چالیس برس پہلے کا مئی اور ڈاکیہ!


نہ جانے قسمت مہربان تھی یا ڈاکیہ کہ ایک خط وہاں پہنچ ہی گیا جہاں اسے دس دن پہلے پہنچنا چاہیے تھا۔
تئیس مئی، 1984۔

ہم لکھ چکے ہیں میڈیکل کالج میں داخلے کی خبر تو فروری کے آخیر میں ہی مل چکی تھی اور یہ بھی کہ ہر طرف سے مبارکبادیں مل رہی تھیں۔

رشتے دار، محلے دار، سہیلیاں، کلاس فیلو۔ کوئی نہ کوئی آتا رہتا۔ مبارک باد کے ساتھ یہ جملہ۔ ہمیں تو پہلے ہی پتہ تھا۔ ہم منہ کھول کر دیکھتے، ہائیں۔ انہیں کیسے پتہ تھا؟ امتحانوں سے تو ہم گزرے اور پھر بھی ہمیں پتہ نہیں تھا۔

اگلا جملہ کچھ یوں ہوتا۔ ہائے اب یہ چلی جائے گی۔ پانچ برس۔ اتنا طویل عرصہ؟ امی اداس لہجے میں کہتیں۔ خیر صلا۔ گزر جائے گا یہ وقت۔ پتہ بھی نہیں چلے گا۔ آپا بھی اداسی سے مسکرا دیتیں۔ اور ہم۔ ہم جوش سے کہتے۔ کون سا سات سمندر جا رہی ہوں میں کہ پھر آ ہی نہ سکوں؟

لیکن شاید ایسا ہی تھا۔ اٹھارہ برس کی لڑکی پھر کبھی اس گھر واپس نہ جا سکی۔
موضوع بدلنے کے لیے کوئی کہتا۔ سنا ہے میڈیکل کالج کا کوئی یونیفارم نہیں ہوتا؟

ہاں۔ سب سے زیادہ یہی تو مزے کی بات ہے۔ روزانہ رنگ برنگے نئے فیشن کے کپڑے پہنیں گے۔ ہم چہکتے ہوئے کہتے۔

نت نئے کپڑوں کے نام سے سب لڑکیوں کے چہرے دمکنے لگتے۔ اوہاں کتنا مزا آئے گا نا یونیفارم کی بجائے اپنی مرضی کے کپڑے اور وہ بھی ہر روز۔

ہم زور و شور سے سر ہلاتے ہوئے امی کی طرف دیکھتے۔
امی فوراً کہتیں، ہاں ہاں۔ سل رہے ہیں کپڑے۔
امی اور بھی بہت کچھ چاہیے ہو گا ہوسٹل میں۔ ہم کہتے۔
ہاں۔ لسٹ بنا لو۔

ہم کاغذ پینسل سنبھال لیتے مگر کچھ سمجھ ہی نہ آتا کہ کیا ہو گا وہاں اور کیا نہیں؟
ہممم۔ برتن اپنے ہونے چاہئیں۔ چائے تو پینی ہے نا۔ ہاں پیالی چاہیے۔
اچھا آپا سے پوچھتے ہیں۔ وہ بھی تو رہ کر آئی ہیں نا ہوسٹل۔

ان دنوں آپا کے حمل کے آخری دن چل رہے تھے سو وہ موضوع ہماری تیاری سے زیادہ اہم تھا۔ ہو جائے نا آپا کی زچگی، پھر مل بیٹھ کر تیاری کریں گے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ آپا کی زچگی ویسے نہیں ہو سکی جیسا سب نے سوچ رکھا تھا اور رہ گئی تیاری۔ آپا کی پریشانی میں وہ کسے یاد رہتی۔

آپا کے کلاسٹومی بیگ سے نمٹتے، چھوٹی بچی کی قلقاریاں سنتے، معاشی حالات سے پریشان امی ابا کے سُتے ہوئے چہرے دیکھتے اور سکول کی نوکری کرتے ہم بھول ہی گئے کہ ہمیں میڈیکل کالج جانا ہے اور وہ بھی عنقریب!

اس دن بھی ہم سکول میں بچوں کو پڑھا رہے تھے۔ آپا کا کلاسٹومی بیگ تبدیل کرنے کے بعد گھر سے بھاگم بھاگ واپس پہنچے تھے جب انتظامیہ کے دفتر سے طلبی ہوئی اور فوراً کے حکم نامے کے ساتھ۔

ہانپتے کانپتے دفتر پہنچے تو دیکھا چھوٹی بہن موجود۔ ہماری تو مانو جان نکل گئی کہ کہیں کچھ آپا کو تو نہیں ہو گیا؟ ابھی ابھی تو ہم گھر سے واپس آئے ہیں۔

بہن بھی پریشان نظر آ رہی تھی۔ ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔ کہنے لگی، جلدی گھر چلو۔ امی نے کہا ہے ساتھ لے کر ہی آنا۔

ہمارے چہرے پہ ہوائیاں اُڑنے لگیں، بتاؤ تو؟ ہوا کیا؟
ڈاکیہ آیا تھا اور یہ خط دس دن پرانا ہے۔ وہ بولی۔
کیا مطلب؟ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آیا۔
وہ۔ وہ۔ ڈاکیہ اسے پرانے گھر لے کر گیا۔ ہم تھے نہیں۔
تو؟
اب وہ ہمارا ایڈریس پوچھ پاچھ کر دینے آیا ہے لیکن دیر ہو گئی ہے۔
افوہ کس بات کی دیر ہوئی ہے؟ ہم جھنجھلائے۔

یہ تمہارا ایڈمیشن لیٹر ہے۔ دفتر میں کل صبح تمہیں حاضر ہونا ہے، فیس جمع ہو گی، رول نمبر ملے گا اور پرسوں سے کلاسیں شروع۔

کیا؟ کل؟ ہمارے منہ سے دبی دبی چیخ نکلی۔
چلو، گھر چلو فوراً۔ وہ ہمارا بازو کھینچتے ہوئے بولی۔

ہوا یہ تھا کہ لاہور میں داخلہ درخواست پہ ہمارا پرانا ایڈریس لکھا تھا اور وہ مکان دو ماہ پہلے ہم چھوڑ چکے تھے۔ ڈاکیے نے نیا مکان ڈھونڈنے میں دس دن لگا دیے تھے اور اب تئیس مئی کو دوپہر ایک بجے یہ علم ہو رہا تھا کہ چوبیس مئی کو کالج میں حاضری ہے۔

ہم نے فوراً ہیڈ ماسٹر صاحب کو بتایا۔ ساتھی ٹیچرز اور بچوں کو خدا حافظ کہا اور جلدی سے گھر کو بھاگے جہاں امی اور آپا فکرمند چہرے لیے ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔

ابا دفتر سے آئے، سن کر وہ بھی پریشان ہوئے۔ کیسے پہنچے گی یہ لاہور رات میں؟ آج کا زمانہ تو تھا نہیں کہ ہر وقت کچھ نہ کچھ میسر۔ بسیں وقت پہ چلتی تھیں۔ فلائنگ کوچز کا آغاز ہوا نہیں تھا۔ گھر میں گاڑی تھی نہیں۔ فیصلہ ہوا کہ رات کی ریل گاڑی لی جائے تب تک چیزیں سمیٹی جائیں۔

چھوڑنے کون جائے گا؟ ابا دفتر سے چھٹی شام کے وقت کیسے لیں؟ امی بیمار بیٹی اور نواسی کو چھوڑ کر کیسے جائیں؟ دونوں بڑے بھائی موجود تھے سو کس کو بھیجا جائے ساتھ؟ بڑے بھائی لڑکیوں وغیرہ سے ویسے ہی خار کھاتے تھے اور کچھ ہمارے سفارتی تعلقات ان دنوں بھی کشیدہ ہی رہتے تھے سو قرعہ منجھلے بھائی کے نام نکلا جن سے ہماری نبھتی تھی ( ان دنوں ) ۔

ہم خوش تھے، ہم اداس تھے۔ سب کچھ آنا فانا۔ جیسے ایک دم کسی مینار سے دھکا دے دیا جائے۔

امی نے ہمارے کپڑے جوتے اکٹھے کیے۔ کون سے لے کر جائیں گے؟ کون سے نہیں؟ ہمیں لان اور وائل پہننا ہمیشہ سے پسند تھا سو وہی رکھے گئے۔ جس جس کا میچنگ دوپٹہ نہیں تھا، شام شام میں ارجنٹ رنگوایا گیا۔ جوتے، پرس، بیگ، کنگھی، شیمپو، صابن، تولیہ۔ امی سب کچھ جلدی جلدی پیک کر رہی تھیں۔

ابا چیک بک نکالے بیٹھے تھے۔ کالج فیس اور ہوسٹل فیس سال بھر کے لیے یک مشت جمع کروانی تھی۔ کتابیں خریدنی تھیں اور نہ جانے کس کس چیز کی ضرورت پڑے گی؟

شام ہو گئی۔ جدائی کا وقت آن پہنچا۔ ہم نے پشاور سے کراچی جانے والی تیزگام پر بیٹھنا تھا۔ ٹکٹس کی بکنگ تو تھی نہیں سو بغیر بکنگ والا ڈبہ ہی ہماری امید تھا۔

اس شام آپا کو ہم سب بھول ہی گئے جو ایک طرف تو انتہائی شاداں تھیں کہ ان کی چھوٹی لاڈلی بہن خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے جا رہی ہے اور دوسری طرف اداس اور فکرمند کہ اب کیا ہو گا؟

چلو بھئی نکلنے کی کرو، ٹرین کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ ابا نے کہا۔

ہمیں آج تک یاد ہے ہم نے کاسنی رنگ کا آدھی آستین والا شلوار قمیض پہنا۔ جارجٹ کا آدھا دوپٹہ گلے میں ڈالا اور اس کے اوپر لان کا بڑا سا دوپٹہ اوڑھ لیا کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے سے پہلے کی احتیاطی تدبیر تھی یہ۔

ابا نے سر پہ ہاتھ پھیرا، امی نے منہ چوما، بہنوں نے گلے لگایا، چھوٹے بھائی اور بھانجی کو ہم نے پیار کیا، منجھلے بھائی نے ہمارا سوٹ کیس اٹھایا اور لیجیے چلی ہماری سواری!

صاحبان چالیس برس پہلے کی روداد لکھتے ہوئے ہم اداس ہو گئے۔ اب نہ ابا ہیں نہ امی۔ وہ گھر بھی کہیں نہیں اور وہ چھوٹی سی لڑکی بھی کب کی کھو چکی، وقت اور زمانے کے ہاتھوں!
باقی آئندہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments