کارل مارکس اور بیگانگی ذات کا فلسفہ


انسان، اپنے سماج (معروض) کی بدولت ہی انسان ہے۔ ہمارے طور و اطوار، رہن سہن، لباس، زبان اور حتیٰ کہ خیالات بھی سماج کے ہی مرہون منت ہیں۔ اسی حوالے سے ارسطو کہتا ہے کہ ”دنیا الگ الگ افراد کا مجموعہ نہیں ہے، سب کسی نہ کسی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔“ سماج ہی انسان کو حیوانوں کی سطح سے بلند کرتے ہوئے ایسے مقام تک پہنچاتا ہے جہاں کائنات کی باگ ڈور اور تسخیر گویا انسان کے اذن اور عمل پر منتج ہوتی ہے۔

انسان، ارتقاء کی منزلیں طے کرتے ہوئے ایسی جگہ پر آ پہنچا ہے جہاں بات انسان سے بھی آگے پہنچ چکی ہے یعنی مصنوعی ذہانت کی تشکیل سے ”سپر ہیومن“ کی بحث میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کیا مصنوعی ذہانت، انسانی ذہانت کو بائے پاس کرتے ہوئے ”نئے انسان“ کی تخلیق کرسکے گی؟ یہ واقعی ایک اہم سوال ہے لیکن فی الحال یہ ہمارا موضوع نہیں۔ سائنسی ترقی ناصرف انسانیت کے لیے کئی ثمرات لائی ہے بلکہ منفی نتائج بھی ساتھ ساتھ چلتے آئے ہیں۔

دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے تیز تر پھیلاؤ سے انسانی ذہن کو بیگانگی کی بیماری لاحق ہے۔ انسانی زندگی کی بے وقعتی، انسانی ذات و صفات کی بے حرمتی، اخلاق و اقدار کی پامالی، قتل و غارت گری، خودکشی، جارحیت و بربریت، تشدد و استحصال، جنسی وحشت، کام چوری و فرار اور خاندانی و دوستانہ رشتوں کی تباہی الغرض بیگانگی ان گنت روپ میں انسان پر سوار ہے۔ ذہن انسانی میں بیگانگیت کیسے گھر کر گئی ہے؟ اس سوال کا جواب ہی مارکسی فلسفہ کا طرۂ امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ مارکس کے تصور بیگانگیت پر کچھ لکھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ بیگانگیت کیا ہے؟ اس پر کچھ لکھ دیا جائے۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے میں سبط حسن صاحب کی کتاب ”موسیٰ سے مارکس تک“ کا ایک اقتباس ذیل میں نقل کر رہا ہوں۔ وہ رقم طراز ہیں،

”بیگانگی یا لاتعلقی نفسیات کی پرانی اصطلاح ہے۔ اس سے مراد تشخص ذات کا زیاں ہے یعنی وہ ذہنی کیفیت جس کے باعث انسان اپنے معاشرے، اپنی تہذیب حتیٰ کہ اپنی ذات سے بھی کٹ جاتا ہے۔ وہ ہزاروں لاکھوں کی بستی میں بھی اپنے آپ کو تنہا اور بے یار و مددگار محسوس کرتا ہے۔ اس کو اپنے گرد و پیش کی ہر شے اجنبی اور غیر نظر آتی ہے اور وہ معاشرے کی تمام قدروں، تمام سرگرمیوں کو بے معنی سمجھنے لگتا ہے۔ اس ذہنی بیماری کی دوسری علامت لاچاری اور بے بسی کا شدید احساس ہے۔ انسان کو یقین ہوجاتا ہے کہ مجھ کو اپنی زندگی پر بالکل قدرت حاصل نہیں ہے۔ میں نہ اپنے حالات کی اصلاح کر سکتا ہوں نہ میرے عمل سے دنیا میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے، بے مقصدیت کا احساس اس کو سماجی قدروں سے اور بے بسی کا احساس اس کو اپنے کردار اور عمل سے بیگانہ بنا دیتا ہے۔ وہ اپنی شخصیت کھو دیتا ہے۔“

یہاں نہایت ہی شائستگی سے سبط حسن صاحب نے بیگانگی کی تعریف بیان کردی ہے۔ مزید براں، ٹیڈ گرانٹ اور ایلن ووڈز اپنی شہرۂ آفاق کتاب ”ریزن ان ریوالٹ: مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس“ میں بڑی وضاحت سے بیگانگیت کو بیان کرتے ہیں، وہ رقمطراز ہیں،

”انسان اپنے آپ کو خالصتاً حیوانی یعنی لاشعوری فطرت سے الگ کر کے ہی انسان بنا ہے۔ پیچیدہ ترین جانور بھی انسان کے ان حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو اسے انتہائی مختلف نوعیت کے حالات اور موسموں میں بقا کو قائم رکھنے کے قابل بناتی ہیں، سمندر کے نیچے، آسمانوں میں اور یہاں تک کہ خلا میں بھی۔ انسانوں نے خود کو اپنی“ فطری ”یعنی زولوجیکل حالت سے اس قدر بلند کر لیا ہے کہ انہوں نے ماحول پر ایسی حکمرانی قائم کرلی ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں تاہم تضاد یہ ہے کہ انسانوں پر اب بھی ایسی اندھی قوتوں کا غلبہ ہے جو ان کے قابو سے باہر ہیں۔

نام نہاد منڈی کی معیشت کی بنیاد یہ مفروضہ ہے کہ لوگ اپنی زندگیوں اور مقدر پر غلبہ نہیں رکھتے بلکہ نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیاں ہیں جو ماضی کے متلون مزاج اور حریص دیوتاؤں کی طرح ہر شے پر بغیر سوچے سمجھے حکمرانی کرتی ہیں۔ ان دیوتاؤں کے مہا پجاری اپنی زندگیاں ان کی خدمت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ وہ بینکوں اور اسٹاک ایکسچینجوں کو آباد کرتے ہیں، ان کے رسوم و رواج بھی ہیں جن سے وہ لمبا چوڑا منافع کماتے ہیں لیکن جب دیوتا ناراض ہوتے ہیں تو پجاری پریشان ہو جاتے ہیں جس طرح خوفزدہ جانوروں کا ریوڑ اور اسی قدر بے شعور۔“

مندرجہ بالا اقتباسات کے بعد اب مارکس کے فلسفہ ہائے بیگانگی کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔ مارکس نے جس دنیا میں آنکھ کھولی وہ ایسی دنیا تھی جہاں بڑی بڑی بادشاہتیں تہہ و بالا ہو رہی تھیں اور ان کی جگہ ”جمہور“ کے اقتدار اعلیٰ پر قائم حکومتیں لے رہی تھیں۔ صرف یہی نہیں ہو رہا تھا بلکہ جاگیرداریت کے معاشی و پیداواری تعلقات صنعتی سرمایہ داریت کے روپ میں ڈھلتے جا رہے تھے۔ کارل مارکس اور اس کا ساتھی فریڈرک اینجلز اس انقلاب کا بغور جائزہ لے رہے تھے اور سرمایہ دارانہ نظام کے متعلق خدشات اور تحفظات کا اظہار کر رہے تھے۔ ان ہی خدشات و تحفظات اور سرمایہ داریت کی سائنسی تنقید کا ”داس کیپیٹل“ کی تین ضخیم جلدوں میں بیان ہے۔ داس کیپیٹل یا ”سرمایہ“ انسانی تاریخ کی امہات الکتب میں شامل ہے، جو سرمایہ داریت کے سائنسی تجزیہ و تنقید کے مطالعہ کے لیے ناگزیر ہے۔

سرمایہ داریت کے اسی تجزیہ کے دوران مارکس نے اپنے تصور بیگانگی کی کھوج لگا لی۔ مارکس اور اینجلز نے سرمایہ داریت کا مطالعہ کرتے ہوئے، اس حقیقت کا ادراک کیا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ذرائع پیداوار اور پیداواری تعلقات میں شدید ترین تضادات و اختلافات ابھر رہے ہیں، جن کے نتائج میں سے ہی ایک نتیجہ بیگانگی کا المیہ ہے۔ ذرائع پیداوار اور پیداواری تعلقات کے تضاد و اختلاف نے ہی سماجی بیگانگی کو جنم دیا ہے۔ بورثوا و پرولتاریہ، استحصال کردہ و استحصال زدہ، ظالم و مظلوم، آقا و غلام اور جابر و مجبور کے اسی اختلاف کی وجہ سے بیگانگی کا مرض دنیا بھر میں پھیل رہا ہے اور پورا کرۂ ارض ایک ذہنی، فکری، جذباتی، سیاسی، معاشی اور سماجی بحران سے دو چار ہے۔

اس بحران کی جڑیں سرمایہ داریت کے وجود میں ہی مضمر ہیں۔ البتہ، بیگانگی کی ابتداء سرمایہ داریت سے نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کی شاخیں تو کئی ہزار سالوں سے موجود ہیں اور ہر طبقاتی نظام میں ان ہی کا شور مچتا رہا ہے۔ اس حوالے سے سبط حسن صاحب کی کتاب ”موسیٰ سے مارکس تک“ کا ایک اور اقتباس محال نہیں، وہ رقمطراز ہیں،

”شخصیت کی یہ توڑ پھوڑ دراصل اس وقت شروع ہوئی جب معاشرہ طبقات میں تقسیم ہوا اور اس کی وحدت پر پہلی ضرب لگی۔ جن دنوں معاشرہ طبقوں میں نہیں بٹا تھا اور نہ بادشاہتیں قائم ہوئی تھیں بلکہ ہر قبیلے کی نوعیت ایک بڑے گھرانے کی تھی اور لوگ زرعی زندگی یا گلہ بانی یا ماہی گیری کے اشتراکی دور سے آگے نہیں بڑھے تھے تو معاشرہ ایک سالم وحدت تھا۔ معاشرے اور فرد کے مفاد میں کوئی ٹکر نہیں تھی۔ اس وقت تک دیوی دیوتا نہیں بنے تھے اور نہ مذاہب کا ظہور ہوا تھا بلکہ انسان دہر کا قیاس اپنے روز مرہ کے تجربوں سے کرتا تھا۔ وہ جمادات، نباتات، اور حیوانات کے فرق کو نہیں سمجھتا تھا بلکہ اس کا خیال تھا کہ تمام موجودات عالم اس کے مانند فعال اور با ارادہ ہیں۔“

مذکور اقتباس کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ طبقاتی تقسیم و تفریق کی بدولت ہی سماجی خلیج میں اضافہ ہوا اور اس کا خمیازہ ہمیں بیگانگی کے روپ میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ تصور بیگانگی کا بتمام و کمال بیان مارکس کے ”1884 ء کے سیاسی و اقتصادی مسودات“ میں ہوتا ہے۔ سبط حسن صاحب تو یہاں تک قرار دیتے ہیں ان مسودات کا مرکزی خیال ہی بیگانگی ذات کا مسئلہ ہے۔ البتہ، یہاں ایک اہم سوال :سرمایہ داریت اور بیگانگی کا کیا تعلق ہے؟ اپنی جگہ موجود ہے لیکن اسے اگلے مضمون کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اور میں اپنے اس اختتامی شعر پر مضمون کو اختتام سے دوچار کرتا ہوں،

اس قدر میں غرق عالم بیخودی میں رہا
کچھ سوجھا بھی تو یہ کہ میں رہا یا نہ رہا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments