چوہدری حشمت علی عیسائی ہو گیا


موضع اسلام پورہ کے چوہدری حشمت بہت نیک دل زمیندار تھے۔ ان کے دادا کے نام سے منسوب اس گاؤں کی زرخیز زمینیں سونا اگلتی تھیں جس سے پورے گاؤں کی معیشت چلتی۔ وہ انتظامی صلاحیتوں پر بہت اچھی گرفت رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کا گاؤں امن و آشتی کے ساتھ صفائی کا بھی بہترین نمونہ پیش کرتا تھا۔ عیسائی برادری کے چند گھروں کے ساتھ چوہدری صاحب کی خصوصی انسیت تھی۔ اس انسیت کی وجہ اقلیتوں پر خصوصی شفقت کے مذہبی احکامات کے ساتھ چوہدری صاحب کی صفائی پسند طبیعت بھی تھی۔

چوہدری صاحب صفائی کو حقیقتاً نصف ایمان سمجھتے تھے اور اس حوالے سے وہ اپنے آدھے ایمان کے لئے عیسائی برادری کے خصوصی شکر گزار تھے اور اس کا بیشتر مواقع پر برملا اظہار بھی کرتے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ صفائی کے لئے عیسائی برادری کی خدمات کے لیے مسجد کے منبر سے بھی تعریف آئے لیکن اس کے لیے مولوی صاحب کے متذبذب ہونے پر وہ خاموش ہو جاتے اور کبھی خصوصی زور یا زبردستی کا سہارا نہ لیتے۔

آہستہ آہستہ عیسائیوں سے ان کی انسیت اتنی بڑھ گئی کہ ایک روز عیسائیوں کی ایک پوری فیملی نے چوہدری صاحب کے اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ اپنے ان نومسلم بھائیوں کی دلجوئی کے لئے چوہدری صاحب نے مالی مدد کے دروازے کھول دیے مگر ازراہِ مروت انہیں صفائی والے کام سے روک کر متبادل کام دے دیا۔

لوگ کم ہوئے تو صفائی کے کام کا مندا ہونے لگا۔ باقی دو عیسائی فیملیز کا کام بڑھا تو چوہدری صاحب کی ان پر شفقت بھی اسی طرح بڑھ گئی۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ متاثر ہو کر دوسرے عیسائی خاندان نے بھی نے بھی کلمہ طیبہ پڑھ لیا۔ سابقہ روایت کو سامنے رکھتے ہوئے چوہدری صاحب نے ان کو بھی صفائی والے کام سے روک کر متبادل کام دے دیا۔

یوں صفائی کا تینوں خاندانوں کا بوجھ باقی رہ جانے والے اکلوتے عیسائی گھرانے پر آن پڑا۔ اس خاندان نے بہت محنت اور کوشش کی مگر مختصر افراد ہونے کی وجہ سے پورے اسلام پورہ کی غلاظت صاف کرنے میں ناکام رہے۔ یوں گاؤں کی بروقت صاف نہ ہونے والی نالیوں نے پانی رستوں پر نکالنا شروع کر دیا۔ گرد و غبار، گوبر، کھڑا پانی اور کوڑا گلیوں میں تعفن پھیلانے لگے۔ اس صورتحال میں چوہدری صاحب نے اپنی شفقت آخری عیسائی گھرانے کے لیے اور بھی بڑھا دی۔ اس حسن اخلاق کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ آخری خاندان بھی ایک جمعہ کی بابرکت صبح کو مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ گاؤں میں سو فیصد مسلمان آبادی ہو جانے پر جمعہ کے خطبہ میں قاری صاحب نے خصوصاً اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سب کو مبارکباد دی اور فرمایا کہ گاؤں اصل اسلام پورہ تو آج بنا ہے۔

جب ساری آبادی مسلمان ہو گئی تو صفائی کا بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ ایک طرف نمازیوں کے کپڑے چھینٹے پڑنے سے خراب ہونے لگے تو دوسری طرف راہگیروں بچوں اور خواتین کو بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ اٹھتی گردوغبار کے طوفان کے آگے صاف کپڑے پہننا مشکل ہو گیا اور تعفن اور گردوغبار کے ساتھ مکھیوں اور مچھروں کی فراوانی نے بیماریوں کا ماحول پیدا کرنا شروع کر دیا۔

اس صورتحال سے چوہدری حشمت سخت پریشان ہو گئے۔ اب وہ کسی مسلمان کو صفائی کے لئے کہہ بھی نہیں سکتے تھے کہ اول تو مسلمان بھائیوں کے لئے کراہت والا کام تھا اور دوسرا گاؤں میں پہلے سے مسلمانوں میں یہ روایت بھی موجود نہ تھی۔ بالآخر چوہدری حشمت نے خاموشی سے یہ روایت خود ڈالنے کی ٹھان لی۔ انہوں نے سیرت طیبہ کی روشنی میں فیصلہ کیا کہ وہ خود اس نیک کام کا آغاز کریں گے اور اس کے بعد دوسرے مسلمانوں کو صفائی کرنے کا حکم دیں گے۔

اس مقصد کے لئے انہوں نے جمعرات کی مقدس رات کا انتخاب کیا تاکہ اگلے دن جمعہ کے اجتماع پر دوسرے مسلمانوں کو حکم دینے کی پوزیشن میں ہوں۔ اس شب جب انہیں یقین ہو گیا کہ سب لوگ سو گئے ہوں گے تو انہوں نے اپنے پلان پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے چپکے سے عیسائیوں سے رکھوائے گئے صفائی کے اوزار پکڑے اور گلیوں کی صفائی شروع کردی۔ چوہدری حشمت کی بدقسمتی کہ اس شب سب لوگ سوئے ہوئے نہیں تھے۔ کسی نے انہیں صفائی کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔

صبح تک پورے گاؤں میں ہر جگہ یہ بات زور پڑ چکی تھی کہ چوہدری حشمت علی عیسائی ہو گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments