کارل مارکس: تاریخ کا دیدہ ور اور سماجی انصاف کا علم بردار


فلسفہ دانوں نے دنیا کے نظاموں کی بہت سی شرحیں کیں ہیں، مگر  کلیدی بات اس دنیا کو بہتر بنانے کا عمل ہے۔ یہ قول کارل مارکس کا ہے (پیدائش 5 مئی 1818۔ وفات 14 مارچ 1883 ) جو لندن کے ہائی گیٹ قبرستان میں ان کے لوح مزار پر کندہ ہے۔ یہ الفاظ انسانی تاریخ کے مستقبل کا قطبی ستارہ ہیں۔ اس بنا پہ کارل مارکس کا نام دنیا کے عظیم ترین مصلحوں اور دیدہ وروں میں بلند تر ہے۔ مارکس نے علمیات اور عملی دائرہ کار میں نا انصافی اور طبقاتی ناہمواری کی زنجیروں میں جکڑے انسانوں کو آزادی دلوانے کا نظریہ پیش کیا۔ مذاہب عالم ہمیشہ سے انصاف اور آزادی کا بول بالا کرنے کے وعدے وعید کرتے رہے ہیں مگر وہ آخرت اور اگلے جہان کی بات کرتے ہیں۔ اس اگلے جہان میں حیات جاوداں اور امن و آشتی کی باتیں بقول شاعر، ع: خدا کی باتیں خدا ہی جانے۔

مارکس اسی دنیا میں عام انسان کی بھلائی اور بہتری کا خواب دیکھتا ہے۔ مارکس کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر تو نہیں ہو سکا مگر گلوبلائزیشن کی سونامی کے اس دور میں مارکس نے مستقبل میں انسانوں کی زندگیوں کو بہتر کرنے کے جو خواب دیکھے، ان خوابوں کو زندہ رکھنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ مارکس کے افکار دیوانے کا خواب نہیں، ان کے پیچھے پوری انسانی تاریخ کا فلسفیانہ تجزیہ ہے۔ جسے تاریخی مادیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

مارکس کے تاریخی مادیت کے فلسفے نے پچھلے 150 سال میں بہت سے سیاسی اور سماجی مباحث کو جنم دیا ہے۔ پیشتر اس سے کہ مارکس کے حوالے سے ان علمی، نظریاتی اور عملی مباحث پہ بات کی جائے، ایک بنیادی بات کی طرف نشان دہی ضروری ہے۔ مارکس کے افکار کو مستقبل کی دھند میں لپٹے کمیونزم تک محدود کرنا کچھ ناروا ہے کیوں کہ مارکس نے اپنے ہزاروں صفحات میں کمیونزم کے خد و خال پر بات شاید دس پندرہ صفحات سے زیادہ نہیں لکھا۔ اس کے بر عکس مارکس تاریخ کے تناظر میں مادی پیداوار اور اس سے متعلقہ سماج اور سیاست کی جراحی کرتا ہے۔ مارکسی فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسانی معاشرے زینہ زینہ چلتے ہوئے تاریخ کے موجودہ مقام پر آن کھڑے ہوئے ہیں۔ تاریخ کی اس سٹیج کا نام کیپٹل ازم ہے۔ سماجیات میں نظریے کو ازم کا نام اسی وقت دیا جاتا ہے جب اس میں تاریخ، کلچر اور سوسائٹی کی تشریح کے پیمانے موجود ہوں۔ مارکس کا تجزیاتی نظام کیپٹل یا سرمائے کی فکری، سماجی اور سیاسی جہات کا تجزیہ ہے جو مارکس سے پہلے آنے والے فلسفہ دانوں کی نظروں سے اوجھل رہا۔

آج کی علمی دنیا میں مارکس کا مقام وہی ہے جو نفسیات میں فرائیڈ اور فزکس میں نیوٹن کا ہے یعنی نفسیات فرائیڈ سے پہلے اور فرائیڈ کے بعد ۔ اسی طرح فزکس نیوٹن سے پہلے اور نیوٹن کے بعد ۔ بات کچھ یوں ہے کہ فرائیڈ سے پہلے بھی لوگ خواب دیکھتے تھے اور ان کے ظاہری رویوں میں لاشعور کی کارفرمائیاں رہتی تھیں۔ نیوٹن نے سیب کے زمین پر گرنے سے کشش ثقل کی تھیوری کو دریافت کیا۔ ان اصحاب دانش کی تھیوریوں کی وجہ سے ہمیں انسانی رویوں کے خد و خال اور مادی اجسام اور اشیاء کی حرکت کو اصولوں کا ادراک ہوا۔ فرائیڈ اور نیوٹن کی مثال کے بعد ہمیں تاریخ نویسی کے باب میں مارکس کی اہمیت کا اندازہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ اور آگے چل کر سرمائے سے متعلق مارکس کے دو ایک دیگر افکار کا ذکر بھی ہو گا۔

مارکس سے پہلے لکھی جانے والی تاریخ واقعات کے بیان اور بادشاہوں کے قصہ کہانیوں اور شجاعت کی قصیدہ گوئی سے زیادہ نہ تھی۔ مارکس نے تاریخ نویسی کا نیا طریقہ وضع کیا ہے جو آہستہ آہستہ پہلے سے زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ مارکس نے تاریخ نویسی کو اشرافیہ کے خیالی واقعات کی رنگین آمیزش سے صاف کر کے محنت کشوں کے خون پسینے سے کشید کردہ جیتے جاگتے جہان کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ تاریخ نویسی کے اس طریقہ کار کا بانی مارکس ہے۔ یہ مارکس ہی تھا جس نے سرمایہ داری نظام کا تاریخی اور سماجی تجزیہ کیا جس سے سوچ سمجھ کے نئے در کھلے۔ اس نکتے پر گفتگو ہم تھوڑی دیر کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔

لیکن پہلے ہیگل کے فلسفہ تاریخ کے بارے میں بات ہو جائے تو مارکس کے افکار بھی بہتر طریق پر واضح ہو سکے سکیں گے۔ ہیگل انسانی تاریخ کو مادی دنیا سے علیحدہ مابعد الطبعیاتی عمل گردانتا ہے۔ ہیگل کے نزدیک مادی دنیا خیال کی بنیاد پر استوار ہے جو خدا کی خواہش کا اظہار ہے۔ اور انسانی تاریخ پیدائش سے آخرت کی جانب ایک سیدھی لکیر کی صورت چلی جا رہی ہے۔ ہیگل کا یہ فلسفہ بائبل سے ماخوذ ہے۔ ویسے مشرق وسطیٰ کے دیگر مذاہب بھی اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں۔ مارکس کا نظریہ اس کے برعکس ہے۔ مارکس تاریخ کو انسانی فکر و عمل کا اتصال سمجھتا ہے۔ یعنی انسان اپنے عمل سے اپنا جہان معنی خود تلاش کرنے اور بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کی راہ کھوٹی کرنے میں انسانیت اور اقدار سے عاری سرمایہ دارانہ نظام ہے جس نے انسان کو بیگانگی کے بیچ بھنور لا کھڑا کیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بیگانگی یا Alienation کیا ہے؟

مارکس کہتا ہے کہ عام انسان تاریخ کے پہیے کا لاشعوری ہاتھ ہیں۔ انسان اور اس کی محنت یعنی اس کی پیداواری قوت سے سماج کی شکل متعین ہوتی ہے جسے عرف عام میں کلچر کہا جا سکتا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ سماجی نظام یوں ترتیب پا گئے ہیں کہ انسان خود اپنی محنت کے ثمر سے مادی، نفسیاتی اور روحانی طور پر محروم ہو چکا ہے۔ زندگی کی اس کیفیت کا نام بیگانگی ہے۔ مارکس کی ساری تجزیاتی سکیم کا ماحصل یہی ہے کہ انسان کو بیگانگی کی جکڑ بندی سے نجات دلائی جائے جس کے بغیر کسی بھی بہتر معاشرے کی توقع عبث ہے۔

انسان کی مادی اور سماجی زندگی میں پہلے غلامی کا دور تھا جس کے بعد فیوڈل دور آیا۔ آج کا انسان تاریخ کے جس عرصہ حیات سے گزر رہا ہے، وہ سرمایہ داری نظام کا دور ہے۔ اس میں نفع زر کی پرستش سماجی نظام کی خشت اول و آخر ہے۔ مارکس نے نہ صرف سماج میں سرمایہ کے اصول و قوانین دریافت کیے بلکہ انسانی سماج پر سرمایہ کے اثرات کو بھی دریافت کیا۔ یہ بات غلط العام ہے کہ مارکس پہلا شخص تھا جس نے سرمائے کے مادی اصول دریافت کیے۔ ایسی بات نہیں۔ تاہم سرمایہ کی سماجی جہات کو دریافت کرنے والا پہلا شخص مارکس ہی تھا۔ مارکس سے پہلے ایڈم سمتھ اور ریکارڈو جیسے علماء مادی دنیا کے تجزیے کرتے رہے ہیں۔ ایڈم سمتھ مزدور کا کام اور اس کی اجرت کے اصول دریافت کرنے میں اہم تھا۔ جبکہ ریکارڈو نے زمین پر کھیتی باڑی کے کرایہ کے قوانین پر بات کی۔ کئی لوگ غلط فہمی میں مارکس کے افکار کو سرمائے کی جمع تفریق تک محدود رکھتے ہیں۔ یہ سراسر غلطی اور زیادتی ہے۔ مارکس کے افکار کی گہرائی اور گیرائی اس کے پیشرو اکابرین سے کہیں زیادہ ہے۔ مارکس کے علمی اور تحقیقی کام کا بہت بڑا حصہ، جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے، سرمائے کے سماجی اثرات سے متعلق ہے۔

مارکس انسانی معاشروں کی تاریخ کو محدب عدسے کے نیچے رکھ کر دیکھا تو اس پر یہ عقدہ وا ہوتا ہے کہ سرمایہ معاشی اور سماجی ناہمواری کو جنم دیتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کی سماجی کیمسٹری کا وہ مالیکیول جو عام آدمی کی آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے اسے کموڈٹی کہتے ہیں۔ کموڈٹی کی تجارت کا چہار سو بڑھتا ہوا طوفان عام آدمی کی زندگیوں میں ناہمواری کا بیج بوتا ہے اور یہی ناہمواری آج کے زمانے میں گلوبل ہو چکی ہے۔ اس ناہمواری میں معاشی اور سیاسی ناہمواری دونوں شامل ہیں۔

امریکی سوشیالوجسٹ امانویل ویلر سٹائن نے سرمائے اور وسائل کی اسی ناہمواری کے لئے عالمی تجزیاتی نظام World System Analysis کی اصطلاح ایجاد کی ہے۔ ویلر سٹائن کے مطابق اس وقت دنیا کو سیاسی اور معاشی بنیادوں پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے : مرکزی دنیا، ذیلی یا غریب دنیا اور نیم مرکزی دنیا۔ مرکزی دائرے کے امیر ممالک غریب دنیا کا استحصال کرتے ہیں۔ غریب ممالک اپنے اخراجات کے لئے اور اپنی معیشت استوار کرنے سرمایہ دار ممالک کے چندے اور مہنگے داموں قرضے لینے پر مجبور ہیں۔ قرضے کے بوجھ تلے دبے ہوئے ممالک سود کی واپسی کے لئے بھی مزید قرض کے لئے طلب گار مارے مارے پھرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کموڈٹی اور قرضوں کی تجارت کے نتیجے میں سرمایہ مرکزی ممالک میں ارتکاز کرتا چلا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ سرمائے کی یہ خصوصیت کہ یہ ارتکاز کرنے کی خصوصیت رکھتا ہے، مارکس کے تجزیے کی ہی مرہون منت ہے۔

ناہمواری خواہ سرمائے کی ہو یا وسائل پر کنٹرول کی، گلوبل سسٹم میں سیاسی ناہمواری غربت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ دنیا میں ہم جہاں کہیں بھٰی امارت دیکھتے ہیں، غربت اس کے ساتھ بندھی ہوتی ہے۔ دراصل یہ امارت ہی ہے جو غربت کو جنم دیتی ہے اور امارت کو بنانے اور اسے قائم رکھنے میں غریب عوام اور غریب ممالک کا خون پسینہ شامل ہوتا ہے۔ ناہمواری اور امارت کی قربت کی یہ کیفیت کنٹراڈکشن کہلاتی ہے۔ یاد رہے کہ سماجی کنٹراڈکشن اور سادہ کانفلکٹ ایک دوسرے سے مختلف باتیں ہیں۔ مارکس کے فلسفے میں کنٹراڈکشن کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ مارکس کے فلسفے میں کنٹراڈکشن سے مراد منطقی تضاد یا کنٹراڈکشن نہیں۔ جیسے مثال کے طور پر، وہ فرنیچر جس کا نام میز ہے، وہ کرسی نہیں ہو سکتا۔ یا دو پڑوسی جن کا گھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہے، وہ ایک دوسرے کی کنٹراڈکشن نہیں ہیں۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مارکس اور ہیگل کی کنٹراڈکشن یہ ہے کہ دو چیزیں جو اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے ایک دوسرے کی ضرورت ہوں۔ یعنی ایک کے بغیر دوسرے کا وجود نہیں ہو سکتا۔ امارت اور غربت کی بات ابھی پہلے ہوئی ہے۔ غربت کے بغیر امارت بے معنی سی بات ہے اور ناممکن بھی ہے۔ اسی وجہ سے امارت اور غربت ایک دوسرے کی کنٹراڈکشن ہیں۔ امارت اور غربت ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہونے کے باوجود پائیدار عہد نامہ نہیں۔ اسی وجہ سے کنٹراڈکشن کے اس بندھن کے اندر ہی سماجی تبدیلی کا بیج ہے اور یہیں سے سماجی تبدیلی کے امکانات کا در وا ہوتا ہے۔

یہاں اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے کہ مارکس کے فلسفے میں کنٹراڈکشن کی کوئی مستقل یا حتمی لسٹ موجود نہیں۔ ہر معاشرے کو اور ہر نسل کو اپنے اردگرد کے مادی اور معروضی حالات میں باہمی بحث و مباحثے کے ساتھ سماجی کنٹراڈکشن کا کھوج لگانا پڑتا ہے جو شکل بدل بدل کر نیا روپ لے سکتی ہے، جسے نئے سرے سے دریافت کرنے کی ضرورت ہو گی۔ نقد و نظر کا یہ طریقہ مارکسی فلسفے کا طرہ امتیاز ہے۔

مارکس لکھتا ہے : انسان اپنی تاریخ خود بناتے ہیں مگر اس طرح نہیں کہ جیسا ان کی مرضی اور منشا ہو۔ انسان اپنی تاریخ ان حالات میں بنانے پر مجبور ہیں جو ماضی نے ان کے سامنے لا کر رکھے ہیں۔ وفات یافتہ نسلوں کی روایات کا بوجھ نئی نسل کے اعصاب پر ڈراؤ نے خواب کی طرح چھایا ہوتا ہے۔ ماضی کی تاریخی وراثت ہمیشہ سے سماج کی حقیقت کا حصہ ہیں۔ انسان روایات، سماجی بندھنوں میں کلچر کی شکل میں زنجیر میں بندھے ہوتے ہیں۔ بنی نوع انسان کے مادی اور سماجی حالات اس کے ماضی کی پرچھائیاں ہیں۔ انسان کی جدوجہد کا اولین مقصد انہیں زنجیروں سے آزادی ہے۔ بھوک ننگ سے نجات، بیماری میں علاج معالجہ اور سیاسی آزادی یہ سب انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔

ماڈرن معاشرے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔ اس میں ارباب اختیار مذہب و ملت کے نام پر عوام کی آزادی پہ قدغن لگانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور تاریخ اس کی گواہ ہے۔ اور یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان ذاتی مفاد کی خاطر سماج سے کھلواڑ کر گزرتے ہیں۔ یہ نکتہ ہمیں جس بات کو سوچنے کی دعوت دیتا ہے اسے لبرل پیراڈاکس Liberal Paradox کہا جاتا ہے۔ فرائیڈ نے بھی اپنی کتاب سویلائزیشن اینڈ ڈسکنٹنٹ میں اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اگر سوسائٹی کا ہر شخص اسی طرح سے سوچنے اور عمل کرنے لگے تو سوسائٹی انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔ لبرل پیراڈاکس کے بارے میں جاننے سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ فرد اور سوسائٹی کا باہمی رشتہ جس توازن کا متقاضی ہوتا ہے اس کی دیکھ ریکھ سے غافل نہیں ہوا جا سکتا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مارکس سیاسی اور سماجی آزادی کا داعی ہے مگر گزشتہ روس کا تجربہ کیسا رہا؟ سویت روس نے اپنے سماجی اور سیاسی سفر کا آغاز نہایت خستگی سے کیا تھا۔ چند ہی سالوں میں ریاست نے تعلیم، صحت اور رہائش کی ذمہ داری سو فیصد پوری کی۔ تاہم سیاسی آزادی کے معاملے میں سویت روس کا دامن تر رہا ہے جس سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ لیکن اس بات کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ سویت روس کی عمر ستر سال سے زیادہ نہ ہو پائی اور سوسائٹی کے اندر تدریجی درستگی اور ارتقاء کے وہ امکانات جو چند سرمایہ دار ممالک کو میسر آئے وہ روس کے حصے میں نہ آ سکے۔ اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس وقت ساری دنیا سرمایہ داری نظام کے تحت چل رہی ہے۔ اگر دنیا بھر سے سیاسی اور سماجی آزادی کا جائزہ مرتب کیا جائے تو سرمایہ داری نظام کا رزلٹ کارڈ قابل ستائش نہیں۔

یہ سب باتوں ہماری توجہ اس جانب مبذول کرواتی ہیں کہ دنیا میں سیاسی، سماجی اور معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام سہل نہیں۔ یہ ایک آئیڈیل اور خواب ہے جس کے لئے عملی جدوجہد کی ضرورت ہے تا کہ انسانی شعور اور زندگی کو ماضی کے بوجھ سے نجات دلائی جا سکے۔ اور دھیرے ہی سہی مگر ایسے معاشرے کا قیام ہو جس میں سماجی اور معاشی جمہوریت ہو، ایک ایسا معاشرہ جس میں آمر اور ڈکٹیٹر کے لئے ذرہ برابر گنجائش نہ ہو۔ اس نظام میں عام انسان کا حقوق کا تحفظ یقینی ہو۔ اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائے جس میں عوام اور اشرافیہ دو علیحدہ طبقے نہ ہوں بلکہ بھائی چارے کے بندھن میں بندھا ہوا ایک ہی طبقہ ہو جس کا نام انسان ہو۔

مارکس نے اپنے فکر و نظر میں ان آئیڈیلز کے حق میں بیش بہا دلائل دیے ہیں۔ وہ کہتا ہے : ایک دن میں مزدوری کے اوقات کو عملی اور قانونی طور پر جھوٹا رکھنا ورکنگ کلاس کے حقوق کے لئے کسی بھی پرتصنع تحریری کیٹلاگ سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ مارکس کے افکار سے کسی کو اتفاق ہو یا اختلاف، مارکس کے یوم پیدائش پر یہ ماننا پڑے گا کہ وہ تاریخ اور وقت کی کسوٹی پر انسانی حقوق کے علم بردار کے طور پر زندہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ موجودہ دور کے سرمایہ داری نظام نے مارکس کے افکار سے استفادہ کر کے اپنے اندر بے پناہ تبدیلی کی ہے۔ مارکس کے تجزیے کی روشنی میں اب دنیا سرمایہ داری نظام کو صرف دولت کی بجائے سماجی نظام کے طور پر دیکھنے لگی ہے۔ اس تجزیے میں مارکس کے رفیق کار فریڈرک اینگل کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ مارکس اور اینگل دونوں، سیاسی اور معاشی جمہوریت کے اصولوں پر مبنی پر انصاف سماجی نظام کے قیام کے داعی اور منارہ نور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments