گندم، سولر پینل اور مریم کی وردی


اسکول جانے سے پہلے میں پڑھنا سیکھ چکا تھا۔ اسکول میں داخلے کے وقت میری عمر چار سال تھی، یعنی مطلوبہ عمر سے ایک سال کم، غالباً یہ Hyperlexia کی کوئی شکل تھی، لفظوں کی صوت و ساخت ہمیشہ سے میرے لیے ایک رمز رہے ہیں، ایک اسرار آمیز رمز، ایک پہیلی جسے بوجھنے کی ہمیشہ خواہش رہی۔ چار پانچ سال کی عمر میں بچے مرے ارد گرد بیٹھ جاتے اور میں انہیں ’تعلیم و تربیت‘ اور ’نونہال‘ کی کہانیاں پڑھ کر سنایا کرتا تھا، تمام سامعین مجھ سے عمر میں دو چار سال بڑے ہوا کرتے تھے۔

اول اول یادداشتوں میں سے ایک منظر آپ کو دکھاتا ہوں، ناشتے کی میز پر ابو جی نے اخبار میرے سامنے رکھ کر بیک پیج پر چھپی ایک تصویر کی سرخی پڑھنے کا حکم دیا،ڈیٹ لائن تھی ’ہالینڈ‘، کسی خاتون پولیس افسر کی تصویر تھی، کیپشن تھا ”کون گرفتار نہیں ہونا چاہے گا“۔ سرخی روانی سے پڑھ دی گئی۔ اب ہمیں تھپکی کی توقع تھی، مگر ابو جی نے اگلا سوال داغ دیا۔”اس جملے کا کیا مطلب ہے؟“ میں چپ رہا، کوئی جواب نہیں دے سکا، بس تمتما اٹھا۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے اس عمر میں بھی ا±س کیپشن کا مطلب خوب معلوم تھا، بس شرم مانع تھی۔ (جو اساتذہ ایسی تحریروں میں صیغہ واحد متکلم کے استعمال سے گریز کی نصیحت کرتے ہیں ان سے معذرت کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں)

پنجاب پولیس کی وردی میں چیف منسٹر مریم نواز کی تصویریں سامنے آئیں تو اپوزیشن نے اصرار کیا کہ آج یہ پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ لہٰذا پی ٹی آئی کے دوستوں نے قومی اسمبلی سے سوشل میڈیا تک خوب رنگ جمایا، یاد رہے کہ ہماری سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ پولیس کی وردی کا اتنا تذکرہ کیا گیا ہے، ورنہ ہم نے تو عمر بھر ”اِس کے پیچھے وردی ہے“ اور” اس کے پیچھے وردی ہے“ جیسے نعرے ہی س±ن رکھے تھے۔نان ایشوز کو ایشو بنانے کی کئی وجوہات ہوا کرتی ہیں، ایک تو کسی ’اصل‘ خبر سے توجہ ہٹانے کے لیے، یا اگر کوئی خبر نہ ہو تو خبر بنانے کے لیے، یاذہنی اِفلاس یا خالص نفرت۔ویسے جب قومی اسمبلی میں جنرل ایوب خان کے پسرزادے عمر ایوب صاحب مریم کے ایک دن علامتی طور پر پولیس وردی پہننے کو قوم سے مذاق قرار دے رہے تھے تو انہیں دیکھ کر ہم پر عجیب گنگا جمنی کیفیت طاری ہو رہی تھی، یعنی، ”مسکراتے ہوئے بادیدہ نم آتے ہیں… تیری محفل سے عجب حال میں ہم آتے ہیں۔“ پوری قوم سے دس سال وردی پہن کر انتہائی فحش مذاق کرنے والے کی ذریت ہمیں جمہوریت کے اسباق تعلیم کر رہی ہے۔ یعنی حد ہو گئی۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ عمر ایوب اپنے بزرگوں کی حرکات پر کسی تاسف کا اظہار کر کے ’پاک‘ ہو چکے ہوں۔ خیر، وہ اس انجمن میں تنہا نہیں ہیں، ابھی کچھ عرصہ پہلے تک پی ٹی آئی کے جلسوں میں ایوب خان کے سنہرے دور پر ڈاکومنٹریاں چلائی جاتی تھیں۔اور وردی (پولیس کی نہیں) سے عقیدت کا یہ سفر آج بھی ناتمام ہے۔ ’ صرف وردی سے بات کریں گے‘ جیسے فلک شگاف نعرے آج بھی پارٹی کی صفوں سے بلند ہوتے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ ادراک ہے کہ برہنگی اس سیاسی حمام کا چلن ہے، مگر ڈھٹائی کا یہ درجہ ’قسمت‘ والوں کو نصیب ہوتا ہے، ورنہ عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ جمہوریت کے رنگین لبادے پہنے ہوئے سیاست دان چھپ چھپا کر، تخلیے میں، سرگوشیوں میں سودا بازی کیا کرتے ہیں، یعنی بہ قول شاعر ”کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔“

اس ملک کے ان گنت مسائل چاروں طرف سے ہم پر غرّا رہے ہیں، اور ہمارے دوست وردی پر بات کر رہے ہیں، وہ بھی پولیس کی۔ ہم تو جاننا چاہتے ہیں کہ جب ہمارے گوداموں میں لگ بھگ چھیالیس لاکھ ٹن گندم موجود تھی تو یوکرین سے اکتیس لاکھ ٹن گندم نگران دور میں امپورٹ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ اور یہ گندم اکتیس سو روپے من میں خرید کر پینتالیس سو روپے من بیچ کر پچاسی ارب روپے کا منافع کس کی جیب میں گیا؟ گندم کی رسد طلب سے زیادہ ہو گئی ہے، قیمتیں گر رہی ہیں، حکومت گندم خریدنے میں گرم جوش نہیں ہے، کسان پریشان ہے، گندم کھلی پڑی ہے، بارشیں ہو رہی ہیں، اور اس سلوک کے بعد کیا اگلے سال کسان گندم کاشت کرے گا۔ یہ اور اس طرح کے درجنوں حقیقی مسائل ہمیں گھور رہے ہیں اور ہمارے دوست واویلا کر رہے ہیں کہ مریم نے وردی کیوں پہنی ؟

میر صاحب نے کہا تھا ”مصائب اور تھے پر دل کا جانا…عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے“، یعنی سنجیدہ مسائل تو درجنوں ہیں مگر اس وقت ذاتی سطح پر جو ہمارا مسئلہ نمبر ون ہے کچھ بیان اس کا بھی ہو جائے۔ بہت طویل تحقیق اور ٹوٹے پھوٹے معاشی بندوبست کے بعد ہم سولر پینل لینے کے دہانے پر پہنچ چکے تھے، اسی دوران نیپرا (حکومت پڑھا جائے) کے ایک علامیے نے ہمارا سارا منصوبہ ہی گل کر دیا ہے۔ مختصراً، حکومت سادہ لفظوں میں کہہ رہی ہے کہ سولر پینل سے بجلی حاصل کرنا ’قومی مفاد‘ میں نہیں ہے لہٰذا اس کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ حکومت جن بجلی گھروں سے بجلی خریدتی ہے ان سے معاہدے کے تحت بجلی خریدو نہ خریدو انہیں کپیسٹی چارجز بہرحال ادا کرنے ہوتے ہیں، سو اگر لوگ اپنی بجلی پیدا کرنے لگ گئے تو یہ چارجز حکومت کو اپنی جیب سے ادا کرنے پڑیںگے۔ دوسرے لفظوں میں ہم اگلے 25 سال کے لیے آئی پی پیز کی قید میں رہیں گے، اور ان میں سے اکثر بجلی گھروں کے مالکان آپ کے جانے پہچانے چہرے ہیں۔ ایک ملک جہاں بارہ مہینے دھوپ میسر ہے اس کے عوام کی مفت بجلی پیدا کرنے پر حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے، کیا یہ دیوانگی نہیں ہے؟ کیا ہم اغواکاروں کے قبضے میں ہیں؟ گرمی آ رہی ہے، یقین جانئے خوف آ رہا ہے۔

آخر میں ہالینڈ کی اس پولیس افسر کے لیے ایک تازہ شعر:”کوئی الزام سر لیا جائے….کاش ہم کو بھی دھر لیا جائے۔“

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments