شاہراہ قراقرم پر ایک اور المناک حادثہ


یہ ایک روایت بن گئی ہے کہ ہر سال قراقرم ہائی وے اور گلگت سکردو روڈ پر کوئی نہ کوئی بڑا حادثہ ہو جاتا ہے جس میں بیسیوں انسانی جانیں لقمہ اجل بن جاتے ہیں، چھوٹے موٹے حادثات تو اس روڈ پر معمول کے واقعات ہوتے ہیں۔ آج کا یہ المناک واقعہ نجی کمپنی کے بس کو چلاس کے قریب پیش آیا جس میں کنڈکٹر کے مطابق پچھلا ٹائر برسٹ ہو گیا اور ڈرائیور کی پوری کوشش کے باوجود بس مسافر سمیت روڈ سے تقریباً تین سو فٹ نیچے کھائی میں دریائے سندھ کے کنارے جا گری۔ خبریں آ رہی ہیں کہ اب تک تئیس مسافر جان بحق ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل دے۔ ان حادثات کے اسباب و محرکات میں تقدیر کے فیصلوں کے علاوہ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی لاپرواہی، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن محکمہ کی نا اہلی اور روڈ مینٹننس کا بالکل نہ ہونا شامل ہیں۔

غیر معتبر ٹرانسپورٹ کمپنیاں جن کی گاڑیاں بھی بعض اوقات اپنی نہیں ہوتیں، زیادہ سے زیادہ پیسہ بچت کرنے کے چکر میں مسافروں کے جانوں کا سودا کر بیٹھتے ہیں جس کی کئی مثالیں گزشتہ سالوں پیش آنے والے واقعات سے سامنے آئے۔ ان کی گاڑیاں باہر سے بالکل صاف نظر آتی ہیں لیکن اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے یہاں تک کہ بریک، آئل، ٹائر اور انجن کی مینٹننس کا بھی خیال نہیں رکھتے۔ کبھی کبھار یہ اڈے سے کوئی گاڑی ہائر کرتے ہیں جس کا ڈرائیور بھی پہلی دفعہ شاہراہ قراقرم کے خوفناک روٹ پر سفر کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ جس کمپنی کے ساتھ آپ سفر کرنا چاہتے ہیں اس کی سابقہ ریپوٹیشن دیکھ کر ہی فیصلہ کریں اور ہمیشہ کسی معتبر کمپنی کا انتخاب کریں۔

اس قسم کے حادثات کا ذمہ دار ایکسائز والے بھی ہیں جو اول تو گاڑیوں کی فٹنس چیک کرتے نہیں اور کریں بھی تو آپسی ملی بھگت سے نمٹا دیتے ہیں۔ اس سے کمپنی مالکان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ اسی پرانے ڈگر پر چل پڑتے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں جو گزشتہ سالوں رونما ہونے والے واقعات کے بعد منظر عام پر آ گئیں کہ چند دنوں کے لئے مخصوص کمپنی سیل کیا جاتا اور جب عوام اس واقعے کو بھول جاتے تو وہی کمپنی پھر سے انہی گاڑیوں کے ساتھ سروسز شروع کرتے نظر آئے۔ اس طرح ایکسائز والوں کی نا اہلی یا ملی بھگت ان واقعات کے ساتھ بالواسطہ جڑی ہوئی ہیں۔

اس کے علاوہ سب سے اہم مسئلہ شاہراہ قراقرم اور شاہراہ بلتستان پر روڈ مینٹننس کا نہ ہونا ہے۔ روڈ مینٹننس میں سرفہرست، روڈ بیرئیر فینس، ہائی وے سکیورٹی فورس/پولیس، اور، موبائل سروسز، کی عدم موجودگی اس طرح کے حادثات کے بنیادی محرکات میں سے ہیں۔ روڈ بیرئیر فینس نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ایسے کیسز سامنے آئے جن میں ناتجربہ کار ڈرائیور موڑ مڑتے ہوئے سیدھے کھائی میں چلے گئے۔ اسی طرح ہائی وے سکیورٹی فورس کی عدم موجودگی کے سبب رات کو پیش آنے والے واقعات صبح کے بعد منظر عام پر آتے رہے۔ اس پر مستزاد موبائل سروسز نہ ہونے سے فوری طور پر اطلاع بھی نہیں دے سکتے جس کا نقصان زخمیوں کا اسی جگہ تڑپ تڑپ کے موت کو گلے لگانے کی صورت سامنے آتے رہے ہیں۔

ان کے علاوہ بھی بہت سارے وجوہات ہو سکتے ہیں جن میں ڈرائیور حضرات کا غیر سنجیدہ رویہ کہ بیس بیس گھنٹوں تک ایک ڈرائیور گاڑی چلاتا ہے اب انسان ہونے کے ناتے رات کے آخری پہر نیند کا غالب آ جانا لازمی امر ہے، جائے وقوعہ پر فرسٹ ایڈ کا نہ پہنچنا اور فوری ریسکیو کا عمل نہ ہونا وغیرہ وغیرہ۔

المیہ یہ ہے کہ کب ہمارے حکمرانوں کو ہوش آئے گا، کب انہیں ان محرکات کا اندازہ ہو گا اور وہ ایسی پالیسیاں مرتب کریں گے کہ انسانی جانوں کا ضیاع کم سے کم ہو!

ارباب اختیار کو چاہیے کہ حادثات پر ضمناً افسوس کا اظہار کرنے کے بجائے ان محرکات اور اسباب پر غور کریں اور عملی طور پر سدباب کے ذرائع اپنائیں۔ روڈ بیرئیر فینس، ہائی ویز سکیورٹی فورس/پولیس، اور موبائل سروسز کو یقینی بنانا اولین ترجیحات میں سے ہیں۔ عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے اندوہناک واقعات پر ضرور ری ایکشن دیں کیونکہ کل کو آپ یا آپ کا کوئی عزیز نشانہ بن سکتا ہے۔ اگر بیسیوں قیمتی جانیں ضائع ہونے کے بعد بھی غفلت کا مظاہرہ کریں تو یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا اور ہم لاشیں اٹھاتے رہیں گے جن کی شناخت بھی ناممکن ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments