہیں ہو گا، کیونکہ فطرت کی حقیقت ہمارے تصور سے کہیں زیادہ حیران کن ہے۔ کئی نسلوں کے دریافت کرنے والوں کی مدد سے اس مہم کو ممکن بنایا گیا ہے جو سختی سے سادہ قواعد کے پابند تھے : اپنے تصورات کی تجربی اور مشاہداتی جانچ، ان تصورات کو اپنانا جو ان قواعد پر پورے اتریں، اور ان کو مسترد کرنا جو اس امتحان پر پورے نا اتر سکیں۔ ثبوت کو ماننا چاہے، وہ جہاں بھی لے جائے اور ہر شے کے بارے میں سوال اٹھانا۔ ان شرائط کو مانیے اور کائنات آپ کی ہے۔ اب میرے ساتھ آئیے۔

اس تصور کے جہاز میں، زماں اور مکاں کی بیڑیوں سے آزاد، ہم ہر جگہ جا سکتے ہیں۔ اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہم خلاء میں کہاں ہیں تو سامنے والی کھڑکی سے باہر دیکھیے۔ اس احاطۂ وقت میں ماضی ہمارے نیچے ہے۔ 250 ملین سال پہلے زمین ایسی دکھائی دیتی تھی۔ اگر آپ مستقبل دیکھنا چاہتے ہیں تو اوپر دیکھیے۔ اور 250 ملین سال بعد یہ ایسی دکھائی دے گی۔ اگر ہم کائنات کے دور دراز حصوں تک سفر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے کائناتی پتہ کی ضرورت ہوگی، اور یہ پہلی لائن ہے ہمارے پتہ کی۔

ہم زمین چھوڑ رہے ہیں، اکلوتا گھر جسے ہم جانتے ہیں، کائنات کے دوردراز ممکنات کے لیے۔

ہمارا قریب ترین پڑوسی، چاند، جس کا کوئی آسمان نہیں، سمندر نہیں، زندگی نہیں، صرف وہ داغ ہیں جو کائناتی حادثوں کی دین ہیں۔ ہمارا ستارہ (سورج) ہواؤں اور لہروں کو توانائی دیتا ہے اور ہر اس زندگی کو جو سطح زمین پر پائی جاتی ہے۔ سورج نظام شمسی کی تمام دنیاؤں کو اپنی کشش کی آغوش میں رکھتا ہے۔ عطارد (Mercury) سے لے کر بادلوں سے چھپے زہرہ (Venus) تک، جہاں فرار ہو جانے والے گرین ہاؤس ایفیکٹ نے اسے جہنم جیسا بنا دیا ہے۔ مریخ (Mars) ، ایک دنیا، تقریباً ہماری زمین کے برابر۔ مریخ اور مشتری (Jupiter) کے درمیانی مدار میں چٹانی آسٹرائیڈ بیلٹ (belt of asteroids) ہے جو سورج کے گرد گھومتا ہے۔ اپنے چار دیوقامت اور درجنوں چھوٹے چاندوں کے ساتھ جو مشتری ایک چھوٹے نظام شمسی کی طرح ہے۔ اس کی کمیت (mass) تمام سیاروں کی کمیت جمع کرنے کے بعد بھی سب سے زیادہ ہے۔ مشتری کا عظیم لال دھبہ (Great Red Spot) ایک طوفان، ہماری زمین کے حجم سے تین گنا بڑا، صدیوں سے اپنی جولانی پر ہے۔ ہمارے نظام شمسی کے تاج کا ہیرا، زحل (Saturn) ، جس کے مدار میں لڑھکتے ہوئے ان گنت برف کے گولے محو سفر رہتے ہیں۔ ہر برفانی گولا ایک چھوٹا چاند ہے۔ یورینس اور نیپچون، بالکل باہر کے سیارے، قدیم لوگوں کے لیے نامعلوم، جنہیں صرف ٹیلی سکوپ کی ایجاد کے بعد دریافت کیا جا سکا ہے۔ ان سیاروں سے آگے لاکھوں جمی ہوئی دنیاؤں کے جمگھٹ ہیں اور پلوٹو ان میں سے ایک ہے۔

ہماری تمام خلائی مشینوں میں، ہمارے گھر سے اب تک کی دوردراز جانے والی مشین وائجر ون (Voyager 1 ) ہے۔ اس میں آج سے اربوں سال بعد کے لیے ایک پیغام ہے، کہ ہم کون ہیں، ہم کیسا محسوس کرتے ہیں اور ہم نے کیسی موسیقی تخلیق کی ہے۔

اس عظیم کائناتی عمیق بحر بے کراں میں ان گنت دنیائیں ابھی آگے آنا باقی ہیں۔ یہاں سے ہمارا سورج بس ایک ستارہ ہی دکھائی دیتا ہے لیکن یہاں بھی اس کی کشش کی گرفت کھربوں منجمند شہاب ثاقبوں پر ہے جو پانچ بلین سال پہلے نظام شمسی کی تشکیل کے بعد بچ گئے تھے۔ انہیں اورٹ بادل (Oort Cloud) کہا جاتا ہے۔ انہیں پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا اور نا ہی دیکھ سکتے تھے کیونکہ یہ چھوٹی چھوٹی دنیائیں ایک دوسرے سے اتنے ہی فاصلے پر ہیں جیسے زمین سے زحل۔ اس دیو قامت شہاب ثاقبوں کے بادل نے اس پورے نظام شمسی کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ یہ ہمارے کائناتی پتہ کی دوسری لائن ہے۔

ہم دوسرے ستاروں کے سیاروں کو دیکھنے کے قابل چند دہائیوں میں ہی ہو پائے ہیں، لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ سیارے ستاروں سے بہت زیادہ ہیں۔ تقریباً سب ہی زمین سے بہت مختلف ہوں گے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ زندگی کے لیے بہت متشدد۔ لیکن ہم زندگی کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ ابھی تک ہمارا سابقہ صرف ایک قسم کی زندگی سے پڑا ہے۔ زمین کی زندگی۔

neil cosmos

کچھ دیکھا؟ صرف خلاء، صحیح؟ انسانی آنکھ صرف کائنات میں چمکنے والی روشنی کی چاندی ہی دیکھ سکتی ہے۔ لیکن سائنس ہمیں وہ دکھا سکتی ہے جو ہمیں ہماری حسیات نہیں دکھا سکتیں۔ انفرا ریڈ روشنی کی وہ قسم ہے جو رات کی تاریکی میں دیکھنے والے چشمے سے نظر آتی ہے۔ انفرا ریڈ سینسر کو تاریکی کے اس پار ڈالیے۔ روگ سیارہ (Rogue planet) ۔ سورج کے بغیر دنیا۔ ہماری کہکشاں میں یہ اربوں کی تعداد میں ہیں جو نامختتم تاریکی میں بھٹک رہے ہیں۔ یہ وہ یتیم ہیں جنہیں ان کی ماں ستارے سے اس وقت چھین لیا گیا تھا جب ان کے مقامی ستاروں کے نظام کی بے ترتیب پیدائش ہو رہی تھی۔ روگ سیارے اپنے مرکزہ میں پگھلے ہوئے اور اپنی سطح پر جمی ہوئی حالت ہیں ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان دو انتہاؤں کے درمیان پانی کے سمندر ہوں۔ کون جانتا ہے کہ وہاں کیا تیر رہا ہے؟ انفرا ریڈ سے کہکشاں ایسی ہی دکھتی ہے۔ ہر معمولی نقطہ، چاہے چمکتا نا بھی ہو، ایک ستارہ ہے۔ کتنے ستارے ہیں؟ کتنی دنیائیں ہیں؟ وہ دمدار بازوں نظر آ رہا ہے؟ وہاں ہم رہتے ہیں، مرکز سے 30، 000 نوری سال دور۔ ستاروں کی کہکشاں (The Milky Way Galaxy) ہمارے کائناتی پتہ کی اگلی لائن ہے۔

اب ہم اپنے گھر سے سینکڑوں ہزاروں نوری سال دور ہیں۔ روشنی جو رفتار میں سب سے زیادہ ہے، وہ سینکڑوں ہزاروں سالوں میں زمین سے ہم تک پہنچے گی۔ یہ اینڈرومیڈا (Andromeda) میں عظیم مرغولہ (Great Spiral) ہے۔ ہماری پڑوسی کہکشاں۔ ہم ان دو عظیم الجثہ اور چھوٹی چھوٹی کئی کہکشاؤں کو مقامی گروپ (local group) کہتے ہیں۔ یہاں سے ہمیں اپنی کہکشاں جو ہمارا گھر ہے، نظر نہیں آ سکتی۔ یہ سب ورگو سوپر کلسٹر (Virgo Supercluster) کے ہزاروں میں سے صرف ایک ہے۔ اس پیمانے پر جو چیز ہمیں نظر آتی ہے، یہاں تک کہ معمولی نقطے بھی، وہ سب کہکشائیں ہیں۔ ہر کہکشاں میں اربوں سورج اور ان گنت دنیائیں ہیں۔ لیکن پھر بھی، یہ ورگو سوپر کلسٹر ہماری پوری کائنات کا ایک بہت ہی چھوٹا اور معمولی حصہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس عظیم پیمانے پر کائنات میں سینکڑوں اربوں کہکشاؤں کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ ابھی تک کے لیے یہی ہمارے کائناتی پتہ کی آخری لائن ہے۔

قابل مشاہدہ کائنات؟! اس کا کیا مطلب ہے؟ یہاں تک کہ ہمارے لیے اس تصور کے جہاز میں بھی ایک حد ہے کہ ہم اس خلاء کے وقت میں کہاں تک دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ہمارا کائناتی افق ہے۔ اس افق کے پار کائنات کا وہ حصہ ہے جو بہت ہی دور ہے۔ 13 عشاریہ 8 بلین سالوں کی تاریخ میں اتنا کافی وقت نہیں تھا کہ کائنات کی روشنی ہم تک پہنچ سکتی۔ ہم میں سے بہت سے لوگ یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ تمام دنیائیں، ستارے، کہکشائیں اور کلسٹر جو ہماری قابل مشاہدہ کائنات میں ہیں، وہ دوسری کائناتوں کے لامحدود سمندروں میں بس ایک بلبلے کی مانند ہی ہیں، ملٹی ورس (multiverse) ۔ کائنات کے اوپر کائنات۔ نا مختتم دنیائیں۔ کچھ چھوٹا محسوس ہو رہا ہے؟ اچھا، تو کائناتی تناظر میں ہم چھوٹے ہیں۔

ہم وہ چھوٹے لوگ ہیں جو ایک مٹی کے ذرے پر زندہ ہیں جو ایک حیرتناک بے پایانی میں تیر رہے ہیں، لیکن ہم سوچتے چھوٹا نہیں۔ یہ کائناتی تناظر نسبتاً نیا ہے۔ صرف چار صدیاں پہلے تک، ہماری چھوٹی سی دنیا باقی کی کائنات سے بیگانہ تھی۔ کوئی ٹیلی سکوپ نہیں تھا۔ کائنات وہی تھی جو ننگی آنکھ سے نظر آ سکتی تھی۔ 1599 میں سب جانتے تھے کہ سورج، سیارے اور ستارے صرف روشنیاں ہیں جو زمین کے گرد طواف کرتی ہیں اور یہ کہ ہم چھوٹی سی کائنات کا مرکز ہیں، کائنات جو ہمارے لیے بنائی گئی ہے۔

پورے سیارے پر صرف ایک شخص تھا جس نے ایک لامحدود عظیم کائنات کا تصور کیا۔ اور کس طرح وہ 1600 میں نئے سال کی آمد کی رات منا رہا تھا؟ ایک قید خانے میں، ظاہر ہے۔ ہماری زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہم کائنات کا مرکز نہیں ہیں، اور یہ کہ ہمارا تعلق اپنے سے کسی بہت عظیم چیز سے ہے۔ یہ پھلنے پھولنے کا عمل ہے۔ اور جیسے یہ ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے، اسی طرح یہ سولہویں صدی میں ہماری تہذیب کے ساتھ ہوا۔

ٹیلی سکوپ سے پہلے کی دنیا کا تصور کیجیے، جب دنیا صرف وہی تھی جسے آپ ننگی آنکھ سے دیکھ سکتے تھے۔ یہ ظاہر تھا کہ زمین بے حرکت ہے، اور یہ کہ آسمانوں میں ہر شے، سورج، چاند، ستارے، سیارے، سب ہمارے گرد گھومتے ہیں اور پھر ایک پولش ماہر فلکیات اور پادری کوپرنیکس (Copernicus) نے ایک انقلابی تجویز رکھ دی۔ زمین مرکز نہیں ہے۔ یہ صرف سیاروں میں سے ایک ہے، اور انہیں کی طرح سورج کے گرد گھومتی ہے۔ بہت سے جیسے پروٹسٹنٹ مصلح مارٹن لوتھر نے اس تصور کو کتاب مقدس کی توہین تصور کیا۔ وہ دہشت زدہ ہو گئے۔ لیکن کوپرنیکس کے لیے وہ اتنا آگے نہیں گئے۔

اس کا نام جیوڈانو برونو (Giordano Bruno) تھا، اور وہ ایک پیدائشی باغی تھا۔ وہ اس چھوٹی سی محدود کائنات سے باہر نکلنا چاہتا تھا۔ نیپلز میں ایک نوجوان ڈومینیکن راہب کے طور پر بھی وہ نامناسب تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اٹلی میں سوچ کی آزادی نہیں تھی۔ لیکن برونو خدا کی تخلیق کے بارے میں سب جاننا چاہتا تھا۔ اس نے وہ کتابیں بھی پڑھنے کی ہمت کی جو کلیسا نے ممنوع کر رکھی تھیں اور یہ، اس نے بہت برا کیا۔ ان کتابوں میں سے ایک میں، ایک قدیم رومی، 1500 سال پہلے مرا ہوا، کائنات کے عظیم ہونے کے بارے میں سرگوشی کر گیا۔ اتنا ہی لامتناہی جتنا کہ اس کا خدا۔

لوکریٹیس (Lucretius) اپنے قاری سے کہتا ہے کہ کائنات کے کنارے پر کھڑے ہو کر ایک تیر دوسری طرف داغنے کا تصور کرو۔ اگر تیر چلتا چلا جائے، تو ظاہر ہے، کائنات اس سے بہت آگے تک ہے جسے تم کنارہ سمجھ رہے تھے۔ لیکن اگر تیر آگے نہیں جاتا اور کسی دیوار سے ٹکرا جاتا ہے تو وہ دیوار بھی کائنات کے اس کنارے سے پرے ہی ہے۔ اب اگر تم اس دیوار پر کھڑے ہو کر دوسرا تیر داغو تو اس کے کے بھی دو ہی متوقع نتائج ہوں گے۔ یا تو تیر خلاء میں ہمیشہ اڑتا رہے گا یا وہ کسی حد سے ٹکرا جائے گا، جہاں سے کھڑے ہو کر تم دوبارہ تیر چلاؤ۔ دونوں حالتوں میں کائنات کی کوئی حد نہیں۔ کائنات کو لامحدود ہونا چاہیے۔ یہ بات برونو کو سمجھ میں آ گئی۔ وہ جس خدا کی عبادت کرتا ہے، وہ لامحدود ہے۔ تو اس طرح، اس نے سوچا، کیا تخلیق اس سے کم ہو سکتی ہے؟ یہ آخری مستقل نوکری تھی جو برونو نے کی۔ پھر، جب وہ تیس سال کا تھا، اس نے کچھ دیکھا، جس نے اس کی قسمت کا فیصلہ کر دیا۔ اپنے خواب میں، وہ ایک ایسی دنیا میں جاگا جو ستاروں سے بھرے ہوئے ایک برتن میں قید تھی۔

یہ برونو کے وقت میں کائنات تھی۔ اسے ایک بیمار کردینے والے خوف کا احساس ہوا جیسے اس کے پیروں تلے ہر شے ٹوٹ رہی ہے۔ لیکن اس نے ہمت کا دامن تھاما۔

”میں خلاء میں اپنے پراعتماد پر پھیلاتا ہوں اور لامحدود کی طرف اٹھتا ہوں، سب اپنے پیچھے چھوڑ دیتا ہوں جسے دوسروں کو دیکھنے میں تکلیف ہوتی ہے۔ یہاں، جہاں کوئی اوپر نہیں، نیچے نہیں، کنارہ نہیں، مرکز نہیں۔ میں نے دیکھا کہ سورج صرف ایک ستارہ ہے اور ستارے دوسروں کے سورج ہیں، ہر ایک کہ ساتھ اس کی زمینیں ہیں، جیسے ہماری اپنی۔ یہ لامحدودیت کی آگہی محبت ہو جانے جیسی ہے“

برونو ایک گشت کرنے والا مبلغ بن گیا، یورپ میں لامحدودیت کی انجیل کا پرچارک۔ وہ سمجھا کہ دوسرے خدا کے عشاق بھی اس جلالیت اور تخلیق کے شاندار تصور کو فطری طور پر گلے لگائیں گے۔ کتنا بیوقوف تھا وہ۔ رومن کیتھولک چرچ نے اٹلی سے، کیلونیسٹس نے سوئٹزر لینڈ سے اور لوتھرینز نے جرمنی سے اسے ملک بدر کریا۔ برونو آکسفورڈ کی طرف سے لیکچر کی دعوت پر لپکا۔ بالآخر، اس نے سوچا، موقع ہے اپنے ہم پلہ سامعین سے اپنا تصور بانٹنے کا۔

”میں آپ کے سامنے کائنات کا ایک نیا تصور پیش کرنے آیا ہوں۔ کوپرنیکس حق بجانب تھا یہ کہنے میں کہ دنیا کائنات کا مرکز نہیں ہے۔ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ یہ سیارہ ہے، جیسے کہ دوسرے۔ لیکن کوپرنیکس صرف فجر تھا۔ میں آپ کے پاس چمکتا سورج لایا ہوں۔ ستارے جلتے ہوئے سورج ہیں، ان کی بھی پانی سے بھری ہوئی زمینیں ہیں اسی مادے سے بنی ہوئی جیسے زمین، پودوں اور جانوروں سے بھری ہوئی، جو ہماری زمین سے کم نہیں۔“

کیا تم دیوانے ہو یا صرف جاہل؟ ہر ایک جانتا ہے کہ دنیا صرف ایک ہے۔

”جو سب جانتے ہیں وہ غلط ہے۔ ہمارے لامحدود خدا نے لامحدود کائنات تخلیق کی ہے جس میں لامحدود دنیائیں ہیں۔“

تم جہاں سے آئے ہو کیا وہاں کے لوگ ارسطو کو نہیں پڑھتے او یہاں تک کہ انجیل کو بھی۔

”میں التجا کرتا ہوں ؛ آثار، روایات، عقیدے اور اختیار کو رد کر دیں۔ نئے سرے سے شروع کیجیے، ہر اس چیز پر سوال اٹھائیں جو صحیح اور ثابت مان لی گئی ہے۔“

ملحد! کافر!
”آپ کا خدا بہت چھوٹا ہے۔“

دانش مند آدمی کو اپنا سبق سیکھ لینا چاہیے۔ لیکن برونو ایسا آدمی نہیں تھا۔ وہ اپنے پر پھیلائے کائناتی تصور کو اپنے تک نہیں رکھ سکا، حالانکہ یہ حقیقت تھی کہ یہ کرنے کا نتیجہ اس کی دنیا میں بہت ہی خوفناک، ظالمانہ اور غیر رسمی سزائیں تھیں۔ جیوڈانو برونو کے وقت میں کلیسا اور ریاست کی علیحدگی نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور یہ کہ اظہار کی آزادی ایک فرد کا مقدس حق ہے۔ ایسے خیال کا اظہار جو روایتی عقائد کے مطابق نا ہو، وہ آپ کو مشکل میں پھنسا سکتا ہے۔ برونو لاپرواہی سے اٹلی واپس چلا گیا۔ شاید اسے گھر کی یاد ستانے لگی تھی۔ لیکن پھر بھی اسے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اس کا وطن کسی کے جانے کے لیے یورپ کی سب سے خطرناک جگہ تھی۔

رومن کیتھولک چرچ نے تفتیشی (Inquisition) عدالتوں کا نظام رائج کر رکھا تھا اور اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ جو بھی مختلف آواز اٹھانے کی ہمت کرے، اس پر تحقیق اور سزا دی جائے۔ زیادہ دیر نہیں گزری کہ برونو سوچ پر پہرہ دینے والی پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ یہ بنجارہ، لامحدود کائنات کی پوجا کرنے والا، آٹھ سال کی قید پر مجبور ہوا۔ بے صبری تفتیش کے جواب میں وہ اپنے خیالات سے پیچھے نہ ہٹنے کی ضد پر اڑا رہا۔

چرچ برونو کو تکلیف دینے کے لیے کسی بھی حد پر کیوں جانا چاہتا تھا؟ وہ کس چیز سے ڈرتے تھے؟ اگر برونو صحیح تھا تو مقدس کتاب اور چرچ کے اختیار پر سوال اٹھنے لگیں گے۔ بالآخر تفتیشی پادریوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

تم پر مقدس تثلیث اور یسوع مسیح کی الوہیت پر سوال اٹھانے کا جرم ثابت ہے۔
یہ یقین کرنا کہ خدا کا عذاب ہمیشہ رہنے والا نہیں اور ہر ایک کو بچایا جاسکتا ہے۔
دوسری دنیاؤں کے وجود کا اثبات۔
تمہاری تمام تحریر کردہ کتب کو جمع کر کے سینٹ پیٹرز سکوئر میں نذر آتش کر دیا جائے گا۔

”عزت مآب فادر، آٹھ سالوں کی قید نے مجھے سوچنے کے لیے بہت وقت دیا۔ کیا آپ انکار کر سکتے ہیں؟ میرے خالق کے لیے میری محبت اور عقیدت نے میرے اندر ایک لا محدود خالق کا تصور پیدا کیا۔ آپ کو روم کے گورنر سے رجوع کرنا چاہیے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ جو معافی نہیں مانگتے، ان کے لیے صحیح سزا کیا ہونی چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ اس فیصلے کو سناتے ہوئے زیادہ ڈر رہے جتنا کہ میں اسے سنتے ہوئے۔“

برونو کی شہادت کے دس سال بعد ، گیلیلیو نے پہلے بار ٹیلی سکوپ سے دیکھا، جانا کہ برونو بالکل صحیح تھا۔ ستاروں کی کہکشاں ان گنت ستاروں سے مل کر بنی ہے جو آنکھ سے ناقابل مشاہدہ ہیں اور آسمان میں کچھ روشنیاں تو اصل میں دوسری دنیائیں ہیں۔ برونو سائنس دان نہیں تھا۔ اس کا کائناتی تصور اس کا اندازہ تھا کیونکہ اس کے پاس اس کے لیے کوئی ثبوت نہیں تھا۔ جیسے اندازوں کے ساتھ ہوتا ہے، وہ غلط ثابت ہو سکتے ہیں۔ مگر جب ایک نظریہ ہوا میں ہو، تو وہ دوسروں کا نشانہ ہو سکتا ہے، اسے رد کرنے کے لیے۔ برونو نے خلاء کے پھیلاؤ کا اندازہ لگایا۔ لیکن اسے وقت کی حیرت ناک بے پایانی کا ذرا سا بھی اندازہ نہیں تھا۔

ہم انسان، جو کبھی کبھی ہی ایک صدی سے زیادہ زندہ رہ پاتے ہیں، کیسے امید کر سکتے ہیں کہ وقت کے اتنے بڑے دورانیے کو سمجھ جائیں جسے کائنات کی تاریخ کہا جاتا ہے؟ یہ کائنات 13.8000 ملین سال پرانی ہے۔ اس کائناتی وقت کو سمجھنے کے لیے، اسے ایک سال کے کیلنڈر میں سموتے ہیں۔

یہ کائناتی کیلنڈر پہلی جنوری سے شروع ہوتا ہے، کائنات کی پیدائش کے ساتھ۔ اس میں تب سے اب تک سب شامل ہے۔ جو کہ 31 دسمبر کی آدھی رات ہے۔

اس پیمانے پر، ہر مہینہ ایک بلین سال کا ہے۔
ہر دن تقریباً 40 ملین سال ظاہر کرتا ہے۔

چلیے جتنا پیچھے جا سکتے ہیں، چلتے ہیں، کائنات کے پہلے لمحے میں۔ جنوری 01، بگ بینگ۔ ابھی تک ہم وقت میں اتنا پیچھے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ہماری پوری کائنات ایک ایٹم سے چھوٹے نقطے سے ظہور پذیر ہوئی۔ خلاء خود کائناتی آگ میں پھٹ پڑی اور کائنات کا پھیلاؤ ظہور پذیر ہوا جس سے وہ توانائی اور مادہ پیدا ہوا جسے آج ہم جانتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ دیوانگی لگتی ہے مگر نظریہ بگ بینگ کے حق میں بہت مضبوط مشاہداتی ثبوت موجود ہیں۔ اور ان میں کائنات میں بڑی مقدار میں ہیلیم اور دھماکے کے نتیجے میں ریڈیو ویوز کی باقیات کی چمک شامل ہے۔

جب کائنات پھیلی تو یہ ٹھنڈی ہونے لگی اور تقریباً 200 ملین سالوں تک تاریکی رہی۔ کشش ثقل گیسوں کے انبار کو قریب لا رہی تھی اور حدت پہنچا رہی تھی، یہاں تک کہ 10 جنوری کو پہلے ستارے سے روشنی پھوٹی۔ 13 جنوری کو یہ ستارے گروہ پذیر ہوئے اور پہلی چھوٹی کہکشاں وجود میں آئی۔ یہ کہکشائیں ایک دوسرے میں ملتی چلی گئیں، بڑی کہکشائیں بنانے کے لیے جس میں ہماری ملکی وے بھی شامل ہے، 11 بلین سال پہلے۔ یہ وقوعہ کائناتی سال میں 15 مارچ کو ہوا۔

سینکڑوں اربوں سورج۔ ہمارا کون سا ہے؟ وہ ابھی پیدا نہیں ہوا۔ وہ دوسرے ستاروں کی خاک سے ابھرے گا۔

وہ روشنیاں دیکھیں جو پاپارازی کی طرح چمک رہی ہیں؟ ان میں سے ہر ایک سوپر نووا (supernova) ہے، ایک دیوقامت ستارے کی دہکتی ہوئی موت ہے۔ اس کائناتی نرسری میں ستارے مرتے ہیں اور پیدا ہوتے ہیں۔ وہ دیوقامت گیس اور گرد کے بادلوں میں بارش کے قطروں کی طرح جم جاتے ہیں۔ وہ اتنے گرم ہو جاتے ہیں کہ ایٹم کے نیوکلائے اپنے ہی اندر پھٹ کر وہ آکسیجن پیدا کرتے ہیں جس سے ہم سانس لیتے ہیں، ہمارے پٹھوں کے لیے کاربن، ہڈیوں کے لیے کیلشیم، ہمارے خون میں آئرن، یہ سب دور افتادہ غائب ہونے والے ستاروں کے دہکتے دلوں میں پکایا گیا تھا۔ آپ، میں، ہر ایک، ہم سب ستاروں کے مادے سے بنے ہیں۔ اس ستاروں کے مادے کی ستاروں کی آنے والی نسلوں میں بار بار استعمال اور افزودگی ہوتی رہی ہے۔

ابھی ہمارے سورج کے پیدا ہونے میں کتنا وقت ہے؟ بہت طویل وقت۔ اگلے 6 بلین سالوں تک وہ چمکنا شروع نہیں کر سکے گا۔ ہمارے سورج کی پیدائش کائناتی کیلنڈر میں 31 اگست کو ہوئی۔ آج سے ساڑھے چار بلین سال پہلے۔ ہمارے نظام شمسی کی دوسری دنیاؤں کی طرح زمین گیس اور گرد کی ڈسک سے وجود میں آئی جو نوزائیدہ سورج کے گرد گھومتی تھی۔ مستقل ٹکراؤں نے گرد کی بڑی گیند پیدا کردی۔ زمین کو اپنے پہلے بلین سالوں میں بہت تکلیف سہنی پڑی۔ گھومتے ہوئے ملبے کے ذرات ٹکراتے رہے، ایک ساتھ جمع ہوتے رہے اور برف کے گولوں میں ڈھل کر ہمارے چاند کی شکل اختیار کر گئے۔ چاند اس پرتشدد دور کا تحفہ ہے۔ اگر آپ اس وقت کی زمین کی سطح پر کھڑے ہوتے تو چاند ایک سو گنا چمکدار نظر آتا۔ وہ دس گنا زیادہ قریب تھا، کشش کے گھیرے میں زیادہ گندھا ہوا۔ جیسے جیسے زمین ٹھنڈی ہونے لگی، سمندروں کی پیدائش ہونے لگے۔ اس وقت لہریں ہزار گنا اونچی ہوتی تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ زمین میں لہروں کی رگڑ نے چاند کو دور دھکیل دیا۔

ہماری چھوٹی سی دنیا میں ساڑھے تین بلین سال پہلے 21 ستمبر کے آس پاس زندگی کا ظہور ہوا۔ ہمیں ہنوز نہیں معلوم کے زندگی کی شروعات کیسے ہوئی۔ جتنا ہم جان سکے ہیں، شاید وہ ملکی وے کے کسی دوسرے حصے سے آئی ہے۔ زندگی کا ظہور سائنس کے عظیم غیر حل شدہ اسرار میں سے ایک ہے۔ زندگی پکنے لگی۔ اس انتہائی پیچیدہ سرگرمی کے لیے بایو کیمیکل طریقہ کار ارتقاء پذیر ہونے لگے۔

9 نومبر تک زندگی سانس لے رہی تھی، حرکت کر رہی تھی، کھا رہی تھی، اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کر رہی تھی۔ ہم ان شروع کے مائکروبز کے قرضدار ہیں۔ ہاں، ایک اور چیز: انہوں نے جنس بھی ایجاد کرلی۔

17 دسمبر بہت اہم دن تھا۔ سمندری حیات باہر خشکی پر آ گئی اور بڑے درختوں اور جانوروں کی شکل میں پھلی پھولی۔ ٹکٹالک (Tiktaalik) خشکی پر آنے والے پہلے جانوروں میں سے ایک ہے۔ یہ بالکل کسی دوسرے سیارے پر جانے جیسا محسوس ہوا ہو گا۔

جنگلات، ڈائنوسورز، پرندے، حشرات، یہ سب دسمبر کے آخری ہفتے میں ارتقاء پذیر ہوئے۔ پہلا پھول 28 دسمبر کو کھلا۔ یہ قدیم جنگلات جب بڑھے اور ختم ہوئے تو سطح کے نیچے دب گئے۔ ان کی باقیات کوئلے میں ڈھل گئیں۔ 300 ملین سال بعد ہم انسان اس کوئلے کا زیادہ تر حصہ توانائی کے لیے اور اپنی تہذیب کو خطرے میں ڈالنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

یہ کائناتی کیلنڈر میں 30 دسمبر صبح کے 6 : 24 کا وقت ہے۔ ایک سو ملین سال سے زیادہ ڈائنوسار اس زمین کے آقا رہے، جبکہ ہمارے اجداد اور چھوٹے چوپائے ڈر کے مارے ان کے پیروں میں ادھر ادھر بھاگتے پھرتے تھے۔

ایک سیارچہ (asteroid) نے سب کچھ بدل دیا۔

اب کائنات ساڑھے 13 بلین سال پرانی ہو چکی۔ ابھی تک ہم نظر نہیں آرہے۔ اس عظیم بحر زماں میں جو یہ کیلنڈر دکھا رہا، ہم انسان اس کائناتی سال کے آخری دن کے آخری گھنٹے میں ارتقاء پذیر ہوئے۔ 11 : 59 اور 46 سیکنڈ۔

ہماری تمام قلمبند تاریخ آخری 14 سیکنڈ پر مشتمل ہے اور ہر وہ انسان جس کے بارے میں سنا یا وہ زندہ رہا، وہ یہیں کہیں ہے۔ وہ تمام بادشاہ اور جنگیں، نقل مکانیاں اور ایجادات، جنگیں اور محبتیں، تاریخ کی کتاب میں جو کچھ ہے، وہ یہیں ہوا ہے۔ کائناتی کیلنڈر کے آخری چند سیکنڈ میں۔

لیکن اگر ہم کائناتی وقت کے چھوٹے سے لمحے کو دریافت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پیمانہ بدلنا پڑے گا۔ ہم کائنات میں نووارد ہیں۔ ہماری اپنی کہانی کائناتی سال میں صرف آخری رات میں شروع ہوتی ہے۔

یہ 9 : 45 ہے، نئے سال کی رات۔ ساڑھے تین ملین سال پہلے میرے اور آپ کے اجداد نے یہ راستے چھوڑ دیے تھے۔ ہم کھڑے ہو گئے اور دوسروں سے راستے بدل لیے۔ جب ہم دو پیروں پر کھڑے ہو گئے، ہماری آنکھیں فرش پر چسپاں نا رہ سکیں۔ اب ہم آزاد تھے کہ حیرانی سے اوپر دیکھیں۔ انسانی وجود کے سب سے لمبے حصہ، 40، 000 نسلوں تک ہم بھٹکنے والے لوگ تھے، شکاریوں کے چھوٹے گروہوں میں رہتے تھے۔ اوزار بناتے تھے، آگ پر قابو پا لیا، نام رکھنے لگے، سب کچھ کائناتی کیلنڈر کے آخری ایک گھنٹے میں ہوا۔ یہ جاننے کے لیے کہ آگے کیا ہوا، یہ دیکھنے کے لیے کہ کائناتی سال کی آخری رات کے آخری منٹ میں کیا ہوا، ہمیں پیمانہ بدلنا پڑے گا۔ 11 : 59۔ کائنات کے زمانی پیمانے میں ہم نوجوان تھے کہ ہم نے مصوری بھی شروع نہیں کی۔ ہماری پہلی تصاویر کائناتی سال کے آخری 60 سیکنڈ میں بن پائیں، صرف 30، 000 سال پہلے۔ یہی وہ وقت ہے جب ہم نے فلکیات ایجاد کی۔ حقیقتاً ہم ماہرین فلکیات ہی کی نسل سے ہیں۔ ہماری بقا کا انحصار اس امر میں تھا کہ ہم ستاروں کا پڑھنا سیکھیں تاکہ سردیوں کے آنے کی اور جنگلی جانوروں کے گروہوں کی نقل مکانی کی پیشین گوئی کرسکیں۔

اور پھر، تقریباً 10، 000 سال پہلے، ہمارے رہنے کے طریقے میں بھی انقلاب آیا۔ ہمارے اجداد نے سیکھ لیا کہ اپنے ماحول کو کیسے بدلیں، جنگلی پودوں اور جانوروں کا سدھانا، زمین کو کاشت کرنا اور بس جانا۔ اس نے سب بدل دیا۔ تاریخ میں پہلی بار ہمارے پاس اتنا سامان تھا جسے ہم اٹھا بھی نہیں سکتے تھے۔ ہمیں اس کا حساب رکھنے کے لیے کوئی راستہ چاہیے تھا۔ آدھی رات سے 14 سیکنڈ پہلے، تقریباً 6000 سال پہلے، ہم نے تحریر ایجاد کی۔ تحریر نے ہمیں اس قابل بنا دیا کہ ہم اپنے افکار محفوظ کرسکیں اور انہیں زماں و مکاں میں آگے بھیج سکیں۔ مٹی کی سل پر چھوٹے چھوٹے نشانات نے ہمیں اس قابل کر دیا کہ ہم اخلاقیات کو سر نگوں کر دیں۔ اس سے دنیا دہل گئی۔

موسیٰ 7 سیکنڈ پہلے پیدا ہوئے۔
بدھ، 6 سیکنڈ پہلے۔
عیسیٰ، 5 سیکنڈ پہلے۔
محمد، 3 سیکنڈ پہلے۔

کائناتی کیلنڈر کے آخری سیکنڈ میں ہم نے فطرت کے اسرار و رموز سمجھنے کے لیے سائنس کا استعمال شروع کیا۔ سائنسی طریقہ کار اتنے طاقتور تھے کہ صرف چار صدیوں میں، گیلیلیو کے ٹیلی سکوپ کے ذریعہ دوسری دینا کے نظارے سے لے کر چاند پر اپنا نقش قدم چھوڑنے تک لے گئے۔ اس نے ہمیں اس قابل بنایا کہ یہ دریافت کرنے کے لیے کہ ہم کائنات میں کب اور کہاں ہیں، زمان و مکاں سے پرے دیکھ سکیں۔

ہم ہی وہ راستہ ہیں جس سے یہ کائنات اپنے آپ کو سمجھ سکتی ہے۔ کارل سیگن نے ایک نسل پہلے کائنات کے سفر کی رہنمائی کی۔ وہ بیسویں صدی میں سائنس کا سب سے کامیاب رابطہ کار تھا، لیکن سب سے پہلے وہ ایک سائنسدان تھا۔ ہمارے سیاروں کے علم میں کارل کی گراں قدر خدمات ہیں۔ زحل کے دیوقامت چاند ٹائٹن پر میتھین کی جھیلوں کی کارل نے صحیح پیشین گوئی کی تھی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ شروع کے زمینی ماحول میں طاقتور گرین ہاؤس موجود ہوں گی۔ وہ یہ سب سے پہلے سمجھا کہ مریخ پر موسموں کا بدلاؤ گرد کے طوفانوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کارل ہی ماورائے زمین زندگی اور ذہانت کی کھوج کا شروع کرنے والا تھا۔ خلائی دور کے پہلے 40 سالوں میں کارل نے نظام شمسی کو سمجھنے کے ہر اہم خلائی مشن میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن اس نے صرف یہی نہیں کیا۔

1975 سے کارل سیگن کا اپنا کیلنڈر ہے۔ اس وقت، میں کیا تھا؟ میں صرف ایک 17 سال کا لڑکا جس کا تعلق برونکس (The Bronx) سے تھا اور جو سائنسدان بننے کے خواب دیکھتا تھا۔ اور کسی طرح دنیا کے سب سے مشہور ماہر فلکیات کو اتنا وقت مل گیا کہ اس نے اسے ایتھیکا (Ithaca) اپ سٹیٹ نیویارک (upstate New York) میں دعوت دی اور اس کے ساتھ ہفتے کا دن گزارہ۔ مجھے گزری کل کی طرح یاد ہے کہ وہ برفانی دن تھا۔ وہ مجھے بس سٹاپ پر ملا اور کورنل (Cornell) یونیورسٹی میں اپنی لیبارٹری دکھائی۔ کارل اپنی میز کے پیچھے گیا اور اپنی کتاب پر میرے لیے لکھا۔ ”نیل کے لیے، مستقبل کا ماہر فلکیات، کارل۔“ دن کے خاتمے پر وہ مجھے گاڑی میں بس سٹاپ چھوڑنے گیا۔ برفباری شدید تھی۔ اس نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر اپنا فون نمبر، اپنے گھر کا فون نمبر لکھا اور کہا، ”اگر بس نہیں آئی، مجھے کال کرنا اور میرے گھر اور خاندان کے ساتھ رات بسر کرنا۔“ میں جانتا تھا کہ میں سائنسدان بننا چاہتا تھا، لیکن اس دوپہر، میں نے کارل سے سیکھا کہ مجھے کس طرح کا انسان بننا ہے۔ کارل سیگن مجھ تک پہنچا اور ان گنت دوسروں تک، اور ان گنت لوگوں کو سائنس پڑھنے، سکھانے اور کرنے کے لیے متاثر کیا۔

سائنس ایک اجتماعی ہنر ہے اور نسلوں پر محیط ہے۔ یہ مشعل کی طرح ہے جو استاد سے شاگرد اور پھر استاد کی طرف آتی ہے، یہ وہ اذہان کی برادری ہے جو پیچھے آثار کی طرف جاتی اور آگے ستاروں تک۔

اب، میرے ساتھ آئیے۔
ہمارا سفر ابھی شروع ہی ہوا ہے۔

(نیل ڈی گراس ٹائسن، ایسٹرو فیزیسیسٹ، مصنف اور سائنسی رابطہ کار، کی مشہور دستاویزی فلم کوسموس کی پہلی قسط کا ترجمہ جاوید صدیق نے کیا ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments