فوج کی طرف سے آئینی حدود کا احترام اور آزادی اظہار کا حق


آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے آئینی حدود پر پابندی کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یوں تو کسی بھی فورس کے سربراہ کو کسی تقریر یا بیان میں یہ یقین دلانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ آئین کا احترام کرتے ہیں کیوں کہ انہوں نے آئین پر عمل کرنے کا حلف لیا ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں فوج کے سیاسی کردار کے حوالے سے اس بارے میں بدگمانیاں موجود رہی ہیں۔

ان شبہات کو خاص طور سے اس وقت تقویت ملی جب جنرل عاصم منیر کے پیشرو جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے اپنے عہدے کے آخری دنوں میں یہ اعلان کیا کہ فوج اب سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ بادی النظر میں اس بیان سے یہی نتیجہ اخذ جا سکتا ہے کہ فوجی قیادت اس سے پہلے سیاسی معاملات میں دخیل رہی ہے لیکن حالات سے مجبور ہو کر یا اپنے غلط فیصلوں کے برے نتائج سے تائب ہو کر مستقبل میں سیاسی معاملات سے گریز کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ جنرل باجوہ کے غلط ’سیاسی فیصلوں‘ کے بارے میں عام طور سے بات ہوتی رہتی ہے۔

ملکی معاملات میں یہ امر مسلسل متنازعہ ہے کہ دو بڑی پارٹیوں کو کمزور یا سیاست سے باہر کرنے کے لیے متعدد فوجی جرنیلوں نے تیسری سیاسی قوت کھڑی کرنے میں جو کردار ادا کیا تھا، وہ کس حد تک فوج کی آئینی حدود کے مطابق تھا۔ البتہ اس پر مزید بحث کی گنجائش اس لیے ختم ہوجاتی ہے کہ جنرل باجوہ خود ہی فوج کو سیاست سے علیحدہ کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے اس حقیقت کا بالواسطہ طور سے اعتراف کرچکے ہیں کہ سیاسی معاملات میں فوج کی دخل اندازی خواہ کیسی ہی نیک نیتی سے کی جائے، وہ مثبت اور سود مند نہیں ہو سکتی۔ جنرل باجوہ کے اعتراف حقیقت کے علاوہ ماضی میں متعدد فوجی آمروں کے ماورائے آئین حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد ملک کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا، ان سے بھی اسی حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے۔

اب جنرل باجوہ نے مبینہ طور پر شادی کی ایک تقریب میں پاکستان کے ایک سینئر صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے دور کے بعض اہم معاملات سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے اور حلفاً کہا ہے کہ ان کا بعض ایسے معاملات یا فیصلوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا جن کے ملکی سیاست پر دوررس نتائج مرتب ہوئے۔ ان میں ایک فیصلہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں نواز شریف کو بیماری کی وجہ سے علاج کے لیے بیر ون ملک جانے کی اجازت دینے سے متعلق تھا۔ جنرل باجوہ کو عہدے سے سبک دوش ہونے کے بعد شاید یہ ’حلف‘ اٹھانے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی اگر وہ فوج کے سربراہ کے طور پر صرف یہ اعلان کرنے کی بجائے کہ اب فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی، یہ اعتراف کرتے کہ ان کی قیادت میں فوج نے سیاسی معاملات میں کون سی اور کیا مداخلت کی تھی جن کی وجہ سے بالآخر اب فوج کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ سیاست سے دور رہے گی۔

فوج ایک منظم عسکری ادارہ ہے۔ اسے جمہوری بنیاد یا روایت کی بجائے ڈسپلن اور کمانڈر کے احکامات بجا لانے کے اصول پر چلایا جاتا ہے۔ بلکہ دنیا کی ہر عسکری فورس اس اصول کی بنیاد پر ہی استوار ہوتی ہے ورنہ دفاعی امور میں موثر طریقے سے کام نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی سیاست میں فوجی مداخلت کا طریقہ دیکھنے میں آیا، اس کی ذمہ دار اس کے سربراہ پر ہی عائد ہوتی رہی ہے۔ اس کی کمان میں کام کرنے والے دیگر اعلیٰ عہدیدار اور جوان کبھی بھی اپنے کمانڈر کے فیصلہ سے اختلاف نہیں کر سکتے۔ ان کی تربیت کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ ہر حکم بجا لائیں اور اس کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں فیصلہ نہ کریں۔ یہ ممکن ہے کہ بعض نائبین اپنے سپہ سالار کے فیصلوں سے مطمئن و متفق نہ ہوں لیکن وہ سروس میں رہتے ہوئے اس حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔

سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے جب سیاست میں فوج کے تعلق کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا تو ان کے لیے لازم تھا کہ وہ ایسے غلط فیصلوں کے لیے اپنے آپ کو فوج کے خود احتسابی نظام کے حوالے کرتے تاکہ متعلقہ فورم یہ جائزہ لے سکتا کہ کیا جنرل باجوہ نے آئین کی پاسداری کے حلف سے تجاوز کیا تھا۔ اور کیا انہیں اس بے اعتدالی پر کوئی سزا ملنی چاہیے۔ جنرل باجوہ اگر یہ حوصلہ کرلیتے تو انہیں اب جیب میں قرآن رکھ کر کسی ایسے صحافی کی تلاش نہ رہتی جس کے ذریعے وہ قوم کو اپنی ’بے گناہی‘ کا یقین دلا سکتے۔ اسی طرح ملک میں اگر کوئی ایسا مستحکم نظام حکومت یا عدالتی طریقہ کام کر رہا ہوتا جو کسی بھی ادارے یا فرد کی طرف سے غیر آئینی کردار کے ’اعتراف‘ کا نوٹس لے کر اس سے جواب طلب کر سکتا تو بھی اب نہ تو جنرل باجوہ کو صحافی کے پاس حلف اٹھانا پڑتا اور نہ ہی موجودہ آرمی چیف کو یہ اعلان کرنا پڑتا کہ فوج کو اپنی آئینی حدود کی خبر ہے۔

رسالپور میں پاکستان ائرفورس کے کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 میں واضح طور پر آزادی اظہار اور اظہار رائے کی حدود متعین کی گئی ہیں۔ جو لوگ آئین میں دی گئی آزادی رائے پر عائد کی گئی واضح قیود کی برملا پامالی کرتے ہیں، وہ دوسروں پر انگلیاں نہیں اٹھا سکتے۔ ہم اپنی آئینی حدود بخوبی جانتے ہیں اور دوسروں سے بھی آئین کی پاسداری کو مقدم رکھنے کی توقع رکھتے ہیں‘ ۔ پاکستان کے پس منظر میں آرمی چیف کی ایسی یقین دہانی مثبت اور قابل تحسین ہے۔ اس بیان سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ فوج کے سربراہ ان آئینی حدود کو عبور کرنا غلط سمجھتے ہیں جنہیں پامال کر کے ماضی کے فوجی سربراہوں کو پریشانی اور خفت کا سامنا کرنا پڑا۔

البتہ اس یقین دہانی کو دوسرے عناصر کی طرف سے بھی آئین کی پاسداری سے مشروط کرنا غیرمناسب طریقہ ہے۔ خاص طور سے آرمی چیف نے پاک فوج کی آئینی حدود کا ذکر کرتے ہوئے آزادی رائے کی حفاظت کے لیے آئینی شق 19 کا حوالہ دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ملک میں آزادی رائے کا حق مقررہ حدود و قیود میں رہتے ہوئے ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات درست ہونے کے باوجود یہ باور کرانا بھی ضروری ہے کہ کسی آزادی پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کا تعین کرنے کے لیے ملک میں عدالتی نظام موجود ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ متعدد مواقع پر اظہار رائے کی حفاظت کا عزم ظاہر کرچکے ہیں۔ بلکہ چیف جسٹس کے خلاف میڈیا مہم جوئی پر جب حکومتی اداروں نے بعض یوٹیوبرز کو گرفتار کیا اور ان کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا گیا تو چیف جسٹس نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔

دنیا بھر میں آزادی رائے کی بحث ایک اہم اور حساس موضوع ہے۔ سویڈن میں قرآن سوزی کے واقعات کو ’آزادی رائے‘ قرار دینے اور اس کے خلاف اسلامی ممالک کے احتجاج سے رائے کے اظہار پر حدود و قیود کی بحث کا نیا زاویہ سامنے آتا ہے۔ پاکستان میں اگرچہ رائے کی ایسی شدت پسندانہ آزادی کا نہ تو اظہار ہوتا ہے اور نہ کوئی بھی حلقہ اس پر اصرار کرتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ تسلیم کرنا اہم ہے کہ رائے کے اظہار کے آئینی حق کی حفاظت میں خلل نہ ڈالا جائے اور حدود و قیود کے بارے میں نہایت محتاط رویہ اختیار کیا جائے۔ اسی طرح ملک میں جمہوری اقدار مستحکم ہوں گی اور قومی امور کے بارے میں متنوع اور کثیر الجہتی مباحث دیکھنے میں آئیں گے۔

کوئی بھی ذمہ دار شہری ذاتی حملوں، بے بنیاد الزامات اور اداروں یا افراد کو بدنام کرنے کے لیے نفرت انگیز مہم جوئی کی تائید نہیں کر سکتا۔ اس وقت فوج کو اس ناگوار صورت حال کا سامنا ہے۔ آرمی چیف کے آئینی حدود اور آزادی رائے کے محتاط استعمال کے بارے میں بیان کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ البتہ جنرل عاصم منیر کو بھی یہ احتیاط کرنی چاہیے کہ ان کے بیان کو نہ تو سیاسی مباحثہ کا حصہ سمجھا جائے اور نہ ہی یہ اس بات کا اشارہ قرار پائے کہ فوج ملک میں سیاسی آزادی اور بنیادی حقوق فراہم کرنے کے مطالبے کے خلاف ہے یا اس میں رخنہ ڈالنا چاہتی ہے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں فوج پر آئینی خلاف ورزی کا الزام عائد کرنا آسان ہو جائے گا۔

8 فروری کے انتخابات اور ان کے بارے میں دھاندلی کے الزامات کی روشنی میں اس وقت ملک کے مختلف سیاسی دھڑے باہم دست و گریباں ہیں۔ انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار سنبھالنے والے سیاسی گروہ انتخابات کو شفاف اور عوامی مرضی کا پرتو کہتے ہیں جبکہ ان نتائج کو مسترد کرنے والے اسے دھاندلی زدہ اور جعل سازی قرار دے کر موجودہ حکومت کو غیر نمائندہ سمجھتے ہیں۔ واضح رہے یہ الزامات صرف تحریک انصاف کی طرف سے عائد نہیں ہو رہے بلکہ دیگر متعدد پارٹیاں بھی یہی احتجاج کر رہی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اس کے لیڈر مولانا فضل الرحمان تو قومی اسمبلی میں انتخابی نتائج کو اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کا نتیجہ قرار دے چکے ہیں۔ اب وہ ملک بھر میں انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حالانکہ مولانا ماضی میں فوج کے دست و بازو رہے ہیں اور اسٹبشلمنٹ کے تعاون سے حکومتیں بنانے یا گرانے کے کھیل میں بھی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

تحریک انصاف دھاندلی کے تمام تر الزامات کے باوجود قومی اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ سانحہ 9 مئی کی وجہ سے فوج کو اس پارٹی کے ساتھ شدید مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور پارٹی کی شدید خواہش کے باوجود عسکری ادارے اور تحریک انصاف میں سلسلہ جنبانی شروع نہیں ہو پایا۔ ملکی آئین کے مطابق فوج کا سیاسی امور سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ اس لیے فوجی قیادت کو سیاسی پارٹیوں سے کسی بھی قسم کا رابطہ رکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ اب آئینی حدود کی پاسداری کا یقین دلاتے ہوئے فوج کے سربراہ کو یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ فوج اور تحریک انصاف کے درمیان ’دوریاں‘ کسی ناراضی کا نتیجہ نہیں ہے ہیں بلکہ ان کی قیادت میں اب فوج آئین پر عمل کرتے ہوئے سیاسی عناصر سے مواصلت اور سیاسی معاملات سے اجتناب کا حتمی فیصلہ کرچکی ہے اور اس پر عمل کر رہی ہے۔

جنرل عاصم منیر اگر یہ یقین دہانی کرا سکیں تو جلد یا بدیر پاکستانی عوام کو ماننا پڑے گا کہ جنرل عاصم نے آئینی حدود کا احترام کرنے کا وعدہ پورا کیا ہے۔ بصورت دیگر شکوک و شبہات اور الزام تراشی کا ماحول کبھی ختم نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2789 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments