سب کچھ حرام جو تم کرنا چاہو : کیف الحال سےگاڑی نہ چلانا بے بے


سعودی خواتین کی ڈرائیونگ اور سفر سے وابستہ مسائل پر بیس بائیس سال پرانی طنزیہ اور معلوماتی تحریر۔ آج کا سعودی عرب بہت بدل چکا اور عورتوں کے لئے اتنی مشکلات نہیں رکھتا جو اُس وقت موجود تھیں اور لکھنے والے نے لگی لپٹی رکھے بغیر تحریر کی تھیں۔ یہ اور بات کہ کوئی اخبار اس وقت سعودی حکومت کی ناراضگی کے سبب اسے چھاپنے پر تیار نہ تھا۔ اور نہ کوئی سرکاری ادارہ ایسی تحریر کو اپنے کسی ملازم کے نام سے چھاپے جانے کی اجازت دینے پر تیار تھا۔ پھر مراکش سے اٹھنے والی تبدیلی کی لہر نے مشرق وسطی میں بہت کچھ بدل دیا، سعودیہ میں بھی۔ مگر تبدیلی کی اصل جھاڑو 2017 ء سے لگی۔ (محمد بن سلمان کے بعد) سعودیہ اتنا تبدیل ہو چکا کہ کسی بھی وقت دوبئی، قطر اور بحرین کو ٹکر دے سکتا ہے۔ اس تحریر کا ایک خاص پیغام ان کے لئے بھی ہے، جو پاکستان و افغانستان میں رہتے اپنے معاملات اور ”چاند“ کو سعودیہ کے ساتھ نتھی رکھتے تھے۔ قبلہ، انہوں نے تو اپنا دنیاوی اسلام اور قوانین بدل لئے۔ آپ کب بدلیں گے۔ شاید اس وقت تک نہیں جب تک وہ خود آپ کو ٹھینگا نہ دکھا دیں کیوں کہ ہمارے سیاست دانوں اور ملاؤں کا صابن سلو نہیں بلکہ بہت ہی سلو ہے۔ اس تحریر سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ سعودیہ میں سونے چاندی میں لپٹی خواتین کی اُس وقت زندگی کتنی مشکل تھی۔ اس وقت ہماری خواتین پھر بھی بہتر تھیں مگر اب تیزی سے یہ فرق کم ہو رہا ہے اور کچھ ہی عرصے بعد ہماری خواتین ان سے بہت پیچھے رہ جائیں گی۔ جس کی ایک مثال حلوے والا لباس پہننا بھی ہے۔

٭٭٭

عربی میں ”ٹ“ نہ ہونے کے سبب، سعودی عرب میں ٹیکسی کو ٹیکسی نہیں کہتے بلکہ ”لیموزین“ کہا جاتا ہے، وجہ تسمیہ نام سے ظاہر ہے کہ پہلی درآمد ٹیکسی ”لیموزین“ کمپنی یا ماڈل کی پیش کش رہی ہوگی۔ یہاں آ کر ایک حدیث پڑھی، ”جہاں ایک عورت کسی نامحرم مرد کے ساتھ تنہائی میں ہو، تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے“ ۔ یہاں کے مفتیوں نے لیموزین کی چہار دیواری کو بھی تنہائی قرار دیا اور یوں ”لیموزین یا ٹیکسی ڈرائیور“ کے ساتھ اکیلی عورت کا سفر کرنا بھی شرعاً ممنوع یعنی حرام ٹھہرا۔ مملکت حرمین شریفین میں لوگوں کو حرام کام سے روکنے یا بچانے کے لئے ”ہیئۃ الامر بالمعروف نہی عن المنکر“ کا ادارہ قائم کیا گیا ہے جن کے مذہبی مگر بے وردی کے پولیس والوں کو ”مطَوّع کہا جاتا ہے۔ سرکاری مذہب کی رو سے، چونکہ اکیلی عورت کا لیموزین میں پایا جانا خلاف شرع ہے اس لئے جہاں جہاں بس چلے، بے چارے مطوعین (یعنی مطوعے ) لیموزینوں میں بھی جھانکتے رہتے ہیں کہ مبادا کہیں کوئی اکیلی عورت، لیمو میں سفر کرتے ہوئے اس گناہ کی مرتکب نہ ہو رہی ہو۔ البتہ لیمو، میں ایک سے زیادہ خواتین یا ایک خاتون کے ساتھ کم از کم ایک گود کے بچے کے ہی ہونے کی صورت میں لیموزین میں سفر کرنا جائز ٹھہرتا ہے۔ کیوں کہ تین ارواح کی موجودگی میں شیطان بھاگ جاتا ہے۔

دوسری طرف سرکاری فتویٰ کے مطابق، اکیلی عورت کا، گھر کے ڈرائیور کے ساتھ ذاتی گاڑی میں جانا بھی، ٹھہرا تو حرام ہی، لیکن مطوعوں کا اس گناہ سے روکنے پر کوئی بس نہیں چلتا۔ آج کل اتنی چھوٹ البتہ دے دی گئی ہے کہ عورت چاہے گھر کے نامحرم ڈرائیور کے ساتھ پرائیویٹ گاڑی میں اکیلی ہو یا لیموزین ڈرائیور کے ساتھ ٹیکسی میں، دونوں صورتوں میں کار چلانے والے کے ساتھ اگلی سیٹ پر، آگے نہیں بیٹھ سکتی، آگے بیٹھنے کا صاف مطلب ہے کہ خاتون ڈرائیور کی کچھ ہوتی سوتی لگتی ہے اور یاد رہے چیک ہو جانے کی صورت میں چالان ڈرائیور کا ہی ہو گا۔ چاہے وہ غرامے یعنی مال کی شکل میں ہو یا جلود یعنی کوڑوں کی شکل میں۔ اسی لئے اگر عبایہ (یعنی برقعہ) پوش، نظروں سے گولیاں مارتی، اکیلی خوب صورت اور الہڑ لڑکی، اٹھلا کر اور نازو ادا سے ٹیکسی کا دروازہ کھول کر اگلی سیٹ پر بیٹھنے کی کوشش کرے تو ٹیکسی ڈرائیور فوراً دونوں ہاتھ جوڑ کر شور مچاتا ہے، ”میری ماں پیچھے بیٹھ!“ ۔

طریق سریع (انٹر سٹی ہائی ویز یعنی موٹر وے ) پر، شرطے اور جوازات والے یہ ضرور چیک کرتے رہتے ہیں کہ اگر آپ کسی عورت کے ساتھ کار میں جا رہے ہوں تو وہ لڑکی یا عورت آپ کی بیوی یا بیٹی وغیرہ ہی ہے، کوئی نامحرم تو نہیں۔ اس سفر میں، کسی نامحرم عورت کے ہمراہ، اگر آپ کی گاڑی میں آپ کے بیوی بچے بھی ہوں، تب بھی محرم نہ ہونے کی صورت میں آپ کے خلاف قانونی کارروائی ہونے کے پورے امکانات ہیں۔ جس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ آپ کے پاس اس عورت کے محرم یعنی شوہر یا باپ کی طرف سے ”ورقہ سفر“ یعنی اتھارٹی لیٹر موجود ہو۔ دوسری صورت میں پولیس آپ کو، حبس بیجا کے کیس میں اندر بھی کر سکتی ہے، منظور ہے! اس لئے کسی اور کی 15 سالہ بیٹی، چالیس 40 سالہ بیوی یا ساٹھ 60 سالہ مطلقہ بہن یا ماں کسی کو بھی اپنے ساتھ سفر پر لے کر چلنے سے پہلے اس کے محرم سے اجازت نامہ ضرور لے لیں۔

اسی طرح ٹرین، بس اور جہاز سے مملکت کے اندر سفر کرتے وقت عورت کے ساتھ یا تو محرم ( چھوٹا لڑکا ہی کیوں نہ ہو ) ضرور ہو یا پھر جس کے ساتھ جا رہی ہو اس کو خاتون کے محرم نے ساتھ سفر کی اجازت دی ہو۔ ورنہ اکیلے سفر کی صورت میں بھی خاتون کے پاس اجازت نامہ موجود ہو کہ اس (یعنی بیگج) کو اگلے ائر پورٹ یا ریلوے اسٹیشن پر کون ”وصول“ یا خوش آمدید کرنے آئے گا۔ اب جس کے نام کا ورقہ خاتون کے پاس ہو، اس کو اگر کوئی ایمرجنسی پڑ جائے یا وہ نہ آ سکے تو خاتون کو تب تک مقامی اسٹاف کی نگرانی میں انتظار ہی کرتے رہنا ہو گا۔ اس سے آگے کیا کچھ اور ہو سکتا یا ہوتا رہتا ہے اتنی تحقیق ہم نہیں کر پائے۔ لیکن یہ ایک سبق اور کھلا پیغام ہے پاکستان کی خواتین کے لئے کہ ان کی زندگی پاکستان میں کتنی آسان ہے۔

سعودی عرب میں سعودی خواتین ہی نہیں دیگر ممالک کی خواتین کو بھی سڑکوں پر گاڑی، موٹر سائیکل یا بائیسکل کچھ بھی دوڑانے کی اجازت نہیں، اور تو اور، یہاں کوئی خاتون موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے بھی نظر نہیں آئے گی۔ لیکن یہ کیسی حیران کن اور طرفہ تماشا بات ہے کہ خود اس مملکت کی نظریاتی، ریاستی اور مالی مفادات کا تحفظ کرنے میں ”رجالی (مردانہ)“ افواج سعودیہ و غیر سعودیہ کے شانہ بشانہ مملکت کی سرحدوں کی حفاظت، غیر مسلم خواتین بھی کر رہی ہیں، مثلاً امریکہ کی کرسٹان لیفٹیننٹ کرنل ”میک سالی“ کو ہی لے لیجیے، جن کو امریکی خواتین فائٹر پائلٹوں میں سب سے سینئر ہونے کا بھی شرف بھی حاصل ہے۔

یہ نومبر 2000 ء سے مملکت سعودیہ کی حفاظت اس کے دشمنوں سے جنگی جہاز اڑا کر کر رہی ہیں۔ میک سالی کو زمین کے اوپر آسمان میں رہتے ہوئے امریکی طیارہ اے 10 وارٹ ہوگ اڑانے کی تو اجازت ہے، مگر پاکیزہ سرزمین سعودیہ کی سڑکوں پر گاڑی دوڑانے کی اجازت نہیں ہے۔ اور تو اور امریکہ میں رہ کر سب کچھ کرنے والی بے چاری میک سالی، جب عراق پر سے بچ بچا کر یا بمباری کر کے فلائنگ سے تھکی ہاری ائر بیس (فضائی قاعدہ) پر واپس آتی ہے تو اس کو واپس اپنی رہائش یعنی ”اسکان“ یا شہر جانا ہو تو وہ خود جہاز اڑا کر آنے کے باوجود بھی، گاڑی چلا کر گھر نہیں جا سکتی اور مجبوراً کسی ڈرائیور یا ساتھی (مگر مرد) کی محتاج ہوتی ہے جو اسے اس کی منزل تک چھوڑ آئے۔

دروغ بہ گردن بل گیٹس، انٹرنیٹ نے ہمیں بتایا کہ مادر پدر آزادی کی دلدادہ، ”مقدم طیران میک سالی“ جب سعودیہ میں آئی تو اسے بھی باہر گھومتے وقت سر سے پاؤں تک کالے عبایہ میں چھپے رہنا ہوتا تھا۔ مخلوط معاشرے کی بے پردہ میک سالی پر جب خود یہ سب کچھ، نہ چاہتے ہوئے بیتی تو اسے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا، اس کے ساتھی، مرد حضرات تو سکون سے (چڈے کے علاوہ) جو چاہتے سر عام پہن کر گھومتے مگر 35 سالہ بے چاری میک سالی (اور اس کی طرح کی 900 نو سو امریکی خواتین) کچھ پہنیں یا نہ پہنیں (ان کی مرضی) مگر نیم شٹل کاک سعودی برقعہ یعنی عبایہ پہن کر ان کو ضرور باہر آنا پڑتا تھا، نتیجتاً بیچاریاں تلملاتی رہتی تھیں کیوں کہ امریکی فوجی قانون کی 1995 ء کی سرزمین سعودیہ سے متعلق شقوں کے تحت ان کو لازم کیا گیا ہے کہ ”امریکی القاعدہ (ائر بیس) اور اسکان (گھر)“ کے علاوہ کہیں باہر اگر وہ عبایہ میں نہ پائی گئیں یا گاڑی چلاتے ہوئے ملیں، تو ان کا کورٹ مارشل کیا جا سکے گا۔

اس عبایہ یا برقعہ سے بچنے کے لئے میک سالی نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ اس نے اپنی نوکری کی جگہ یعنی امریکی القاعدہ سے، اہم ترین دفتری کاموں کے علاوہ باہر جانا ہی چھوڑ دیا تاکہ، نہ بجے بانس اور نہ بجے بانسری، یعنی نہ باہر جاؤں گی اور نہ عبایہ پہننا پڑے گا جو دقیانوسی اور بنیاد پرست مسلمانوں کی نشانی ہے اور جس کو پہننے سے بقول اس کے اپنے فوجی نظم و ضبط اور مورال پر خراب اثر پڑتا تھا۔

ان سب کے باوجود بھی، جب بالخصوص ونگ کمانڈر میک سالی کا اس کے ساتھیوں نے زیادہ ہی مذاق اڑایا، تو جذبات میں آ کر اس نے حکومت امریکہ کے سیکریٹری دفاع ڈونالڈ رمسفیلڈ کے خلاف ایک عدد ”ریڈریس آف گریوانسز“ ٹائپ کا قانونی مقدمہ 3 دسمبر 2001 ء میں واشنگٹن امریکہ کے ڈسٹرکٹ کورٹ میں پیش کر کے سب کو مشکل میں ڈال دیا کہ ”مجھے سعودیہ میں میرے ساتھیوں کے مقابلے میں صنفی امتیاز کا سامنا، کپڑوں اور دوسرے معاملات میں کرنا پڑ رہا ہے! جو میرے حقوق کی شق نمبر فلاں فلاں کے خلاف ہے“ ۔ بڑی مشکل سے سرکار امریکہ نے ”بے بے“ کو چپ کرایا اور مسئلہ کو دبایا ہوا ہے۔

امریکی فضائیہ کی تاریخ میں ”مارتھا میک سالی“ کوئی عام پائلٹ نہیں۔ وہ پہلی خاتون امریکی پائلٹ ہے جس نے کسی فضائی جنگ اور بم باری میں حصہ لیا ہو (کویت کے لئے عراق کے خلاف) ۔ اسی طرح میک سالی وہ پہلی خاتون امریکی فائٹر پائلٹ بھی ہے جس نے کسی امریکی فضائی اسکواڈرن کو کمانڈ کیا ہو۔ اس لئے لگتا یہی ہے کہ میڈم میک سالی کی پوسٹنگ اب زیادہ دنوں تک سعودی عرب میں نہیں رہے گی۔

ماضی میں پہلے بھی ایک غیر ملکی فوجی خاتون نے اسی طرح شور شرابا کیا تھا کہ مجھے گاڑی چلانے کی اجازت چاہیے، کیوں کہ جب میں اس ملک کی حفاظت کرتے ہوئے جہاز اڑا کر واپس آتی ہوں تو ان کو مشکل نہیں آتی لیکن جب زمین پر رہتے ہوئے گاڑی ڈرائیو کرنے کی کوشش کرتی ہوں تو ”ان کا موٹاوا ہے رام ہے رام، بولٹا اے“ ۔

بہت کم لوگوں کو یاد ہے کہ سعودی عرب اور افغانستان (دور طالبان) کے علاوہ سوڈان میں بھی ( 14 چودہ سال ) تک خواتین کو گاڑیاں چلانے کی اجازت نہیں تھی، جو بمشکل غالباً 1997 ء کے آس پاس دوبارہ بحال ہوئی۔ سعودی عرب میں خواتین کی طرف سے اصل شور تو خلیج کی جنگ کی ابتداء میں کیا گیا تھا، چوں کہ اس وقت مملکت کی سالمیت زیادہ خطرے میں تھی اس لئے دوران جنگ کچھ غیر ملکی خواتین کو عارضی طور پر سعودی سڑکوں پر گاڑیاں چلانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

خلیجی جنگ کے دوران غیر ملکی خواتین کو ملنے والی اس عارضی اجازت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، نومبر 1990 ء میں تیس چالیس سعودی خواتین (جن میں زیادہ تر جامعات کی پروفیسر اور دیگر اساتذہ تھیں اور جن ہوں نے سعودیہ کے باہر رہتے ہوئے دوران تعلیم یا شوہروں کی پوسٹنگ کے دوران گاڑی چلانا سیکھی ہوئی تھی) نے اس ”ان لکھے“ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے شوہروں کی گاڑیوں کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور ”آپریشن ڈیزرٹ شیلڈ“ کے دوران شہر ریاض کی سڑکوں پر گاڑیاں چلانا شروع کردی۔ وجہ یہی تھی کہ جب سینکڑوں (غیر سعودی) مغربی ممالک کی خواتین سپاہیوں کو جب گاڑی چلانے کی اجازت ہے (یعنی ان کے لئے یہ معاملہ حلال ہے ) تو ہم کیوں نہیں! جب کہ کوئی لکھا قانون یا مذہب ہمیں اس کام سے نہیں روکتا؟

مگر حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مر جھا گئے۔ جیسے ہی ان کی گاڑیاں شہر ریاض میں ”تمیمی مارکیٹ“ کے پاس پہنچیں تو پتہ چلا کہ مطوعوں نے سڑک کو بلاک کر رکھا ہے۔ پھر کیا تھا، مطوعوں نے ان کی گاڑیوں کے شیشوں، دروازوں اور کھڑکیوں کو ڈنڈوں اور ہاتھوں سے بجانا شروع کر دیا اور غیر پارلیمانی الفاظ میں خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے ان کے خاندانی قبیلے کے ڈانڈے ہماری فلمی صنعت کی خواتین کے خاندانوں سے ملانا شروع کر دیے۔ بہرحال، ان خواتین کو گرفتار کر کے اُس وقت رہا کیا گیا جب ان کے ”محرم“ حضرات نے (شوہر یا باپ نے ) تحریری طور پر یہ یقین دہانی کروائی کہ یہ بی بیاں دوبارہ گاڑی چلانے کی ہر گز کوشش نہیں کریں گی۔ ہماری معلومات کے مطابق اس قانونی خلاف ورزی پر نہ صرف ان میں سے بعض خواتین کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے بلکہ اپنے اپنے ”جواز السفر“ یعنی پاسپورٹوں سے بھی۔ اس حرکت کا فوری نتیجہ یہ بھی نکلا کہ خواتین کا گاڑی ڈرائیو کرنا، جو سعودی عرب میں اس سے پہلے تک ایک معاشرتی روایت کے تحت چلانا ممنوع سمجھا جاتا تھا، فوراً ایک باقاعدہ قانون کے تحت ممنوع قرار دے دیا گیا۔

ایک مقامی مولوی دوست سے جب اس مسئلہ کی اسلامی نزاکت اور ان کی بدووانہ تاریخ کے حوالے سے ان ہی کی خواتین کی اس مشکل پر روشنی ڈالنے کو کہا تو وہ فرمانے لگے :

”یا اخی! پرانے زمانے میں بھی چوں کہ خواتین اکیلے گھوڑے پر بیٹھ کر شہ سواری نہیں کرتی تھیں، بلکہ اگر اونٹ، ہاتھی یا گھوڑے پر اکیلے بیٹھی بھی ہوں تو ان کے ساتھ کوئی محرم بھائی، بیٹا یا باپ ضرور ہوتا تھا یا کوئی (غلام) نوکر ساتھ ہوتا تھا، جو اس جانور کی باگ پکڑتا تھا اور سفر کے دوران نیوی گیٹر اور باڈی گارڈ کے فرائض بھی انجام دیتا رہتا تھا، اس لئے ہم نے بھی انہیں اکیلے گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دی“ ۔

ایک اور علامہ سے بات ہوئی تو کہنے لگے :

”مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر خواتین نے گاڑی چلانی شروع کی تو وہ اکیلے بھی سفر کریں گی اور اسی اکیلے سفر کو کرتے کرتے وہ یقیناً “محرم کی غیرموجودگی میں، سفر کی شرعی حدود (یعنی ساٹھ ستر میل کی حد) کو بھی اکثر پار کر جائیں گی، گویا گناہ اور سنت کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوں گی، اس لئے ان کو اس گناہ سے بچانے کے لئے گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دی گئی (یعنی نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی) ، چوں کہ جب گاڑی کا لائسنس ہی نہیں ہو گا تو یہ لوگ گاڑی کیا چلائیں گی اور یقیناً سفر کی شرعی حدود کو بھی اکیلے پار نہیں کریں گی“ ۔

بہرحال ان تمام پابندیوں کے باوجود بھی، صحرا میں مقیم بدو حضرات کی بیٹیاں ان تمام پابندیوں سے بے نیاز صحرائی ریت پر بے دھڑک اپنے بابا کی پک اپ، ٹرک اور ہیوی گاڑیاں عام شام چلاتی رہتی ہیں، کیوں کہ نہ تو وہاں کوئی انہیں چیک کرنے والا شرطہ مرور (ٹریفک پولیس کا اہل کار) ہوتا ہے اور نہ روک ٹوک کرنے والا کوئی مطوع۔ ویسے بھی صحرا میں مقیم کسی ایسے بدو آدمی کے مسائل کا بخوبی تصور کیا جاسکتا ہے، جس کی تمام بیویوں سے صرف لڑکیاں ہی ہوں (ایسے آدمی کو تمسخراً، یہاں ابو بنات کہتے ہیں ) ۔ ایسے صحرائی لوگ جب بیمار پڑ جائیں تو گھر کے کام کاج اور ان کو دور دراز مقام کی ڈاکٹر کی ڈسپنسری پر کون لے جائے گا؟ ظاہر ہے بنت بدو کو ہی یہ فریضہ انجام دینا ہو گا۔ اس لئے تمام پابندیوں کے باوجود بھی صحرائی آنسہ بدو، شہروں میں مقیم اپنی سعودی بہنوں کے برعکس سکون بلکہ دھڑلے سے صحراؤں میں گاڑیاں چلا رہی ہیں۔

ویسے مملکت سعودیہ کے شاہان وقت پر کافی عرصے سے مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے زبردست دباؤ ہے کہ خواتین کے کم از کم ایک محدود یا مراعات یافتہ طبقے یا ایک خاص عمر سے زائد عمررسیدہ خواتین یا اپنے بچوں کے ہمراہ ڈرائیو کرنے والی یا اسکول، کالج جانے آنے کے اوقات میں خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ ہر جاء سرکار کے بہت سے لوگ کسی حد تک قائل بھی ہیں کہ یہ اجازت دے دی جانی چاہیے، لیکن ایک بہت بڑا مسئلہ اس اجازت کی راہ میں فی الوقت رکاوٹ بنا ہوا ہے، جو ہمیں پاکستان میں پڑھ کر شاید عجیب لگے۔ لیکن ان کے حالات قریب سے دیکھ کر بڑا ہی جینوئن لگتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سعودی عرب میں سر عام کوئی نا محرم، کسی دوسری عورت یا لڑکی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے دیکھ سکتا ہے اور نہ بات کر سکتا ہے۔ اب اگر خواتین گاڑیاں چلائیں گی تو یقیناً حادثات بھی ہوں گے ! ایسی صورت میں ان سے گاڑی کے کاغذات کون مانگے گا؟ انہیں گرفتار کون کرے گا؟ کس گاڑی میں انہیں بٹھا کر نامحرم تھانے ساتھ لے جائے گا؟ پھر ہر تھانے میں خواتین کے مخصوص نہ صرف زنانہ قید خانے (سجن النساء) بنانے پڑیں گے بلکہ ان کی دیکھ بھال اور ان سے پوچھ گچھ کے لئے شرُطیاں یعنی خواتین پولیس والیاں اور کام کرنے والیاں بھی رکھنی پڑیں گی (ساتھ زنانہ بیت الخلا بھی) اور یوں مرد اور عورت کے مخلوط میل جول کا ایک نیا اور نہ ختم ہونے والا تماشا شروع ہو جائے گا۔ اسی لئے، یہ کہتے ہیں، بے بے کی گاڑی، چھڈو جی!

ویسے تادم تحریر یہاں مقامی خواتین کو شناختی کارڈ بھی جاری نہیں ہوتے جسے بطاقہ کہا جاتا ہے۔ بہت امیر، متمول یا اہم خاتون ہی اس اعزاز کی مستحق ہوتی ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ ان کا ریکارڈ کیسے رکھا جاتا ہے تو عرض ہے کہ ان کا نام پہلے باپ کے بطاقے، اس کے بعد شوہر یا بھائی کے بطاقے اور بزرگ ہونے پر بیٹے کے شناختی کارڈ میں درج ہوتا ہے۔ اور بس۔ ملک سے باہر جانے والی خواتین کو الگ پاس پورٹ ضرور جاری ہوتا ہے مگر وہ بھی ان کے محرم کی ”زیادہ“ ملکیت ہوتا ہے۔ اور اس کے اجازت نامے کے ساتھ وہ تنہا مملکت سے باہر بھی سفر کر سکتی ہیں۔ عام خواتین کے پاس بطاقہ یا شناختی کارڈ نہ ہونے سے ان کے سعودی سسٹم کو بہت سے فائدے حاصل ہیں۔ خاتون نہ تو موبائل خرید سکتی ہے۔ نہ گاڑی اور نہ ڈرائیونگ لائسنس کی فرمائش۔ یہی نہیں گھر پر لینڈ لائن ٹیلیفون یا انٹرنیٹ کے لئے ڈی ایس ایل بھی نہیں لگوا سکتی۔

ویسے قطع نظر سعودی خواتین کے مسائل کے، گوری میک سالی نے جو کچھ کیا اور جس طرح مغربی میڈیا اسلامی تعلیمات کے بالعموم اور بالخصوص سعودی عرب کے پیچھے بغیر ہاتھ دھوئے پڑا ہوا ہے اس سے ان کے منفی رجحان اور میلان کا کھلا اظہار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں محسوس ہوتا کہ یہ مغرب کے گورے بھی عجیب دوغلے لوگ ہیں، ان ہی کا محاورہ ہے کہ، ”روم میں رہنا ہے تو وہ کرو جو روم کے لوگ کرتے ہیں اور وہ پہنو جو اہل روم پہنتے ہیں“ ۔ مگر سعودیہ میں آ کر عبایہ پہننے سے ان کی جان جاتی ہے، ہاں اگر یہ قبرص یا لبنان میں پوسٹ ہوتیں جہاں ان کو ”بدون ملابس“ یعنی بغیر کپڑوں کے رہنا اور گھومنا پڑتا تو شاید یہ اہل روم کے محاوروں پر بخوشی عمل بھی کر لیتیں اور ان کے گن بھی گاتیں۔ ویسے کیا پتہ چونکہ میڈم میک سالی سعودیہ کے شہر ریاض میں تھیں اسی لئے ہم بھی ریاض آ گئے، کیا خبر اگر یہ روم اور قبرص چلی جاتیں تو ہم بھی وہیں پہنچ جاتے یعنی ہماری پوسٹنگ بھی ان کے پیچھے پیچھے وہاں ہوجاتی۔
ہائے رے ”میک“ سالی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments