بڑا آدمی؛ ایک دھوکے کا سفر


قومی منظر نامے پر ہر گھر میں موجود اس دھوکے کے سفر کا آغاز میں اپنی کہانی سے کرتا ہوں۔ میرے والد صاحب، دادا، پردادا اور جہاں تک خاندانی یاداشت کام کرتی ہے سب کا پیشہ اور ذریعہ معاش کاشتکاری ہی رہی ہے۔ والد صاحب 70 کی دہائی میں بارہویں تک تعلیم حاصل کر کے گورنمنٹ سروس میں آئے تو ساتھ ساتھ خاندانی پیشے کو بھی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ ہمارے لئے مگر یہ شعبہ شجر ممنوعہ قرار پایا۔ وجہ یہ تھی کہ ہمیں بہت پڑھ لکھ کر کوئی بڑا آدمی بننا تھا۔

لاجسٹک مدد تک تو وہ ہماری شمولیت قبول کر لیتے جیسے ڈیرے پر کھانا پہچانا وغیرہ مگر چارہ کاٹنے کے لئے درانتی کو ہاتھ لگانا، کھال سے پانی کاٹنے یا باندھنے کے لئے ”کئی“ (کسی) کو ہاتھ نہیں لگا سکتے تھے۔ پیٹر انجن سٹارٹ کرتے ہوئے ٹس تو نیچے کر سکتے تھے مگر بھینس کا دودھ نہیں دوہ سکتے تھے۔ وجہ واضح تھی کہ ان کاموں میں پڑنے سے ہمارا بڑا آدمی بننے کے لئے درکار فوکس خراب ہوتا تھا۔ بالآخر ہم تعلیمی سفر کے اختتام پر درجنوں ڈگریاں اور سرٹیفیکیٹ لئے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرار منتخب ہو گئے۔

ہم سیٹل تو ہو گئے ہیں مگر آج بھی میرے والد بے خیالی میں مجھ پوچھ لیتے ہیں کہ آپ کسی اور محکمے میں نہیں جا سکتے؟ جب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تعلیم دینے والے محکمے سے بڑا بھی کوئی محکمہ ہے اور استاد سے بڑا بھی کوئی آدمی ہے؟ میرے سوال سے وہ خاموش ہو جاتے ہیں مگر مجھے معلوم ہے وہ مطمئن نہیں ہوتے۔ ان کے مطلوبہ بڑے آدمی کی شکل تو سب والدین کے ذہن میں واضح ہے مگر میں جانتا ہوں کہ سب والدین کی طرح وہ زبان پر نہیں لا سکتے۔

کچھ عرصہ قبل جب فرنیچر کی خریداری کے لئے مجھے ایک مارکیٹ میں جانے کا اتفاق ہوا تو باتوں میں متعلقہ شخص سے اس کے کام کی وسعت کا سوال کیا۔ فرمانے لگے کہ اس مارکیٹ میں 14 دکانیں میری ملکیت ہیں ہیں جہاں میرے 23 ملازم دن رات کام کرتے ہیں۔ مزید استفسار پر بتایا کہ ان کے والد، دادا، اور پردادا بھی یہی کام کرتے تھے۔ ان کے بزنس کی وسعت کا اصل اندازہ تب ہوا جب انہوں نے لوڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے چار ماہ سے پہلے فرنیچر ڈلیور کرنے پر معذرت کی۔ اب میں نے ان سے وہ سوال پوچھا جو میرا اصل مطمح نظر تھا۔ ”کیا آپ کے بچے بھی یہی کام کریں گے؟“ اس پر اس کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا اور انہوں نے ضبط کرتے ہوئے بتایا کہ ہر گز نہیں۔ میرے بچے تو پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنیں گے۔

گاڑی کی جس ورکشاپ پر جاتا ہوں وہ میرے دوست ہیں۔ وسیع تجربے اور مہارت کے حامل ہیں۔ بڑی انویسٹمنٹ کر کے سیٹ اپ بنایا ہوا ہے جو خوب چلتا ہے۔ ان کے ہاتھ میں جادو ہے۔ مردہ گاڑی میں جان ڈال دیتے ہیں۔ اکثر ان کے بچوں بارے بات ہوتی رہتی ہے۔ ایک روز میں نے مناسب موڈ دیکھ کر گفتگو اسی طرف موڑ دی۔ آپ کے بچے بھی مکینک کا کام کریں گے؟ ”خدا نہ کرے وہ یہ کام کریں۔ وہ تو پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بنیں گے“ ۔ تو آپ یہ کاروبار اپنے کس شاگرد کو سونپیں گے؟ اس سوال پر ایک اداسی ان کے چہرے پر ٹھہر گئی۔

میں نے بہت سے لوگوں سے ملتے جلتے سوال پوچھے اور انٹرویو کیے تو بچوں کی تعلیم کے حق میں پائے والے تمام والدین کو اسی طرز سے ملتی سوچ کا عکاس پایا۔ وہ اپنے بچوں کو اپنا پیشہ منتقل نہیں کرنا چاہتے تھے مگر واضح نہیں تھے کہ ان کے بچے کیا کریں گے۔ بالآخر میں نے خود سے ایک اہم قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور پہلی دفعہ ہی اس کا نتیجہ پا کر بے حد مسرور ہوا۔

پچھلے ہفتے جب میں ریاض حجام کے پاس گیا تو مجھے کرسی پر بٹھا کر ایپرن ڈالتے ہوئے اس نے خود ہی بے تابی سے بتانا شروع کیا کہ پروفیسر صاحب میں نے آپ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنے میٹرک پاس بچے کو اسلام آباد بھیج دیا ہے۔ وہاں ہمارے ایک عزیز کا سیلون ہے جو حجام کا کام کرتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ کیسے اس نے اپنے بیٹے پر واضح کر دیا ہے کہ دو سال کے بعد اس کے باپ کا تمام سرمایہ اور تجربہ اس کے نئے بننے والے وی آئی پی سیلون میں اس کے ساتھ ہو گا۔ اس نے فخر سے بتایا کہ میرا بیٹا اپنے آبا سے سو درجہ بہتر حجام بنے گا بلکہ جدت کو اپنا کر نام اور پیسہ دونوں کمائے گا۔

حجام کی اس بات پر مجھے چیکو سلواکیہ کے باٹا موچی کی کہانی یاد آئی کہ کیسے ہاتھ سے جوتے سینے والے باٹا موچی کا ورثہ چند ہی نسلوں کے بعد دنیا کے 70 ممالک میں پانچ ہزار سے زائد برانچز کی صورت میں قریب قریب ہر شہر میں پھیلا ہوا ہے جب کہ پاکستان میں لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں بڑا آدمی بننے کے سراب میں اپنی ہزار ہا سالہ خاندانی تجربہ کی وراثت سے محروم ہو رہی ہیں۔

ان بچوں اور ان کے والدین کو ریاستی اور معاشرتی سطح پر یہ باور کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ بڑا آدمی ہونے کا تعلق پیشے، تعلیم، ذات، برادری اور علاقائیت کے ساتھ منسلک نہیں بلکہ انسان کی عظمتِ کردار کے ساتھ ہے۔ اس سراب کے پیچھے اپنے آبائی پیشے اور کاروبار کو مت چھوڑیں بلکہ اپنے آبائی پیشے سے متعلقہ ہی جدید ترین تعلیم اور تربیت حاصل کریں۔ جدت اور آبائی تجربہ کو اپنا کر وہ اپنا اور اپنے ملک دونوں کا نام روشن کر سکتے ہیں اور یہی بڑے آدمی کی ایک نشانی بھی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments