سائنس جوتے کی نوک پر اور جہالت سر کا تاج


قائد اعظم یونیورسٹی میں منعقد ہونے والا ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب سائنس فیسٹیول ملتوی کر دیا گیا، اس سے پہلے غالباً 2022 میں بھی کچھ اسی عنوان کے تحت ایک تقریب منعقد کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ بھی ملتوی کرنا پڑی تھی۔ سائنس فیسٹیول ملتوی کرنے کی بنیادی وجہ مذہبی اکابر کا دباؤ بتایا جا رہا ہے۔

مذہبی فکر کا خیال ہے کہ اس قسم کے سیمینار ملک بھر میں گمراہی پھیلانے کا سبب بنیں گے اور اس طرح کے کام کر کے یونیورسٹی کی انتظامیہ احمدیت کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ چونکہ ڈاکٹر عبدالسلام جنہیں فزکس کے شعبہ میں نمایاں خدمات سر انجام دینے پر نوبل پرائز سے نوازا گیا تھا کا تعلق بھی احمدی فرقے سے تھا۔

مہذب دنیا میں ”مذہب یا عقیدہ“ کو ایک انسان کا انتہائی نجی عمل قرار دیا گیا ہے اور اس حقیقت کو واضح کر دیا گیا ہے کہ ریاست کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ کافی حد تک مذہبی تنازعات سے اپنا دامن چھڑوا چکے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل پرائز ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے دیا گیا تھا یا فزکس کے شعبہ میں مہارت یا خدمات کے عوض دیا گیا تھا؟ ظاہر ہے اپنے شعبہ میں خدمات کی وجہ سے ہی انہیں یہ اعزاز دیا گیا تھا۔ اب رہا یہ سوال کہ کیا سائنس، علم اور سوال کا کوئی مذہب ہوتا ہے؟

بالکل بھی نہیں، اگر ایسا ہوتا تو مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگ آج ایک ساتھ سائنسی برکات سے مستفید نہ ہو رہے ہوتے۔

حیرت ہوتی ہے ان پر جو سائنس کو گمراہی کا علم بھی سمجھتے ہیں لیکن اس کی برکات کو سمیٹنے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مذہبی فکر سائنس سے اتنی خائف کیوں ہے؟

کیا سائنس گمراہ کرتی ہے؟
اگر ایسا ہی ہے تو پھر بہت سارے کٹر مذہبی سائنس کی فیلڈ کیوں چنتے ہیں؟
ضروری تو نہیں نا کہ سائنس کے مختلف میدانوں میں خدمات سر انجام دینے والے لامذہب ہی ہوں؟

سائنس کا علم حاصل کرنے کے لیے لامذہب ہونا کوئی شرط بھی نہیں، اگر ہے تو براہ کرم ہمارے علم میں بھی اضافہ فرما دیجیے۔

بنیادی وجہ سوالات کی گردان ہے، سائنسدان جب لیبارٹری میں ہوتے ہیں تو ان کے پاس سوالات کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے جن کا سراغ لگانے کے لیے وہ اپنی پوری زندگیاں تیاگ دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

وجہ صرف اتنی سی ہے کہ سائنس کے دامن میں سوال کی لامتناہی گنجائش موجود ہوتی ہے اور وہ کسی بھی قسم کے نتائج سے ہرگز خوفزدہ نہیں ہوتی۔

یہی وجہ ہے کہ سوال کی چوٹ یا گہری ضرب سائنس تو برداشت کر سکتی ہے لیکن مذہبی ذہن بالکل بھی نہیں کر سکتا۔

بنیادی وجہ یہ ہے کہ سائنس کی ڈومین میں سوالات کی صورت میں ”تشنگی اور جستجو“ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور اس میں اتنا حوصلہ اور ظرف ہوتا ہے کہ صدیوں بعد بھی وہ اپنے ماحصل سے رجوع کر سکتی ہے اور پہلے سے حاصلات آسانی سے مسترد کر سکتی ہے۔

لیکن مذہب کی ڈومین میں ایسا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔ چونکہ اس کی بنیاد عقیدہ پر ٹکی ہوتی ہے اور عقیدہ ”گرہ“ کو کہتے ہیں جسے اہل مذہب مضبوطی سے اپنے ذہن میں لگا لیتے ہیں، جس کے بعد سوال کی گنجائش بالکل ختم ہو جاتی ہے صرف تسلیم کرنا باقی رہ جاتا ہے۔

اسی لیے سائنس کی زبان اور مذہب کی زبان میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ مذہب اٹل اور حتمیت کا دعویٰ کرتا ہے جس میں تبدیلی ناممکن ہوتی ہے جبکہ سائنس حتمیت کا قطعاً کوئی دعویٰ نہیں کرتی۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ سائنس کی طرح مذہبی فکر بھی اپنا دامن کشادہ رکھتی اور مذہب کو ذاتی دائرہ کار میں پریکٹس کرنے سے کسی کو بھلا کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟

عقیدہ اور علم میں ٹکراؤ ہمیشہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم زبردستی سائنس میں مذہب اور مذہب میں سائنس کو داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مذہب کے نام لیوا زبردستی سائنس کو کلمہ پڑھانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔

ان کاوشوں سے سائنس کا تو کچھ نہیں بگڑتا البتہ مذہبی فکر ڈگمگانے لگتی ہے، فلسفہ اور سائنس کا علم تشکیک و تشنگی کے دامن کو وسیع کرتا چلا جاتا ہے جبکہ روایتی بندوبست ان دونوں اہم عناصر پر قدغن لگاتا ہے اور سوال کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

مذہبی فکر سوال سے خائف ہے اور انہیں بڑے اچھے سے پتا ہے کہ اگر ہمارے سماج میں ”سوال“ کو آزادی مل گئی تو ہم بالکل بے بس ہو جائیں گے۔

اگرچہ جاوید احمد غامدی ایسے ماہر علم الکلام اپنے تئیں سائنس اور فلسفیانہ اصطلاحات کی مدد سے آج کے ذہن کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں کر پا رہے بلکہ مذہبی تشریحات مزید پیچیدہ ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ روایتی علما چونکہ گفتار کے غازی ہوتے ہیں اور مطالعہ سے کوسوں دور، اسی لیے یہ سائنس کی مخالفت میں پیش پیش رہتے ہیں۔

قائد اعظم یونیورسٹی میں سائنس فیسٹیول منعقد کرنے کا مقصد اس سے زیادہ نہیں تھا کہ ہمارے سماج میں سائنس اور سائنسی رویوں کو فروغ ملے۔ اس تقریب کا مطمح نظر صرف سائنس تھا نا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کے عقیدے کو زیر بحث لانا۔

لیکن ہمارے علما کو تو شعور کا گلا گھونٹنے کے لیے کوئی نا کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے اور وہ انہیں عبدالسلام کی صورت میں مل گیا اور ابتسام الٰہی ظہیر نے فتویٰ جڑ دیا کہ ہم سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور یہ بات انہوں نے اپنے منہ پر لگے مائیکرو فون کے ذریعے سے کہی جو سائنس و ٹیکنالوجی کا کرشمہ ہے۔

یہاں جہالت اور بے خبری کی بالادستی تو چل سکتی ہے لیکن سائنس اور شعور قطعی گوارا نہیں کیونکہ شعور کی ترویج سے انہیں اپنا کردار دھندلاتا ہوا سا دکھائی دینے لگتا ہے۔

ظہیر برادران سے ایک سنجیدہ سا سوال پوچھنا تو بنتا ہے نا کہ چلیں سائنسدان تو انسانی دکھوں کو سکھوں میں بدلنے کے لیے کچھ نا کچھ کر رہے ہیں لیکن آپ کا کارنامہ کیا ہے؟ بلکہ ہم تو کہیں گے کہ اپنا ظرف اور حوصلہ وسیع کیجیے اور عوام کو بتانے کی زحمت گوارا کیجئے کہ آپ کی ساری رنگ رنگینیاں سائنس کی مرہون منت تو ہیں۔

ویسے مولانا ابتسام ظہیر کو اس سلسلے میں زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہم نے تو پہلے ہی سائنس اور شعور کو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے، حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جعلی سائنسی پیپرز کی اشاعت میں پاکستانی محققین دوسرے نمبر پر ہیں، کیا آپ کو پتا کہ پہلے نمبر پر کون ہے؟

”سعودی عرب“

جہاں جنات سے بجلی پیدا کرنے کے متعلق ہمارے سیانے بیٹھک کر سکتے ہیں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے بھائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments