مجمع باز مداری اور بھولے بھالے عوام


یہ ساٹھ کی دہائی کی بات ہے ہمارے شہر کوٹ ادو میں یہ نوجوان شخص مجمع لگایا کرتا تھا اسے حاجی فرزند سانپوں والا بھی کہتے تھے۔ شہر کے نزدیک ریلوے لائن کراس کر کے پھٹے والے پل کے قریب اس کی زرعی زمین کا ٹکڑا بھی تھا۔ جو آج بھی فرزندے کا کنواں مشہور ہے۔ حاجی فرزند سانپوں کا شوقین تھا اور ان کے ذریعے ہی اپنی روزی روٹی چلاتا تھا۔ ساتھ ساتھ جڑی بوٹیوں سے ادویات بنا کر بیچنے کے لیے مجمع لگایا کرتا تھا۔ یاد رہے گو مجمع کے لغوی معنیٰ ہجوم، بھیڑ، جلسہ، مجلس یا جمع ہونا کے ہوتے ہیں لیکن مجمع لگانے کا مطلب لوگوں کو خاص مقصد کے لیے کسی ایک مخصوص جگہ پر اکٹھا کرنا اور انہیں وہاں کھڑے رکھنا کسی فنکاری سے کم نہیں ہوتا اور جو شخص یہ مجمع اکٹھا کرتا ہے اسے مجمع باز کہا جاتا ہے۔

ہماری دکان کے سامنے چوہدری عبدالرزاق مرحوم رہتے تھے۔ جو میرے چچا نیاز خان کوکب کے قریبی دوست تھے۔ جن کی وضع داری، اخلاق، خوش اخلاقی، اور ڈیرہ داری مثالی ہوا کرتی تھی۔ ان کی خصوصی سفارش پر حاجی فرزند کو ہمارے دادا جان نے اپنی دکان کے سامنے گھنٹہ بھر کے لیے مجمع لگانے کی اجازت دی تھی۔

اب تو وقت بدل چکا ہے نہ تو اب وہ مجمع کی رونقیں ہی بچی ہیں او ر نہ ہی لوگوں کے پاس اتنا وقت ہے۔ اسی لیے سڑکوں پر اب سانپوں کی آڑ میں سلاجیت، سانڈے کا تیل، چیتے کی چربی کا تیل، ہاتھوں کی لکیریں دیکھنے والے نجومی، طوطوں سے فال نکالنے والے، منجن اور سرمہ بیچنے والے نایاب ہو چکے ہیں۔ پہلے زمانے میں جب لوگ وقت کی قید سے آزاد ہوا کرتے تھے اس وقت ان کی بہتات ہوتی تھی۔ ان سب کی بڑی خوبی ان کے پاس موجود وہ باتوں کا ایسا خزانہ ہوا کرتا تھا جس سے یہ لوگوں کی توجہ اور دلچسپی بڑی آسانی سے حاصل کر لیتے تھے کہ لوگوں کے دو تین گھنٹے منٹوں میں گزر جاتے تھے۔

حاجی فرزند سے میری دوستی کی وجہ یہ تھی کہ جب وہ مجمع کا آغاز کرتا تو اپنے سانپوں کے پٹارے اور مختلف تصاویر زمین پر رکھتا۔ اور پھر ایک ایک کر کے سانپ اور اژدھا زمین پر چھوڑ دیتا تو مجھے اور چند دوستوں کو کہتا یار تھوڑی دیر کے لیے کھڑے ہو جاؤ تاکہ تمہیں دیکھ کر مجمع اکٹھا ہو جائے۔ جب مجمع جم جائے تو چلے جانا ہم چند دوست اور اردگرد کے ہمسائے اس کی یہ ڈیوٹی ہر مرتبہ ادا کرتے اور معاوضہ میں وہ ہمیں مجمع سے فارغ ہو کر ایک کپ چائے پلانا نہ بھولتا۔

میں نے اپنی زندگی میں حاجی فرزند سے بہت کچھ سیکھا۔ وہ اپنے فن تقریر و مجلسی گفتگو پر مکمل عبور رکھتا تھا۔ اسے مجمع جمع کرنے اور پھر اس ہجوم کو کنٹرول کر کے وہاں سے ہلنے نہ دینا کا فن خوب آتا تھا۔ زمین پر سانپ چھوڑنے کے بعد وہ بڑے دھیمے دھیمے انداز میں اپنی بات کا آغاز کرتا۔ اللہ کی حمد و ثنا اور نبی پاک ﷺ کی تعریف کے بعد چند منٹ حضرت علی کرم اللہ وجہ کی منقبت کے بعد مختلف عوامی اشعار سے لوگوں کو مسحور کر دیتا۔

ساتھ ساتھ اپنی جسمانی حرکات سے مجمع پر عجیب جادو سا کر دیتا۔ کبھی سانپ کی پٹاری پکڑ کر بتاتا کہ اس میں وہ سنہری سانپ ہے جو پھونک مار کر انسان کو آگ لگا دیتا ہے۔ یہ بہت خطرناک ہے اس لیے کھڑے رہیں آخر میں دکھاؤں گا۔ پھر مجمع کو آگے لانے کے لیے اپنے گرد ایک لکیر کھینچ دیتا اور آگے والی لائن میں کھڑے لوگوں کو اس لکیر پر بیٹھنے کو کہتا کہ آگے آ جائیں تاکہ دنیا کے یہ خطرناک سانپ نزدیک سے دیکھ سکیں۔ دراصل اس کا مقصد پیچھے والے لوگوں کی توجہ حاصل کرنا بھی ہوتا تھا۔

اس طرح چند چھوٹے موٹے سانپ دکھا کر وہ درجنوں لوگوں کو جمع کر کے ان کی توجہ بڑی آسانی سے حاصل کر لیتا تھا۔ اس مجمع میں کئی مرتبہ جیب تراش بھی شامل ہو جاتے جو موقع ملتے ہی اپنا کام دکھا دیتے لیکن وہ مجمع میں اس قدر محو ہوتے کہ انہیں پتہ ہی نہ چلتا۔ جب وہ محسوس کرتا کہ اب لوگوں کو ان سانپوں کو دیکھنے کا جوش و جذبہ بڑھتا جا رہا ہے اور بار بار پٹاری لہرا کر خطرناک سانپ لوگوں کو دکھانے کا وعدہ پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

تو وہ سانپوں کی بات پلٹتے ہوئے اپنے اصل مقصد کی طرف آ جاتا اور ساتھ ہی کوئی پڑیا، پھکی، معجون، سنہرے رنگ کی گولیاں نکال کر اس کے فائدے گنوانا شروع کر دیتا اور دانت کا درد دور کرنے کا عملی مظاہرہ بھی کر کے دکھاتا تھا۔ وہ اپنی بنائی ہوئی دوائی کے اتنے فائدے اور کم قیمت بتاتا کہ مجمع میں سے تقریباً آدھے لوگ اس کی دوائی خرید لیتے۔ شاید ہی کسی بیماری کا علاج اس کی گولی میں شامل نہ ہو تا ہو۔ اگر کسی کو خود کوئی تکلیف یا مرض نہ بھی ہوتا تو اس خدشے سے خرید لیتے کہ کل کو یہ دوائی کام آئے گی معمولی سی تو قیمت ہے چلو اپنے بزرگوں کے لیے لے چلتے ہیں۔

شاید ان کے جوڑوں کا درد اور دمہ اسی سے ہی ٹھیک ہو جائے۔ حاجی فرزند ہر روز مجمع لگاتا اور اپنی دوائی بڑی آسانی سے بیچ لیتا تھا۔ میں نے دیکھا اس کے مجمع میں نئے لوگ کم اور پرانے لوگ زیادہ ہوتے تھے۔ جن کو اس کی دوائی کے ثمرات کھنچ لاتے یا پھر وہ جو ہر مرتبہ یہ مجمع اس لیے دیکھتے کہ شاید اس مرتبہ انہیں پٹاریوں میں بند سنہرے اور نایاب سانپ دیکھنے کو مل جائیں۔ میں برسوں اس کا مجمع دیکھتا رہا اور باتیں سنتا رہا۔

میری بھی خواہش تھی کہ وہ انمول سانپ دیکھ سکوں۔ مجمع کے بعد ایک دن اکیلے میں پوچھا حاجی صاحب وہ آگ لگانے والا سنہرا سانپ مجھے تو دکھا دو ۔ تو وہ ہنس پڑا بولا ایسا کوئی سانپ دنیا میں نہیں ہے تو بھلا میری پٹاری میں کیسے ہو سکتا ہے؟ میں تو ان سانپوں کی آڑ میں اپنی دوائی بیچتا ہوں اور ہاں اگر اس دوائی میں کچھ بھی نہ ہو تو بھی آدھے مریض شفا پا جاتے ہیں اور پھر دوا لینے آ جاتے ہیں۔ بعض تو مجھ سے برسوں سے یہ دوائی خرید رہے ہیں۔ ہماری دوائی نہیں بکتی ہماری زبان اور بات بکتی ہے۔ مجمع میں سے آدھے لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ سانپ ایک بہانہ ہے۔ اصل میں تو مجمع والا اپنی دوائی بیچتا ہے۔

حاجی فرزند کہتا تھا کہ دنیا میں لوگوں کو جمع کرنا بہت آسان ہے بس چند منٹ سڑک پر کھڑے ہو کر آسمان کی جانب دیکھتے رہو۔ لوگ تمہارے ساتھ آ کر کھڑے ہوتے جائیں گے۔ جب چند لوگ اکٹھے ہو جائیں تو خود بے شک وہاں سے چلے جاؤ مگر وہ لوگ وہیں کھڑے آسمان کو دیکھتے رہیں گے۔ لوگ تو لکیر کے فقیر ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لیکن اپنا مقصد پورا ہونے تک لوگوں کو روکے رکھنا اور وہ بھی کسی لالچ کے بغیر یہی وہ اصل کمال ہوتا ہے جس کے لیے تمام مجمع کی نباض پر اپنا ہاتھ رکھنا بے حد اہم ہوتا ہے۔ جس کے لیے آخری پٹارا بند ہی رکھنا پڑتا ہے۔

آج ایک وقت ایسا آ چکا ہے کہ یہ مجمع باز ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ نہ جانے سانپ دیکھ کر منجن لینے اور استعمال کرنے والے کتنے ہی لوگ زہریلے کیمیکل کی وجہ سے اپنے دانت گنوا چکے ہیں۔ مجھے ان مجمع بازوں اور اپنے سیاستدانوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ یہ دونوں عوام کا وقت برباد کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں باتوں میں لگا کر عرصہ دراز سے ان کی سادہ لوحی سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ اپنا اپنا چورن بیچنے کے لیے مجمع اکٹھا کرنے کے نئے نئے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔

سیاسی مجمع باز اور سیاسی بیانیے بیچنے والے ہی نہ تو کم ہیں اور نہ خریدنے والوں کی کوئی کمی ہے۔ وہی پرانے سیاستدان ہیں یا ان کی اولادیں ہیں۔ وہی طریقہ سیاست ہے۔ وہی پرانی عوام ہے اور ان کی نئی نسل ہے۔ وہی انتقام، عدم برداشت اور غصہ کی دقیانوسی سیاست ہے۔ وہی بڑھتی ہوئی مہنگائی سے دن بدن عوام کا گلہ گھٹتا چلا جا رہا ہے۔ ان کا تیل بک رہا ہے مگر عوام کا تیل نکل رہا ہے۔ عوام غریب تر اور وہ امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔

اور وہ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی پہلے سے غریب، مقروض، بدحال، پریشان حال لوگوں کی فلاح و بہبود کے نام پر پھر سے نئی مجمع سازی میں مصروف رہتے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک بڑا جلسہ کرنا چاہتے ہیں۔ اربوں روپے عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے ان جلسوں اور اپنی اپنی طاقت کے مظاہروں پر خرچ کر دیتے ہیں۔ عجیب دور ہے جس کا مجمع بڑا ہوتا ہے وہی اپنا سودا بیچ جاتا ہے۔ ان کے دن رات بدلتے بیانیے اور یو ٹرن نے عوام کو پاگل کر کے رکھ دیا ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ اپنے اپنے اختلافات اور مفادات سے ہٹ کر ملک و قوم کے لیے سوچا جائے اور غریب آدمی کے بنیادی مسائل پر توجہ دی جائے۔ یہ صرف تب ہی ممکن ہے جب ہم ماضی کی تلخیاں بھلا کر اور سب اپنے اپنے سیاسی مفادات سے ایک قدم پیچھے ہٹ کر بحیثیت ایک قوم متحد ہوں اور قومی یکجہتی کے ایک قومی پیج پر اکٹھے ہو جائیں یہی ہماری ترقی اور استحکام کا واحد راستہ ہے۔

 

جاوید ایاز خان
Latest posts by جاوید ایاز خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments