صدر رئیسی کی مرگ: حکومتی غفلت یا بیرونی مداخلت


امریکی مسلط کردہ جابرانہ پابندیاں، اندرونی کشیدگی حالات اور لاغر معیشت جیسے مسائل کے بوجھ تلے لڑکھڑاتے ایران کے کندھوں پر اپنے نہایت تجربہ کار صدر کی موت کا صدمہ بھی آن پڑا ہے۔

حالیہ چند سالوں میں ایران نے اپنے کئی اہم حکام کھوئے ہیں۔ یہ تمام کے تمام یا تو کسی بچھائے گئے جال کا شکار ہوئے ہیں یا پھر کسی قدرتی حادثے کا، بس جن حادثات کی تہہ تک نہیں پہنچا جا سکا تو پھر اسے قدرتی حادثہ قرار دے دیا گیا۔ تمام مرنے والوں میں ایک بات مشترکہ تھی کہ وہ سب اپنی اپنی فیلڈ کے سب سے اعلیٰ، قابل اور تجربہ کار شخصیات تھیں پھر چاہے وہ کوئی سیاسی حکمران ہو، سائنسدان یا پھر فوجی افسر ہی کیوں نہ ہو۔

حالیہ ہیلی کاپٹر حادثے میں بھی ایران دو اہم شخصیات سے محروم ہوا ہے۔ ایک تو وزیر خارجہ امیر عبدالہیان (وزارت خارجہ امور کے ماہر اور ایرانی نیوکلیئر معاہدات میں شامل ہونے والا اہم رکن) تھے، اور دوسرے صدر ابراہیم رئیسی جو کہ ایران کی سیاسی پسماندگی میں اپنی قابلیت کے دم پر ابھرنے والے انتہائی سمجھدار اور تجربہ کار حکمران تھے۔

پچھلے ایرانی صدر حسن روحانی کی نسبت مرحوم رئیسی کا اسرائیل اور امریکہ کو لے کر زیادہ سخت روّیہ تھا۔ روس اور چین کے ساتھ ایران کے تعلقات کو مزید بہتر بنایا اور اپنے نیوکلیئر پروگرام کو بھی پہلے سے تیز کر دیا تھا۔ انہوں نے حزب اللہ اور حماس جیسی تنظیموں کی مالی اور عسکری امداد کو بھی بڑھا دیا تھا۔ ان تین سالوں میں وہ ایران کے ایک طاقتور اور انتہائی اہم اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیت بن کر ابھرے تھے۔ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سب سے طاقت ور شخص بننے کے بہت قریب تھے اور امکان تھا کہ وہ اعلی ترین مقام پر فائز ہوں گے یعنی اگلے رہبر اعلیٰ بن جائیں گے۔ مگر ایک ڈرامائی موڑ نے ایسا نہ ہونے دیا۔

یہ حادثہ اُس وقت پیش آیا جب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ اور کچھ دیگر افسران سمیت آذربائجان کے ڈیم کی افتتاحی تقریب سے واپس آرہے تھے اور راستے میں ہی موسمی خرابی کی وجہ سے صوبے مشرقی آذربائجان میں اُن کا ہیلی کاپٹر تباہ ہو گیا تھا۔

فی الحال موسمی خرابی کو اس حادثے کی وجہ بتایا جا رہا ہے مگر یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہو۔ ماضی میں موساد نے ایران کے اندر کچھ کامیاب مگر خاموش کارروائیاں سر انجام دی ہیں۔ اس حادثے کو اس لیے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ صدر کے ہیلی کاپٹر کے ساتھ دو اور ہیلی کاپٹر بھی تھے، مگر تباہ صرف وہی ہیلی کاپٹر ہوتا ہے جس میں ایرانی صدر اور وزیر خارجہ موجود تھے۔ لہذا دلچسپ بات یہ ہے کہ دو ایسے لوگ جو خطے میں ایران کی طرف سے پیدا ہونے والی مصیبت کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ وہ حوثیوں، حماس اور حزب اللہ کے کلیدی حامی ہیں۔ اور اس طرح اسرائیل اور امریکہ کے نظریات کے مطابق، خطے کی تمام پریشانیاں اور تمام عدم استحکام کم از کم کسی نہ کسی طریقے سے، اس ہیلی کاپٹر پر موجود دو لوگوں سے متاثر ہیں۔ مزید برآں یہ کہ ترکی ڈرون کا حادثے کی جگہ کے بارے میں نشاندہی کرنے سے بھی کئی گھنٹے پہلے موساد اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ایرانی صدر رئیسی کی موت کی خبر دے چکا تھا۔ ٹویٹ صرف موت کی آگاہی کے بارے میں تھی کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے کے متعلق نہیں تھا۔

اگر سکے کا دوسرا رخ دیکھے تو ایرانی حکومت پر بھی سخت تنقید کی جا رہی ہے کہ عسکری قوت میں 120 سے زائد ہیلی کاپٹرز کا ذخیرہ ہونے کے باوجود بھی صدر کو 45 سالہ پرانے امریکی ہیلی کاپٹر پر کیوں بھیجا گیا۔ یہ بیل 212 نامی ہیلی کاپٹرز امریکہ کی جانب سے ایران کو 1970 کی دہائی میں دیے گئے تھے اور 1979 کے انقلاب کے بعد امریکی پابندیوں کی وجہ سے تہران کو ائر کرافٹ کے پرزوں کی قلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کچھ رپورٹس کے مطابق، ایران نے بلیک مارکیٹ سے پرزے خرید کر ان ہیلی کاپٹرز کو چلنے کے قابل رکھا۔

ایرو سپیس تجزیہ کار رچرڈ کہتے ہیں کہ، ”ایران کے پاس متبادل روسی ہیلی کاپٹرز کی بھی رسائی ہے، جو کہ خراب موسمی صورتحال میں ایک بہتر آپشن ہے۔“ وہ ایرانی حکومت کی کارکردگی کو تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، ”نصف صدی پرانے ہیلی کاپٹرز کے لیے، بلیک مارکیٹ سے پرزے اکٹھے کرنا اور مقامی سطح پر اُن کی سستی مرمت کرنے کی صلاحیت، ایک بہتر طریقہ کار نہیں ہے۔“

دھندلا پن اور خراب موسم میں پیش آنے والے اس حادثے کے متعلق ہونے والی تحقیقات بھی ابھی تک دھندلاہٹ کا شکار ہے۔ لہذا جب تک اس حادثے کی تہہ تک جا کر تحقیقی اور تفصیلی کھوج نہیں لگائی جائے گی تب تک ایک دوسرے پر صرف الزامات لگتے رہیں گے۔ پھر چاہے تو موسم ہی اس حادثے کے پیچھے ایک اہم مسئلہ کیوں نہ ہو۔ اس خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، ایرانی صدر رئیسی کی موت پر اٹھنے والے شک و شبہات، مڈل ایسٹ میں پہلے سے لگی ہوئی آگ کو مزید بھڑکا سکتے ہیں۔

کیونکہ اگر اس حادثے میں کسی بھی بیرونی طاقت کے ملوث ہونے کا سراغ لگ گیا تو پھر ایران بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ بے شک اس کے حملے سے کوئی جانی نقصان نہ ہو مگر وہ بدلہ لینے کے لیے حملہ لازمی کرے گا۔ جیسے کہ وہ قاسم سلیمانی کی شہادت کے جواب میں عراق میں موجود امریکی فوجی اڈے پر اور دمشق میں موجود ایرانی کونسلیٹ پر اسرائیلی حملے کے جواب میں اسرائیل پر میزائلوں کی بھرمار کر چکا ہے۔

اس لیے یہ ایران کے لیے بڑا ضروری ہے کہ وہ اس حادثے کی تہہ تک جائے اور یہ بھی ضروری ہے کہ نئے صدر کی تعیناتی میں کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ صدارت میں بدلاؤ آنے سے مشکل ہی ہے کہ ایران کی خارجہ پالیسی میں بھی بدلاؤ آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments