پلاٹوں سے آگے زندہ شہر ڈیزائن کریں


دو ہزار چوبیس کی بہار، پھر بے موسمی بارشیں اور اب یک دم موسمی پارہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ درجہ حرارت کی سوئیاں اوپر چڑھنے سے پہلے مہنگائی اور بجلی کے نرخوں نے بھی صارفین کو سنجیدگی سے بہت کچھ سوچنے اور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اور اس سوچ کی وجہ  بھی گزشتہ کئی برسوں میں شتر بے مہار کی طرح بڑھتی بجلی پٹرول، گیس، ایندھن اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں ہیں۔

سخت گرما پنکھے، اے۔ سی، انورٹرز، کولرز، فریج، فریزر سبھی کا محتاج ہے لیکن ان کا استعمال اب اکثریت کے استطاعت کے دائرے سے باہر ہو رہا ہے۔ اسی لئے ہر ایک اسی کوشش میں ہے کہ بھلے کچھ ہاتھ تنگ ہو جائے، کچھ قرض پکڑنا پڑے لیکن جلد از جلد متبادل توانائی کے حل اختیار کر لیا جائے۔ جس کے لئے پاکستان جیسے ممالک میں شمسی توانائی ایک بہترین ’آپشن‘ ہے۔ اس لئے آن گرڈ، آف گرڈ، ہائبرڈ جو جس کو سمجھ آ رہا ہے، نصب کروا رہا ہے۔ اور اسی وجہ سے ’سولر سسٹم‘ کا کاروبار عروج پر ہے۔

پہلے سے بنے گھروں کی چھتوں پر اب ’سولر پلیٹس‘ کا راج ہے۔ اور نئی بننے والی رہائشی کالونیوں اور مکانوں میں ’سولر سسٹم‘ کے خرچے کا تخمینہ اب باقی مخصوص خرچوں (سیمنٹ کا ڈھانچہ، سینٹری، بجلی، ٹیلیفون، کیبل کی وائرنگ، پانی کے پائپ، ٹائلوں، رنگ و روغن، تزئین و آرائش وغیرہ) کی طرح شمار کیا جاتا ہے۔ آٹھ مرلے کے دو منزلہ گھر کے لئے کم ازکم دس کے وی اے جس کی لاگت تقریباً چودہ سے پندرہ لاکھ ہے (پلیٹوں کا معیار، ان کو کھڑا کرنے کے لئے اسٹینڈ، اور اسی طرح کے اور بہت سے عوامل صحیح خرچ کا اندازہ دیتے ہیں ) ۔

دو منزل، پانچ مرلہ گھر چھ کے۔ وی۔ اے یعنی آٹھ، نو لاکھ میں پڑتا ہے۔ اور یہی حال کمرشل، صنعتی اور زرعی عمارتوں کا ہے۔ جہاں پر یہ ’فکسڈ کوسٹ‘ سبھی کو کافی مشکل پڑتی ہے۔ لیکن یہ کڑوا گھونٹ اب سبھی پینے کو تیار ہیں تاکہ بھاری بلز اور وقت بے وقت بجلی کی عدم دستیابی سے ایک ہی دفعہ چھٹکارا ملے اور ذہنی کلفت میں کمی بھی ہو۔

اور اس سوچ میں تبدیلی کا عکس آپ کو وقتاً فوقتاً ملتا رہتا ہے۔ آپ گاڑی چلا رہے ہوں، سیر کے لئے نکلے ہوں، بازار جا رہے ہوں۔ اور خاص طور پر نئی بنتی آبادیوں اور عمارتوں میں تو چھتیں سولر پینلز سے ہی بھر گئی ہیں۔ نیلی ٹینکیوں کے ساتھ اب اگر ’سیٹلائٹ یا ڈرون ایریل امیج‘ لیں تو بصری آلودگی میں ایک نئے ’وژول پلوشن آبجیکٹ (وی۔ پی۔ او)‘ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں انفرادی سطح پر ہر کوئی معاشی بوجھ برداشت کر رہا ہے۔

’سولر سسٹم‘ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری الگ ہر شخص پر ہے۔ کبھی ہم میں سے کسی نے سوچا کہ یہی سہولت ’اجتماعی سطح یا کمیونٹی لیول‘ پر ایک ہی جگہ پر دستیاب ہو، جہاں سے ہر ایک کو حسب ضرورت، مناسب قیمت پر بجلی کی فراہمی ہو اور نظام کو لے کر چلنا بھی بہت کم کولیکٹو انسانی، وقت اور پیسوں کے وسائل میں ممکن ہو سکے گا؟ یا صرف سولر، ہوا یا پانی سے بجلی پیدا کرنا ہی گرمی، اور خرچوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہیں؟

بالکل ویسے ہی جیسے صبح کے وقت ایک ہی جگہ سے بیسیوں گاڑیاں الگ الگ، ایک یا دو بچوں کو لے کر ایک منزل پر نکلتی ہیں۔ ہر گھر سے ایک گاڑی، ایک بچہ، وقت، ایندھن اور ہمت کا بے جا استعمال۔ اور اس وجہ سے ہوا اور شور کی آلودگی میں الگ حصہ داری۔ جو کہ بالآخر زمین کا درجہ حرارت بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ہم مل کر یا ڈویلپر اپنی سوسائٹی کے لئے اس طرح کی بسیں چلائیں؟ ’کار پولنگ یا کار شیئرنگ‘ کے عملی تصورات پر عمل کریں؟

اور یہ منظر تو اکثر ہی آپ نے دیکھا ہو گا کہ کسی نے دو، چار گملوں میں، کسی نے تین، چار فٹ کیاری میں ذرا سا پودینہ، پانچ چھ کسی سبزی کے پودے، لہسن کے مٹھی بھر جوے بوئے ہوتے ہیں۔ جس سے نہ تو خود کی ضرورت پوری ہوتی ہے نہ محلے میں کسی کو بھیج سکتے ہیں نہ ہی ماحول کو بہتر کرنے میں کوئی کردار۔ کیا اس سے بہتر نہیں کہ خالی پڑے پلاٹوں کو اس کام کے لئے وقف کر دیا جائے؟ پارکس کا تصور کچھ فعال ہو جائے اگر ہم ان میں سبزی، پھلوں کے کونے بنائیں؟ سڑکوں کے ’میڈیئنز‘ ’لینڈ اسکیپ‘ کے منصوبوں میں انواع و اقسام کے ’ہربز‘ اور کم اونچائی کی سبزیاں اور بیلیں لگائیں۔ گلیوں میں پھل دار درخت لگائیں۔

گرمی کا توڑ صرف متبادل ایندھن نہیں۔ وہ طریقہ کار بھی ہے جو ایسے معاملات میں انفرادی سے اجتماعی کی طرف سفر کرنا چاہیے۔ آبادیاں ڈیزائن کرنے اور بسانے میں پلاٹ بیچنے سے کچھ آگے ایسا کرنے کی ضرورت ہے جو مجموعی طور پر ایک پائیدار مسکن تشکیل کرنے میں مدد دیں۔ ’گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی تبدیلیوں، خوراک کا عدم تحفظ اور اربنائزیشن‘ کی سمت کوئی قدم ہو۔ وقتی اور انفرادی اقدامات شاید کسی ایک کے لئے اور کچھ وقت کے لئے آسانی کر دیں لیکن مستقل بنیادوں پر موثر نہیں ہوں گے۔ اور ایک وقت آئے گا جب پیسہ ہر مصیبت کا علاج بھی نہیں ہو گا۔

اس لئے جو ممکن ہے وہ ضرور کریں۔ اور ممکن تو سب کچھ ہے۔ بات ترجیحات کی ہے۔ سوچ کے انداز کی ہے۔ جس کے لئے شہریوں، اداروں، ڈویلپرز سبھی کو اپنا حق ادا کرنا ہے۔ سادہ لکیروں ست زیادہ شہروں اور آبادیوں کو ’لونگ آرگنزم‘ کی طرف سوچنا ہے۔ اور اس کو ابھی سے ہی کرنا ہے تاکہ ہر طرح کے وسائل کا ضیاع روکا جائے اور کارآمد استعمال ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments