مس ناز اور یونی فارم کا عذاب


ماما! کل بھی مجھے مس ناز نے ڈانٹا تھا، دوسری ٹیچرز بھی آپ کو گندا کہہ رہی تھیں۔ وہ خود گندی ہیں۔
اردو کی بڑی والی مس کہہ رہی تھیں، کیسی ماں ہے۔ روحان نے ٹیچر کی نقل اتاری۔

بیٹا آج کل آفس میں بہت کام ہے۔ آپ نے دیکھا تھا نہ کل بھی میں کتنا لیٹ آئی تھی۔ مجھے بس یہ فکر تھی، کہ آپ بھوکے بیٹھے ہوں گے۔
سدرہ روہانسی ہو گئی۔

ماما میں بھوک برداشت کر لوں گا، لیکن آج آپ میرے شوز لے آئیے گا۔ مس کہہ رہی تھیں کہ وہ مجھے کلاس میں بیٹھنے نہیں دیں گی۔

بیٹا! مس ایسے ہی کہتی ہیں، آج تو آپ کا آخری پیپر ہے۔ آج اور گزارہ کر لو، یونی فارم کے شوز آپ کو اب تنگ ہو گئے ہیں، کاٹتے ہیں۔ اب تو سارا یونی فارم ہی نیا آئے گا۔ میری سیلری ملے گی تو سب سے پہلے میں آپ کا یونی فارم اور شوز خریدوں گی۔ سدرہ نے پانی کی بوتل اس کے بیگ کے سامنے والی جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔

ماما! نیا اسپورٹس یونی فارم بھی لینا ہے۔ بلو شرٹ کا رنگ وائٹ ہو چکا ہے۔ مس ڈانٹتی ہیں۔
اب بیٹا اس میں میرا تو قصور نہیں۔ سدرہ روحان کے بیگ میں لنچ رکھتے ہوئے بولی۔

جی ماما بلو ٹیم کے سب بچوں کی شرٹ وائٹ ہو چکی ہے۔ سب کو ڈانٹ پڑتی ہے اس لیے مجھے زیادہ برا نہیں لگتا۔ لیکن ود آؤٹ یونی فارم الو نہیں کرتے ناں۔

بیٹا! یونی فارم کی صاف شرٹ آپ نے کل خود نہیں پہنی کہ بچے پھٹی شرٹ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ سدرہ الجھ کر بولی۔

ہاں ماما، اس کا تو کالر ہی نکل رہا ہے، بچے بار بار اسے کھینچ کر مذاق اڑاتے ہیں، وہ تو میں بالکل نہیں پہنوں گا۔ روحان دودھ کا گلاس ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا۔

اسے اتنی بار سیا ہے میں نے، لیکن کالر کی جانب سے وہ بار بار چھی جاتی ہے۔ اس کا اسٹف ہی اتنا خراب ہے۔
ہاں تو آپ اسے ہی دھو دیتیں۔ روحان نے بیڈ پر پڑی شرٹ کی طرف اشارہ کیا۔
سوری بیٹا میں بالکل بھول گئی۔ میں گندی ماما ہوں نہ۔ سدرہ نے اپنے آنسو چھپانے کے لیے چہرہ دوسری جانب کر لیا۔

نہیں ماما، آپ کتنے سارے کام کرتی ہیں۔ میرا تنا سارا خیال رکھتی ہیں۔ میں نے بھی تو یاد نہیں دلایا۔
بس آج آخری پیپر ہے۔ آج یہ والی شرٹ اور یہی شوز پہن جاؤ۔ مس سے سوری کر لینا۔
ماما مس ناز بہت غصہ کریں گی۔ روحان نے ماں کو غور سے دیکھا۔
ماما آپ رو رہی ہیں، نہیں آپ روئیں مت، آپ مجھے یہی یونی فارم والی گندی شرٹ پہنا دیں۔

بیٹا بس آج اور، آپ کا اسکول جا نا بھی ضروری ہے ورنہ میں آپ کو اسکول بھی نہ بھیجتی۔ آپ اب نئی کلاس میں جاؤ گے۔ اس مرتبہ میں چار یونی فارم لے لوں گی۔

تھینک یو ماما، صائم کے پاس بھی چار یونی فارم ہیں۔ وہ کسی روز بھی گندی شرٹ پہن کر نہیں آتا۔
روحان نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں ماں نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔
روحان وین میں بیٹھا، مسلسل اپنی ٹیچر کی غضبناکی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
وین میں سارے بچے کاپیاں کھولے امتحانی سبق دہرا رہے تھے۔ لیکن اس کا ننھا منا دل خوف سے لرز رہا تھا۔ آج بھی وہ میری طرف اشارہ کر کے ایک ایک ٹیچر کو بتائیں گی۔
خدا کرے آج مس نہ آئیں۔ وہ مسلسل دعا مانگ رہا تھا۔

وین سے اتر کر اس نے اپنی میلی شرٹ چھپانے کے لیے اپنا بیگ، کلاس میں جا کر بھی ڈیسک پر رکھنے کے بجائے گود میں رکھ لیا۔ آج ٹیچر کلاس میں موجود نہیں تھیں۔

شاید مس آج نہیں آئیں گی۔ اس نے برابر بیٹھے ہوئے صائم سے ہنس کر کہا۔
مس کبھی چھٹی نہیں کرتیں، مس شاید لیٹ ہو گئی ہیں۔ صائم نے ہاتھ نچا کر جواب دیا۔ اور کاپی میں دیکھ کر رٹا لگانے لگا۔

روحان نے مایوس ہو کر اپنا سر میز پر رکھ دیا۔ اور دل ہی دل میں ٹیچر کے نہ آنے کی دعا کرنے لگا۔

کافی دیر گزر گئی۔ بیل بج گئی لیکن ٹیچر نہیں آئی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ کلاس سے باہر جا کر معلوم تو کرے کہ ٹیچر آئیں گی یا نہیں۔ لیکن گندی شرٹ پہن کر کلاس سے باہر جاتے اسے شرم آ رہی تھی۔ اس نے ایک بچی سے کہا کہ وہ ذرا سن گن لے کر تو آئے کہ ٹیچر آئیں گی کہ نہیں۔ لیکن معصوم ننھے بچے دوسری جماعتوں کی استانیوں سے خوف کھاتے تھے۔ اسے صبر نہیں ہوا، اس نے بیگ اپنے سینے سے لگایا اور جماعت سے باہر آ گیا۔ آفس سے دو استانیاں باتیں کرتے ہوئے آ رہی تھیں۔

ان کے کپڑوں اور بیگ سے ان کی ڈیڈ باڈی پہچانی گئی۔ ایکسیڈنٹ ہوا کب؟
ارے ایک گھنٹہ پہلے، تمہیں تو معلوم ہے وہ سب سے پہلے اسکول آتی تھیں۔ سڑک کراس کر رہی تھیں۔ کتنی اچھی تھیں مس ناز۔
روحان تیزی سے کلاس کی جانب بھاگا اور اپنا بیگ ٹیچر کی میز کی طرف پھینک کر دوبارہ باہر نکل گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments