رفاقت حیات کا ناول: رولاک


ناول اگر ضخیم ہو تو اس کے یک نشستی مطالعے کے لیے ذہنی یکسوئی اور فراغت کا ہونا لازمی عنصر ہے۔ اگر فراغت کے ساتھ ذہنی یکسوئی میسر نہ ہو تو یک نشستی مطالعے میں ختم نہ ہونے کی وجہ سے ناول کی طوالت قاری کے لیے بار گراں بن جاتی ہے اور نتیجتاً وہ دلچسپی کھو دیتا ہے اور ناول کے حقیقی حسن کمال سے حظ اٹھانے میں ناکام رہتا ہے اور یوں اپنی ناکامی کی جھنجھلاہٹ میں وہ ناول کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتا۔
میرے ساتھ اکثر یہ ہوتا رہتا ہے کہ باوجود اعلی ادبی اور حقیقی تخلیقی متن کے میری دلچسپی وہ نہیں رہتی اس لیے بہت سے اچھے ناول ایک نشست میں پڑھنے کی فراغت نہ ہونے کی وجہ سے کبھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے۔
ناقدین کی نظر میں اعلی ترین ناول مثلاً شمس الرحمن فاروقی کا ”کئی چاند تھے سر آسماں“ بھی میں کبھی مکمل نہیں کر پائی۔ اس کے دو ایک باب پڑھے اور پھر کسی وجہ سے بھٹک کر رک گئی۔
ماضی میں Hundred years of solitude اور پھر God of small things کے ساتھ یہی واقعہ پیش آیا مگر کچھ سال گزرنے کے بعد ان دونوں کو جب یک نشستی یکسوئی کے ساتھ مکمل کیا تو دونوں ناولوں کو میں نے اعلی ترین تحریروں میں شامل کیا۔
میلان کنڈیرا کو پڑھنے کے لیے بھی ایک خاص کیفیت مزاج اور وقت درکار ہوتا ہے، گرچہ وہ پہلی دفعہ پڑھنے سے مجھے فحش لگا تھا اور میں اس میں دلچسپی کھو بیٹھی تھی۔ اس وقت فن و تحریر سے زیادہ نظریے کا رومانس بھی تھا۔ مجھے اس وقت لگتا تھا کہ اس کی تحریر کمیونسٹوں کے خلاف سازش کا حصہ ہے۔ اس لیے جب پہلی مرتبہ Unbearable lightness of life پڑھا تو محسوس ہوا کہ کنڈیرا نے جنسی تجربوں کا ذکر شاید قاری کو متوجہ کرنے کے لیے دانستہ طور پہ کیا ہے، بس اس خیال نے مجھے کنڈیرا کو کبھی سنجیدگی سے پڑھنے کا موقع نہیں دیا مگر جب نظریات پر حقیقی زندگی کی فوقیت سمجھ میں آئی تو ناول کے متن اور جنسی تجربوں کا باہمی ربط بھی نظر آیا اور معنویت کے کئی نئے پہلوؤں کی طرف بھی دھیان گیا اور یوں کنڈیرا میرا پسندیدہ رائٹر بن گیا۔

MIlan Kundera

ضخیم ناولوں کے حوالے سے کسی اور قاری کا تجربہ مجھ سے مختلف ہو سکتا ہے مگر چونکہ میرا مطالعہ یک طرفہ عمل نہیں ہوتا بلکہ میرا مطالعہ متن کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے اس لیے مکالمے کا ربط ٹوٹ جائے یا پھر پہلے صفحات وقت گزرنے کے ساتھ یاداشت سے محو ہو جائیں تو پھر مجھے بار بار ایک ہی چیز کو پڑھنا مشکل لگتا ہے۔
ویسے کنڈیرا کو پڑھتے ہوئے تاریخ و سیاست کے سیاق و سباق سے آگہی ضروری ہے اور کنڈیرا کا کمال یہ ہے کہ وہ انتہائی موضوعیت کے ساتھ اپنے تجربے سے جوڑ کر زندگی کے علاوہ تاریخ اور سیاست کی بھی نئی تشریح کرتا ہے
جو کہ ظاہر ہے نظریاتی لوگوں اور سیاسی فلسفے کے پیرو کاروں پر ناگوار گزرتی ہے۔ اسی لیے کنڈیرا کے ضخیم ناول تو چھوڑیں مختصر ناول کے لیے بھی ذہنی یکسوئی درکار ہوتی ہے۔ immortality کئی سال پہلے انگریزی میں پڑھا اور اب ارشد وحید کا ترجمہ ”بقائے دوام“ پڑھنا شروع کیا تو تین دفعہ حصہ سوم ہی مکمل نہیں کر پائی کہ کبھی کبھی اس کو چھوڑے ہوئے اتنے دن ہو جاتے ہیں کہ پہلا ٹیکسٹ یادداشت سے مکمل طور پہ گم ہو جاتا ہے اور دوبارہ پھر سے شروعات کرنی پڑتی ہے۔ وہ کئی مہینوں سے گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ رکھا ہے کہ کبھی خانہ بدوش پہ، کبھی سہیلی کے گھر، کبھی اماں کے گھر میرپور خاص تو کبھی اپنے کمرے میں مجھے کچھ وقت ملے تو پورا کر لوں مگر تین بار شروع کرنے کے باوجود اس کا مطالعہ حصہ سوم سے آگے نہیں بڑھ سکا حالانکہ ارشد وحید کا ترجمہ انگریزی ٹیکسٹ سے بھی زیادہ میرے دل کو بھایا ہے۔
رفاقت حیات کے ناول رولاک میں، ضخامت کے باوجود مجھے دلچسپی تو تھی مگر ساتھ ہی یہ ڈر بھی تھا کہ یہ ناول بھی کہیں بیچ میں ہی چھوٹ نہ جائے۔
رفاقت کے افسانے تو میں نے نہیں پڑھے مگر ان کا پہلا ناول ”میر واہ کی راتیں“ جو بے حد مختصر تھا وہ محض اس کے نام کی وجہ سے پڑھا اور یہ جاننے کے لیے بھی کہ ایک اردو رائٹر کے لیے خیرپور ضلعے کا چھوٹا سا شہر ٹھری میر واہ، ناول کا موضوع کیسے بن گیا؟ میرا یہ تجسس اس مختصر ناول کے مطالعے کا سبب بنا۔ اس ناول کے اختتام تک میں رفاقت کی تحریر کی دلدادہ ہو چکی تھی۔
اس مختصر ناول سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رفاقت حیات کو اپنی تحریر پہ دسترس حاصل ہے۔ ان کو کہانی لکھنے کا فن آتا ہے۔ وہ قاری کو کہانی کی دنیا میں لے جا کر اکیلا چھوڑ دیتے ہیں پھر کہانی خود قاری کو اپنے ساتھ لیے گھومتی ہے۔ قاری اس سے نکل نہیں پاتا، جب تک وہ اسے پورا نہ پڑھ لے۔


اس لیے مجھے ان کے دوسرے ناول کا انتظار تھا جب وہ ناول کی اشاعت کے مراحل سے گزر رہا تھا تو وہ اپنی فیس بک پوسٹوں سے اس کے متعلق مطلع کرتے رہتے تھے۔ ان کے نئے ناول کے انتظار کا دوسرا سبب یہ بھی تھا کہ میں اسے ایاز میلو میں لانچ کرنا چاہتی تھی۔ مگر وہ نہ ہو سکا۔ یہ ناول پہلی بار کراچی لٹریچر فیسٹول میں لانچ ہوا مگر چونکہ فیسٹیول والوں نے مجھے نہیں بلایا تھا اس لیے کتاب تک میری رسائی نہ ہو سکی۔ 25 فروری کو البتہ لاہور لٹریری فیسٹول میں اس ناول پر بھی بات چیت رکھی ہوئی تھی۔ فیسٹیول کے پہلے دن یعنی 23 فروری کو مجھے ریڈنگز پبلشرز کے اسٹال پر مصنف کے ہاتھوں سے دستخط شدہ کاپی وصول ہوئی۔ میرے تین دن لاہور میں گزرے اور چوتھے دن رولاک میرے زیر مطالعہ آ چکا تھا۔
ابتدائی مطالعہ کے دوران میں نے حسب عادت ناول کے کچھ ابتدائی اقتباسات فیس بک پر پوسٹ کرنے شروع کر دیے مگر مجھے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ رفاقت حیات کا لگ بھگ پونے سات سو صفحات کا یہ ناول کوئی عام ناول نہیں ہے اور نہ ہی ہے یہ عام قاری کے بس کی بات ہے کہ وہ اس ناول کے متن کو اتنی سنجیدگی سے پڑھنے میں کامیاب ہو سکے۔ جس طرح کنڈیرا اور کچھ مخصوص رائٹرز کو پڑھنے کے لیے مخصوص مزاج درکار ہوتا ہے اسی طرح یہ ناول بھی کسی عام قاری کو متاثر کرنے کے لیے بالکل بھی نہیں ہے۔
فکشن کے وہ قارئین جو ناول سے سستے سگریٹ جیسا نشہ چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ کوئی اور چٹ پٹی چیز پڑھیں یا پھر ٹک ٹاک جیسے متن پر گزارہ کریں کیوں کہ اس ناول میں ان کی دلچسپی کا کوئی سامان نہیں ہے۔ وہ قارئین جن کو ناول میں تھرل اور ڈرامہ چاہیے یہ ناول ان کے لیے بھی بے کار ہے کہ پہلی نظر میں تو یہ ناول ایک ہی ڈھب سے بہت سست رفتاری سے کسی قسم کے ڈرامائی عناصر کے بغیر رینگتا نظر آتا ہے۔ جو لوگ چھوٹے چھوٹے مقولوں کی تلاش میں یہ ناول پڑھنا چاہیں گے تو ان کو بھی یہ یہ ناول مایوس کرے گا کہ ناول کا بیان کسی بھی گہرے فلسفے کے بیان کے بجائے انتہائی سادہ ہے۔
آج کے جدید دور میں کئی فکشن رائٹر، شعوری طور پہ گوگل میں سے تلاش کر کے کئی عناصر ڈھونڈ ڈھانڈ کر ناولوں میں زبردستی ٹھونس دیتے ہیں تا کہ قاری پہ معلومات کا رعب ڈال کر اسے دانستہ طور پہ مرعوب کیا جائے بڑھانا چاہتا ہے۔ اس لیے اس قاری کو بھی یہ ناول پڑھنے سے گریز کرنا چاہیے جو اس ناول میں گوگل پر دستیاب میٹریل جیسی چیزیں دیکھنا چاہتا ہے۔
رفاقت حیات کا ناول خالصتاً انسانی تجربے کا اظہاریہ ہے اور چونکہ یہ Frist person singular میں لکھا گیا ہے اور ناول کا راوی تقریباً بیس سالہ قادر نامی لڑکا ہے اس لیے اس سے انسانی نفسیات کے پیچیدہ مسائل اور سیاسی فلسفہ بگھارنے کی امید رکھنے والے حضرات کی توقعات پر بھی یہ ناول پورا اترتا دکھائی نہیں دیتا۔
ناول کا بیان اتنا ہی سادہ ہے جتنا سادہ خود اس کا مرکزی کردار قادر ہے۔ ناول کے پس منظر میں تاریخی شہر ٹھٹھہ اور سندھی مزاج رکھنے والی معاشرتی زندگی کو فوکس کیا گیا ہے، اس لیے اس کا ٹائٹل بھی سندھی لفظ ”رولاک“ ہے جو کہ سندھی میں آوارہ گرد کو کہتے ہیں۔ جس لڑکے کی تعلیم ادھوری رہ گئی ہو اس سے کسی قسم کے فلسفے کی توقع رکھنا ویسے ہی فضول ہے مگر بلوغت کی عمر سے وابستہ تمام سادہ و پیچیدہ جنسیاتی، جذباتی و نفسیاتی تجربات کا ذکر اس کردار نے عام فہم زبان میں کیا ہے۔
بلوغت کی عمر کو سمجھنا، لکھنا اور عمر کے اس جہنم کے اندرون خانہ بہشت بریں کے خواب کی خود ساختہ تعمیر کو انتہائی موضوعی انداز میں برتنے کے لیے جو ٹھہراؤ اور دھیرج درکار ہے اسی میں رائٹر کے تخلیقی اور تخیلی توازن اور اس کے فن کارانہ کمال کا علم ہوتا ہے۔ یہ ناول نگار کردار پہ زبردستی اپنے فن کا تجربہ کرنا غیر ضروری سمجھتا ہے، اسی لیے ناول کا کردار ان کی تخلیق ہونے کے باوجود وہ خود اپنے کردار کے تابع دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ رفاقت نے دانستہ طور پر یہ راستہ اختیار کیا یا ان کا کردار ان پر حاوی ہو گیا مگر میں رفاقت کو داد دیے بغیر رہ نہیں سکتی کہ رفاقت نے سستے سگریٹ کی طرح اسے جلدی میں ختم کرنے کے بجائے اسے مکمل طور پہ جلنے کڑھنے کی آزادی دے دی ہے۔ اکثر اوقات رائٹر ناول کی کامیابی یا ناکامی کے خوف اسے سمیٹ کر رکھتا ہے نتیجتاً ناول کی تراش خراش میں اکثر اوقات کردار کی زندگی بھی اس عمل کی زد میں آجاتی ہے۔


تو رفاقت کا ناول رولاک پڑھنے کے لیے ایک خاص مزاج کا ہونا ضروری ہے اور قاری کے لیے لازم ہے کہ وہ سستے اور جلدی چڑھنے والے نشے کا عادی نہ ہو بلکہ وہ دھیرے دھیرے پڑھنے، سمجھنے اور تجزیہ کرنے کا ہنر جانتا ہو اور اسے کردار کے ساتھ چلنا بھی آتا ہو۔ ایسا قاری یقیناً جب ”رولاک“ پڑھے گا تو وہ قادر کو اپنے بچپن اور لڑکپن کے ساتھ بڑا ہوتا ہوا نہ صرف سمجھے گا بلکہ وہ اس کے سن بلوغت کی پیچیدگیوں کو سمجھتا ہوا آگے بڑھے گا۔
یہ ناول ضخیم ہے، اس لیے کہ کردار اپنی جزئیات کے ساتھ بڑا ہو رہا ہے، پروان چڑھ رہا ہے۔ اس میں اس کے ایک ایک قدم کا ذکر ہے۔ اس میں چائے کے ایک ایک گھونٹ اور سگریٹ کے ایک ایک کش کا ذائقہ شامل ہے۔ ٹھٹہ کی گلیوں میں پیروں پہ گرد صاف نظر آتی ہے تو حالی روڈ کے ورکشاپ پہ گاڑی ٹھیک کرتے اس کے میلے کچیلے کپڑوں سے آئل کی بو چرس کے سگریٹ کے دھویں کے ساتھ نتھنوں میں گھستی محسوس ہوتی ہے۔
ہمارے سماج میں بلوغت ایک خوشگوار احساس کے بجائے عذاب کی طرح اترتی ہے۔ جنسی خواہش کسی بھی رومانوی و تخلیقی انداز میں پروان چڑھنے کے بجائے بدبودار لیٹرینوں کی نذر ہو جاتی ہے۔
رولاک کی کہانی درحقیقت پدرسری طاقت تلے کچلے ہوئے ننھے سے وجود کی کہانی ہے جس میں جنس و محبت کی ناآسودگی کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس ناول میں کافکا کا سا متن نہیں مگر کافکا والا جہنم ضرور ہے جو قادر کے دل و دماغ میں ہر وقت باپ کے خلاف شدید نفرت کی صورت نظر آتا ہے۔
باپ کی بے پناہ جنسیت اور بے راہ روی اس کی شخصیت کی تشکیل کا اہم ترین جزو ہے مگر فرائیڈ کے ایڈی پس کامپلیکس کے تصور میں ماں سے محبت والے تصور کے بجائے اسے ماں سے شکایت ہے کہ وہ بغاوت کے بجائے باپ کے تشدد اور ظلم و ستم کو سہنے میں عافیت سمجھتی ہے۔ اس لیے ماں اس کی محبوبہ نہیں، ہمدردی کے باوجود وہ ماں سے محبت کرنے سے قاصر ہے کہ ماں چپ چاپ سہنے والا passive کردار ہے جبکہ وہ تمام عورتیں جو اس کی خیالی یا حقیقی محبوبائیں ہیں، اس کا باپ اپنی جنسی طاقت کے بل بوتے پر اس سے وہ سب ہتھیا لیتا ہے، اس عمل میں ان عورتوں کی خوشی خوشی سپردگی والی کیفیت بھی شامل ہے۔ بلوغت اور جنسی شہوت کی ایروٹک ہیجانیت کے بجائے سادہ اظہاریے نے ہو سکتا ہے قاری کو مایوس کیا ہو مگر قادر کے کردار سے اس ہیجانیت کی توقع رکھنا یوں بھی غیر فطری ہوتا کہ اس کی اپنی شخصیت والد کی بے پناہ جنسیت اور فتح کرنے والی طاقت کے زیر اثر بزدلانہ طور پہ شکست خوردہ اور دبی ہوئی ہے، اس لیے محبوبہ اور اس کی ماں کے لیے اس کی نظر میں فرق ہے۔ محبوبہ کے برعکس ماں کا جسم اس کی شہوت کو جگاتا تو ہے مگر اس کا اظہار کسی بھی مقام پر ہیجان خیز معلوم نہیں ہوتا۔
قادر کے پاس محبت اور جنسیت سے زیادہ طاقتور نفرت کا جذبہ ہے جو ہر وقت اس کے دل و دماغ پر غالب رہتا ہے۔ بیک وقت پدرانہ رقابت اور نفرت میں گھلتا یہ کردار بلوغت کے مراحل کو فطری طور پار کرنے کے بجائے اس میں جو بھی رکاوٹیں ہیں وہ انہیں اپنے باپ کی طاقت کے بے پناہ غلبے کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ یہاں ”رولاک“ کا قاری محض receptive نہیں ہے اس کو قادر کی اس جنسی، ذہنی و نفسیاتی صورتحال کو سمجھنا ہے جس کو قادر کا سادہ اظہار سمجھانے سے قاصر ہے اس لیے جو قاری اس متن میں قادر کی نفسیاتی کشمکش اور اس کے خوف حصہ نہیں بنتا اس کو یہ ناول کافی بور کر سکتا ہے۔
”رولاک“ سندھ کے پس منظر میں ہونے کے باوجود کافکا کے ساتھ ایک طرف روسی ناول نگار دوستوفسکی کے ناول ”ذلتوں کے مارے لوگ“ کی یاد تازہ کرتا محسوس ہوتا ہے تو آپ اس کو سوشل ریئلزم کے خانے میں فٹ کر دیتے ہیں مگر دوسرے لمحے میں رولاک میں آپ کو سندھی رائٹر مانک کی ”لڑھندڑ نسل“ کی پرچھائیاں نظر آنے لگے گی، ویسے میر واہ کی راتیں پہ بھی مجھے مانک کا اثر نظر آیا تھا مگر مانک جس طرح صرف فرائیڈین سائیکو اینالسز کے لینس سے ہی پڑھے جا سکتے ہیں مجھے رولاک میں بظاہر یہ معاملہ دکھائی نہیں دیتا مگر قادر کے کردار کی اندرونی تہیں کھلنے سے ہو سکتا ہے اس قسم کی جنسیت ہی برآمد ہو جائے۔
رولاک میں جنسیت کا عنصر، فرد کے اندر موجود جنسی خواہش کے فرائیڈئن تصور سے آگے سفر کرتا نظر آتا ہے۔ یہاں جنسی طاقت بطور سماجی طاقت کے اظہار کے طور پر سماج کی دبیز اور خفیہ پرتیں کھولتی نظر آتی ہے۔ ہمارے سماج میں جنسی عمل فرد کے شخصی انتخاب کے مسئلے سے زیادہ سماجی اخلاقیات کی تہہ در تہہ پرتوں میں چھپا ہوا ہے۔ بالغوں کی عالم آشکار مگر خفیہ مشت زنی کی علت بازی سے لے کر ہیجڑوں اور ہم جنس لڑکوں سے جفتی کرنے کا جنسی عمل جب تک خفیہ اور فرد تک محدود رہتا ہے تب تک اس کو جنسی کج روی قرار دیتے ہوئے سماج بھی خاموش رہتا ہے مگر جنسی بے باکی ہمارے سماج میں ایک ناقابل معافی جرم ہے۔
قادر کی مسلی ہوئی شخصیت اور دبی کچلی جنسی خواہش، مشت زنی وغیرہ فرد کی جنسیت ہے اور بے ضرر ہے مگر اس کے والد کی بے باکانہ جنسیت اور زناکاری نے بازار کے لوگوں کو حسد اور جنسی رقابت کا شکار بنایا کہ وہ چکلوں کی طرف چھپ کر جاتے تھے جب کہ یہ ان کی آنکھوں کے سامنے بھرے بازار میں معاشقے لڑاتا اور وہیں کرائے کے کمروں میں رنڈیوں کے ساتھ عیاشیاں کرتا رہتا تھا۔ یہ جنسی رقابت اس وقت نکتہ عروج پر پہنچتی ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ جس نوراں ناچنی کا ناچ دیکھنے کے لیے وہ تڑپتے رہتے ہیں، وہ خود چل کر اسی بازار کے کمرے میں قادر کے باپ سے مباشرت کرنے آتی ہے۔ تو بازار کے دکان داروں کو غصہ زناکاری پر نہیں آتا بلکہ قادر کے باپ کی اس جنسی طاقت پر آتا ہے جو نوراں کو گھارو چھوڑ کر ٹھٹہ کے بازار میں اس کے کرائے کے کمرے تک کھینچ کر لاتی ہے۔ جنسی رقابت کا یہی جذبہ اس وقت بالکل ٹھنڈا رہتا ہے جب بوڑھا قاضی، زناکاری کے جرم میں قادر کے باپ کا منہ کالا کر کے، اسے گدھے پر بٹھا کر شہر بھر میں گھمانے کے بعد اپنے تقریباً ناکارہ ہو چکے اعضا کے باوجود وہ قاضی نوراں رنڈی کو اپنے ساتھ اپنے حجرے میں لے جاتا ہے۔ قادر کے والد کے مقابلے میں قاضی چونکہ بوڑھا ہے اس لیے اس کی غیر فعال جنسیت والا گناہ معاشرے کے لوگوں کے لیے درگزر کیے جانے کے قابل ہے۔ فردی جنسیت چاہے وہ کج روی کا شکار ہی کیوں نہ ہو سماجی منافقانہ اخلاقیات کے کیے کوئی خطرہ نہیں بنتی مگر بے باک، فعال اور آزادانہ جنسیت سماجی اخلاقیات کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیتی ہے۔
رفاقت حیات نے اپنے ناول ”رولاک“ کو بظاہر کسی بھی معاشرتی اور جنسی نظریے کے ابلاغ کا ذریعہ نہیں بنایا اور نہ ہی اس میں کسی لمبی اور طویل بحث جیسی کوئی گہرائی موجود ہے مگر ناول کی ضخامت میں موجود جزئیات کے سادہ بیان میں ایک فرد کی سماجی جنسی طاقت کے تمام اظہاریے اپنی گہرائی اور شدت کے ساتھ موجود ہیں، جن کی وجہ سے ہماری معاشرتی اخلاقیات کی منافقانہ روش پوری طرح بے نقاب ہوجاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments