مرد کی دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی کیا کرے؟


مانا کہ شرعی اجازت ہے مرد صاحبان کو کہ جب چاہئیں لائیں دوسری، تیسری اور چوتھی بھی۔

لیکن کیا یہ سب کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا نظر آتا ہے یا سمجھا جاتا ہے۔ اس معاملے کو ایک ایسے لینز سے دیکھا جا سکتا ہے جو پدرسری نظام کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

مرد اور عورت جب ایک گھر کی بنیاد رکھتے ہیں تو پہلا تصور یہ ہے کہ دونوں کے بیچ انسیت تو ہو گی ہی۔ محبت کا نام ہم نہیں لیتے کہ محبت کے معیار پہ پورا اترنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

انسیت کے ساتھ ساتھ اس رشتے کی بنیادی اکائی یہ بھی ہے کہ دونوں اس رشتے سے مخلص ہوں۔
کس حد تک اور کیوں؟

کیونکہ وہ دونوں جس چھت کے نیچے جسمانی اور جذباتی تعلق بنا کر جن بچوں کو پیدا کرنے جا رہے ہیں، وہ کسی بھی مشکل پیدا ہونے کے نتیجے میں متاثرین میں شامل ہوں گے اور یہ ذمہ داری ماں باپ پہ ہو گی کہ انہوں نے بچوں کی ذہنی اور جذباتی نشوونما کو متاثر کیا۔

مخلص ہونے کا سب سے بڑا عنصر سچائی اور ایک دوسرے کے سامنے شفاف انداز سے زندگی بسر کرنا ہے۔ کوئی بھی بات معمولی ہو یا سنگین، اگر دوسرے سے چھپا کر رکھی جائے اور کچھ ایسا کیا جائے جو ساتھی کو قبول نہ ہو، ایک کو دوسرے کا مجرم بنائے گا۔ دھوکا دہی وہ زہر ہے جو اس رشتے کو نہ صرف بدصورت بناتا ہے بلکہ دونوں کی راہ بھی کھوٹی کرتا ہے۔

اس کو یوں سمجھیے کہ اگر دونوں میں سے کوئی ایک اپنے ساتھی کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کرتا ہے تو دھوکہ دہی کا ارتکاب کرنے والا ہی ذمہ دار ہے۔

یہاں اس بات کو مان لینا چاہیے کہ وہ شخص دھوکہ باز نہ سمجھا جاتا اگر وہ اس صورت حال کو اپنے ساتھی کے سامنے رکھتے ہوئے اسے صاف صاف بتاتا:

سنو، مجھے کسی اور سے محبت ہو گئی ہے۔
سنو میں اپنی زندگی کسی اور کے ساتھ گزارنا چاہتا/ چاہتی ہوں۔
سنو، ہم دونوں اب مزید ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔
سنو، ہمیں اس رشتے کو ختم کر دینا چاہیے۔

زبردست بات یہ ہے کہ اس سوچ اور نظریے کو مذہب بھی قبول کرتا ہے۔ ماں کے پیٹ سے اکٹھے تو آئے نہیں کہ جدا نہ ہو سکیں۔ ویسے آج کل تو وہ بھی مشکل نہیں رہا کہ نظریاتی طور پہ مختلف لوگ اپنے خونی تعلق کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے اپنی اپنی زندگی جیتے ہیں۔

سو وہ دونوں جو مختلف گھروں میں پرورش پاکر قانونی طریقے سے اکٹھے ہوئے ہیں وہ اسی قانون کے ذریعے علیحدہ بھی ہو سکتے ہیں۔

کیا ہے اس میں اچنبھے کی بات؟
لیکن پدرسری نظام کے لئے بات ہے اور سنگین ہے۔

مرد پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری عورت کی زلف کا اسیر ہو جائے اور پہلی بیوی کو اندھیرے میں رکھے، پدرسری نظام قطعاً خاموش رہتا ہے۔

مرد پہلی بیوی موجود ہوتے ہوئے دوسری سے خفیہ شادی کرے اور پہلی سے جھوٹ بولتا رہے، پدرسری نظام پھر بھی نہیں بولتا۔

مرد جب دوسری شادی کا اعلان کرتے ہوئے یہ بتائے کہ وہ تو ایک بچے کا باپ بھی بن چکا ہے، پدرسری نظام کے کان پہ جوں نہیں رینگتی۔

مرد پہلی بیوی کو گھر سے باہر کرے، لیکن طلاق دے کر آزاد نہ ہونے دے، تب بھی یہ نظام اونگھتا رہتا ہے۔
لیکن اس نظام کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے جب پہلی بیوی سوال و جواب کا سلسلہ شروع کرے،
تم نے دوسری شادی سے پہلے بتایا کیوں نہیں؟
( پاکستانی قانون کے تحت آپ اس کے پابند ہیں )
جب تمہیں کسی اور عورت سے محبت ہوئی مجھ سے جھوٹ کیوں بولا؟
میں بچوں اور گھر کو سنبھالتی رہی اور تم نے وہ وقت دوسری عورت کے ساتھ گزارا۔ کیوں؟
اب میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔

لیجیے جناب، عورت کے منہ سے یہ الفاظ مرد پہ برق بن کر گرتے ہیں۔ کیوں؟ یہ عورت جو میری بیوی ہے فیصلہ کرنے کی مجاز کیوں؟

اتنی جرات؟

میں مرد ہوں اور مانا کہ کچھ تھوڑا سے جھوٹ اور تھوڑی سی دھوکہ دہی کا مرتکب ہوا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ یہ عورت جمی جمائی گرہستی توڑ دے۔

مرد بچہ ہوں، دو دو گھر با آسانی چلا سکتا ہوں پھر کیوں توڑے یہ اس رشتے کو؟ کیوں نکلنے دوں میں اسے اس پنجرے سے؟ کیوں ہو اس کی زندگی اس کے اپنے ہاتھ میں؟

نہیں میں اسے علیحدہ نہیں ہونے دوں گا۔
سنو میں تم سے محبت کرتا ہوں۔
محبت؟ مجھ سے محبت اور وہ دوسری؟
ہو گئی محبت اس سے بھی۔ مرد کر سکتا ہے بار بار محبت۔

اور عورت۔ کیا وہ نہیں کر سکتی بار بار محبت۔ کسی اور مرد سے۔ تنہائی کے ان پہروں میں جب تم دوسری عورت کے ساتھ تھے۔

سنو تمھیں مجھ سے محبت نہیں۔ یہ تو تمہاری زخمی ایگو ہے جو تمہیں اکساتی ہے کہ مجھے اپنے چنگل سے باہر نہ نکلنے دو۔ بیک وقت دو عورتوں کو اپنے دام الفت میں پھنسا کر رکھو۔ وہ سب جھوٹ جن کے سہارے تم عرصہ دراز دوسری عورت کے ساتھ وقت گزارتے رہے اور پھر بیاہ رچایا، کیا وہ جھوٹ وقت کے صفحات سے مٹ جائیں گے؟ شکستہ آئینۂ دل کیا پہلے سا ہو جائے گا؟

نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔

میں وہ عورت نہیں ہوں جو برسوں پہلے تمہاری محبت کے سہارے اپنی زندگی تمہیں دینے آئی تھی۔ اس محبت کو تم نے جھوٹ اور دھوکہ دہی سے داغدار کر دیا۔ وہ داغ اب چھٹ نہیں سکتے۔

مجھے بقیہ زندگی اپنے بچوں کے سہارے کاٹ لینے دو۔ میرا آسمان اب وہ نہیں جو تمہارا ہے۔ عورت شوہر کے بعد اگر محبت کرتی ہے تو اس شوہر کے نطفے سے پیدا ہونے والے بچوں سے۔

لیکن بھنورا صفت مرد کو بار بار محبت کے نام پہ ایک نئی عورت کو فتح کرنا ہوتا ہے۔
سو تمہیں تمہاری نئی فتوحات مبارک۔ میں تمہارا مفتوحہ علاقہ بننے پہ تیار نہیں۔
پدرسری نظام غیض و غضب سے کھولتے ہوئے اپنے بال نوچ رہا ہے۔
لیکن مسئلہ کیا محض اتنا ہی ہے؟
کیا تعلق میں اس دراڑ کا بچوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا؟

کیا دوسری عورت کے ساتھ ایک الگ گھر میں رہنے والا اور ان کی ماں کو نا انصافی کا شکار بنانے والا اپنے بچوں کا مجرم نہیں ہوتا؟

کیا وہ ان کا پدری حق نہیں مارتا؟
کیا پدری حق محض اخراجات پورے کرنے پر ختم ہو جاتا ہے؟
کیا بچوں کو ماں باپ دونوں کی شفقت اور غیر مشروط قربت درکار نہیں ہوتی؟
کیا بچوں کی ماں سے جھوٹی محبت کے اظہار سے بچوں کی ذہنی حالت ابتر نہیں ہوتی؟
کیا ماں کے متعلق لوگوں کی کھسر پھسر اور تنقید بچوں کو اینگزائٹی میں مبتلا نہیں کرتی؟
لیکن جہاں ماں محفوظ نہ ہو، اسے ہی انسان نا سمجھا جائے، وہاں بچوں کی کیا اوقات!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments