کامیابی لوگوں کی خدمت میں ہے


آج صبح پہلے آپریشن کے ختم کرتے کرتے میرا موڈ آگ بگولا بن گیا تھا۔ اگلے ڈیڑھ گھنٹے صرف نہ دوسروں کی کاہلی اور سُستی کا شکار ہوتا رہا۔ بلڈ پریشر بھی اُسی رفتار سے بڑھتا رہا۔ اور رفتہ رفتہ غصے پر کنٹرول کھو بیٹھا

آج انتہائی خوشگوار موسم کے ساتھ گھر سے نکلا۔ گاڑی میں ”خوش رہئے“ قسم کی کتاب سُنتا رہا۔ میں عموماً اپنے سٹاف سے پہلے پہنچ جاتا ہوں اور دفتر کی بتیاں، ائر کنڈیشنر خود ہی آن کرتا ہوں۔ کوشش کرتا ہوں کہ زیر تر بیت ڈاکٹروں کے لئے علم کے سمندر سے چند قطرے کشید کر کے ان کے ذہنوں میں انجیکٹ کرتا رہوں۔ لیٹ آنے والوں کے سامنے صرف دیوار گیر گھڑیال پر نظر ڈالتا ہوں اور مریض دیکھنا شروع کر دیتا ہوں۔

”دُکھی انسانیت“ کی خدمت، تبلیغیوں کے ”ہماری اور تمہاری کامیابی اللہ کی راہ“ کی طرح ہم سب صحت کے شعبے سے منسلک ارکان کا فلسفۂ حیات بن چکا ہے۔ چنانچہ درد سے چِلّاتے چہرے، موت کے ڈر سے سیاہ ہوتی روحیں، بچوں کے گرتے آنسو، ماؤں کے کٹتے دل اور کپکپاتے لبوں کی کھسر پھسر ہمارے لئے فیس کے کڑکڑاتے نوٹ ہیں۔ ہماری یہی بے حسی ہم سے بڑھ کر نچلے سٹاف تک پہنچ جاتی ہے۔ چنانچہ تنخواہ پر معمور وارڈ بوائے مریض کے لواحقین کو مریض کی ویل چئیر دھکیلتے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ قطار میں کھڑے معمر افراد کے سامنے جماہیاں لینا معمول بن جاتا ہے۔ مریض کی فریاد پر آن ڈیوٹی نرس کی روکھے منہ سے ”آدھے گھنٹے سے کہہ رہی ہوں کہ ابھی پانچ منٹ صبر کریں“ تکیہ کلام بن جاتا ہے۔

آپ ڈاکٹر کو صبح مریض کے پیشاب کا بیگ خالی کرنے کا کہہ دیتے ہیں تو اگلے چار گھنٹوں میں وہ آرڈر خوبصورت لکھائی میں رجسٹر کی زینت بنتا ہے۔ رجسٹرار کی روایت زیر تربیت ڈاکٹر سے نرس، ڈسپنسر، اردلی، سویپر اور آخر میں مریض کے رشتہ دار تک تواتر سے منتقل ہوتی ہے۔ وہ بیچارہ اگلے دو گھنٹے دستانوں کی فراہمی سے لے کر بیگ کا کنکشن اور پھر کوئی معطر برتن تلاش کر ہی لیتا ہے اور یوں مریض کا صبح سے پیشاب سے لبالب بھرا بیگ بالآخر اپنا بہاؤ درست کر ہی لیتا ہے۔

زندگی کے کم و بیش چالیس سال اسی بک بک اور جھک جھک میں گزر گئے۔ یعنی ٹھنڈے ٹھار ہو گئے ہیں۔ اس لئے بجائے سیکورٹی گارڈ کے کبھی کبھار مریض کی کُرسی خود ہی دھکیل کر کلینک سے نکالتا ہوں یا بیڈ سائیڈ پر اُکڑوں بیٹھ کر بیگ خود ہی خالی کر دیتا ہوں۔ ہم میں سے بیشتر کے لئے رحیم اللہ محض پاؤں کا ایک فریکچر ہے، یا یاسین بچہ مثانے کا پتھر ہے۔ شکیلہ ایک رِستا ناسور ہے اور زینب ساتویں مہینے کی حاملہ۔ ”میری دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے“ ۔ ان کے اصل نام غائب ہو کر بواسیر، ہرنیا اور پِتّے کے پتھر رہ گئے ہیں۔ اب ظاہر ہے سامنے انسان ہی نہ ہو تو بھلا ”انسانیت کی خدمت“ کیسے کی جائے۔

قصہ آگے بڑھاتے ہیں۔ ایک نسبتاً آسان آپریشن سے دن کا آغاز کیا۔ جب مجھے اندازہ ہوا کہ اگلے آدھے گھنٹے میں آپریشن ختم ہو جائے گا تو تھیٹر کے انچارج کو اگلا مریض بلانے کو کہا۔ بلکہ اس آدھے گھنٹے میں بار بار یاد بھی دلاتا رہا۔ پہلا آپریشن ختم بھی ہو گیا، میں نے کافی کا موٹا سا مگ بھی ختم کر دیا، پر میرے مریض نے اگلے ایک گھنٹے تک نہ پہنچنا تھا اور نہ پہنچا۔ حتیٰ کہ تمام آپریشن تھیٹر پُر ہو گئے۔ اب مجھے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ میں نے تفتیش شروع کی۔ میرے تینوں مریض وقت پر پہنچے تھے۔ تاہم دوسرا مریض جب وارڈ میں کمرہ لینے پہنچ گیا تو معلوم ہوا کوئی کمرہ خالی ہی نہیں تھا۔ اگلا گھنٹہ بیچارہ ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ کا چکر ہی لگاتا رہا۔ اس دوران اس کی فائل میں کاغذات بڑھتے رہے۔

جس سٹاف کو انہیں لینے بھیجا تھا، وہ وارڈ کے سٹاف کے گھر والوں کی خیریت پوچھ کر وقت کا فائدہ اُٹھاتا رہا۔ میں نے اُس کی آخری لوکیشن معلوم کر کے اپنا رجسٹرار بھیجا کہ بس کسی طرح مریض کے کپڑے بدلوا کر ویل چئیر میں مجھ تک پہنچا دے۔ اس دماغی حالت میں آپریشن شروع کیا تو سٹاف کی کاہلی پھر سے حائل ہوتی رہی۔ یعنی مریض کے بے ہوش ہونے تک نرس نے اوزار نہیں سجائے تھے بلکہ اپنی ساتھی نرسوں کی خیر خیریت معلوم کرتی رہی۔ کوئی سوئی دھاگہ منگوانے کے لئے جب تک دسویں مرتبہ چلایا نہیں تو سٹاف کے کانوں جوں رینگ نہ سکی۔

جھلسے ہوئے مریضوں کی مناسب پٹّی بھی دو ڈھائی گھنٹے سے کسی صورت کم نہیں لیتی۔ جب میں آپریشن تھیٹر کے کمرے میں داخل ہوا ایک نظارہ دیکھا۔ بے ہوشی کے ڈاکٹر بڑی مشکل سے رگ معلوم کر کے اس میں دوا انجیکٹ کر رہے تھے۔ نرس کا نام و نشان نہیں تھا۔ تاہم ڈاکٹر اور دوسرے پیرا میڈیکل سٹاف دس بارہ کی تعداد میں مریض کے گرد کھڑے تھے اور چند ایک تو گپ لگا رہے تھے۔ کسی نے کاہلی سے پوچھا وہ ڈریسنگ کٹنگ والی قینچی کہاں ہے؟ تو دوسرا پٹی کا سِرا تلاش کر رہا تھا۔

میں نے دوڑ کر فارمیسی سے تین چار بلیڈ اور سٹور سے دو قینچیاں اُٹھائیں۔ چار لوگوں میں تقسیم کر دیں اور خود بھی جُت گیا۔ پانچ منٹ میں مریض کی سر سے پاؤں تک پٹیاں اُتر چکی تھیں۔ میں نے خود ایک طرف سے اسے گود میں لیا تو دوسرے سٹاف کو بھی شرم آئی اور ایک منٹ میں مریض آپریشن ٹیبل پر تھا۔ اگلے ایک گھنٹے میں وہی مریض جس پر ہم برطانیہ میں پانچ گھنٹے لگایا کرتے، بالکل فریش ڈریسنگ کے ساتھ وارڈ جانے کے لئے تیار تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپریشن کا پورا کمرہ گندی پٹیوں، خون اور پیپ سے لتھڑے ہوئے تولیوں سے بھرا ہوا تھا۔

میں نے اگلے مریض بارے معلوم کیا کہ وہ کس تھیٹر میں جائے گا تو جواب ملا یہ کمرہ فارغ ہو گا تو یہیں ڈالا جائے گا۔ کمرے کی فراغت کا مطلب اس کی مکمل صفائی، اینٹی سیپٹک سپرے اور دوسری مشینوں کی صفائی تھی۔ میں کونے میں کھڑا دیکھ رہا ہوں کہ انچارج ڈاکٹر نے اپنے ٹیکنیشن سے کہا کہ کمرہ صاف کروائیں۔ اُس نے آگے سے نرس کو بتایا، نرس نے او ٹی اے کو آواز دی جس نے ہاؤس کیمپنگ والوں کو فون کیا۔ وہ تشریف لائے تو سویپر کو بُلایا۔ روایت در روایت کا صحیح مطلب میں تب سمجھا۔

میں نے ایپرن باندھا، دستانے پہنے اور خود ہی صفائی میں جُت گیا۔ اب اُن دس صاحبان میں سے ہر ایک میرے ہاتھ سے گند لینے کی کوشش کرنے لگا۔ پر ہر دفعہ میں نے اُسے کسی دوسرے کونے کی صفائی حوالے کی۔ یوں دوسرے سٹاف کی شرم ٹوٹی کہ پروفیسر ہوتے ہوئے بھی یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ بیس منٹ میں میرا اگلا مریض ایک صاف ستھرے آپریشن ٹیبل پر پڑا ہوا تھا۔ ابھی دن کا ڈیڑھ بج رہا تھا کہ میں نے سارا کام ختم کر لیا۔ لیکن جسم تو انگ انگ دُکھ رہا ہی تھا، ذہنی طور پر یہی گھنٹوں کی ورزش ایک ماہ کی ٹینشن گزار چکا تھا۔

کہانی لمبی ہو گئی ہے۔ میرا مقصد چھوٹی چھوٹی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا تھا۔ ہم ہر جگہ، خواہ سوشل میڈیا ہو یا ٹی وی چینل، اخبار ہو یا ایف ایم ریڈیو، شادی بیاہ پر ملاقات ہویا جنازے میں شرکت۔ ہر شخص گندگی کے ہاتھوں شاکی نظر آتا ہے۔ لیکن ہم میں سے کوئی اپنے گریبان میں جھانک کے نہیں دیکھتا کہ میں اس گندگی میں میں مسئلے کا حصہ ہوں یا حل کا۔ اور یہ ذمہ داریاں صرف گندگی اور صفائی درمیان ہی سرحد نہیں بنیں۔ سرکاری یا پرائیویٹ ملازمت میں بارہ بجے سے نماز کی تیاری شروع ہوجاتی ہے اور اکثر و بیشتر نماز کے بعد کوئی سیٹ پر نظر نہیں آتا۔ یہی متقی لوگ اپنے گھر سے جماعت کے لئے پانچ منٹ سے پہلے نہیں نکلتے اور ساتھ تھیلا بھی لے کر جاتے ہیں کہ واپسی پر گھر کا سودا بھی ساتھ لیتے آئیں۔ جن دفاتر میں فنگر پرنٹ پر حاضری دیکھی جاتی ہے، وہاں سب سے زیادہ احتجاج ہوتے ہیں۔ ڈیوٹی کے دوران مہمانوں کی خاطر مدارت، چائے اور کافی خصوصاً افسروں کو اپنا حق لگتا ہے۔

ایسے ماحول میں ٹھنڈے دماغ سے اپنے فرائض بغیر گِلے شکوے کیے اُن تمام پیشہ وروں کو مرا سلامِ عقیدت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments