خوف کا کھیل


میڈم! یہ آپ نے کیا کیا؟ آپ کو یہ کرنے سے پہلے کسی سینیئر افسر سے مشورہ کر لینا چاہیے تھا۔ بڑی مشکل میں پھنس سکتی ہیں۔

کہتے کہتے حضرت میز کے دوسری طرف، سامنے کرسی پر براجمان ہو چکے تھے۔ اور خاتون افسر فائلیں دیکھتی، ان صاحب کی گل افشانیاں اور بے تکلفی ملاحظہ کر رہی تھی۔ اس کی سوالیہ نظروں کے جواب میں صاحب کہنے لگے۔

میڈم! جس فائل کو آپ نے آج دوبارہ کھول کر آرڈر لکھا ہے۔ اس کو تو کئی سال سے کسی نے چھیڑا نہیں۔ جہاں پر رکی ہے، رکی رہے۔ کسی بڑے ڈویلپر کی فائل ہے۔ ابھی تک منظور نہیں۔ لیکن فائل کی حد تک۔ ورنہ زمین پر تو ہزار ایکڑ کی تعمیر ہو کر بک بھی چکی۔ اس لئے فائل کو ہاتھ لگانے اور اپنے دستخط کرنے کا یہاں مطلب صرف اینٹی کرپشن اور نیب کی پیشیاں ہیں۔ آپ یہ جلد بازی نہ کرتیں تو اچھا تھا۔ نئی بھرتی ہونے والے افسروں کو پرانے ریکارڈ سیدھے کرنے کا جوش ہوتا ہے (آنے والا پچھلے آٹھ سال سے اسی گریڈ پر تھا، جس پر بھرتی ہوا تھا اور ڈاکٹریٹ پاس خاتون براہ راست اس کی سینئر بھرتی ہو کر آئی تھی) ۔

منظر بدلتا ہے اور ایک میٹنگ ہال میں کچھ مرد اور خواتین افسر بیٹھے ہیں۔ کسی مرد افسر کو ساتھی دہائیوں بعد ایک پراجیکٹ شروع اور مکمل کرنے پر شاباشی دے رہے ہیں۔ کہ اربوں روپے گورنمنٹ سے لینا اور پھر اسے اسی مقصد کے لئے خرچ کر لینا بڑی بہادری ہے۔ تحسین کے انھی جملوں کے دوران ایک کچھ مرد و خواتین افسر یہ بولتے ہیں۔ جناب! کچھ عرصے بعد ملیں گے تو حال چال پوچھیں گے۔ ضلعی سطح پر پورے صوبے میں جو پراجیکٹ آپ نے کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ ابھی دیکھنا کیسے انکوائریاں آپ کے لئے شروع ہوتی ہیں۔ تب وہ گاجریں بھی آپ بھگتے گے جو آپ نے کھائی ہیں۔ ابھی کا تمغہ تب کالک لگے گا۔ جوانی کے جوش میں بڑی طرح پھنس گئے ہیں ورنہ کسی اور افسر نے اب تک اتنی بہادری کیوں نہیں دکھائی؟ (افسر سبھی حاضرین میں کم عمر واحد ٹیکنو کریٹ منتظم ہے جو بیوروکریسی پر بھاری پڑ رہا ہے۔ )

ابو میرا دل چاہتا ہے کہ میں دینی علوم کا اسکالر بنوں۔ جس کی مہارت جدید مضامین یعنی مصنوعی ذہانت، پلاننگ سپورٹ سسٹمز، مشین لرننگ، روبوٹکس، خلائی سفر اور ایسے سبھی عنوانات میں بھی ہو۔ مجھے قرآن کی باتیں کا عکس سائنسی تفکرات میں نظر آتا ہے۔ باپ حیرانی اور پریشانی سے سوال کرتا ہے۔ تم دینی عالم بننا چاہتے ہو؟ سارا خاندان انجنیئرز کا اور درمیان میں تمہاری یہ پخ؟ معلوم ہے ہماری اپنی انجینئرنگ کی فرم ہے۔ کل کو کہاں نوکری کرو گے؟ اور علماء کی تنخواہ ہی کیا ہوتی ہے؟ چندے، خیرات سے زندگی عبارت ہوتی ہے۔ اور کسی اچھے گھر میں رشتہ تو بھول ہی جاؤ۔ کون دے گا اپنی بیٹی کو؟ ایسے لوگ کم ہی رہ گئے ہیں۔ پھر میں کیا بتاؤں گا؟ دوست احباب میں بہن، بھائی، تمہارا کیا تعارف کروائیں گے؟ (بیٹا ہمیشہ سے ہی ذہین اور قابل ریا ہے۔ اپنے فیصلوں پر کھڑا ہونے والا۔ باقی اولادیں اوسط ہی رہیں۔ اس کی راہ بدلنا، باپ کی امیدوں کا قتل ہو گا۔)

سنا ہے تمہاری جاب ہو گئی ہے۔ جی الحمد للہ۔ بڑا سخت مقابلہ تھا اور کئی طرح کے امتحانات۔ تم جانتی ہو کہ تمہاری ساس کو یہ بات پسند نہیں آئے گی۔ بچوں اور گھر کی طرف ہی وہ توجہ چاہتی ہیں۔ لیکن بچے تو اب ماشاءاللہ کافی بڑے ہو گئے ہیں۔ صبح کے نکلے دو اڑھائی بجے تک واپس آتے ہیں۔ بڑھاپے میں چل پڑی ہو یہ ایڈونچر کرنے۔ میں ابھی چھتیس کی ہوں۔ روز آنا جانا، گھر ڈسٹرب ہو جائے گا۔ بے توجہی سے شوہر بھی بھٹک سکتا ہے۔ شام تک واپس آؤ گی تو کیا خاک گھر گرہستی پر دھیان دو گی۔ دیکھ لو، اونچ نیچ ہو گئی تو پھر تم خود ہی ذمہ دار ہو گی (بہو دس سال کے بعد مقابلے کا امتحان پاس کر کے ایک کمپنی کی سربراہ منتخب ہوئی تھی جو کہ ساس کی بات ’مجھے بہو کا کام کرنا پسند نہیں‘ پر کھلی ضرب ہے ) ۔

آؤ پیرا گلائیڈنگ کرتے ہیں۔ کیوں؟ کیا مطلب کیوں؟ مجھے نہیں جانا۔ بلکہ تم بھی نہ جاؤ۔ وجہ؟ اگر پیراشوٹ وقت پر نہ کھلا تو؟ یاد ہے ناں کچھ دن پہلے ایک مشاق کی کیسے موت ہوئی ہے؟ نیچے جھیل بہہ رہی ہے۔ سیدھا اسی میں ڈوبیں گے۔ خواہ مخواہ خود کی جان مشکل میں کیوں ڈالیں؟ (ایک کم ہمت اندیشوں سے دوسرے کی بہادری پر بند باندھ رہا ہے۔)

بارہویں کے بعد ، جوانو! کون کون سی جامعات میں داخلہ کے لئے فارم جمع کروا رہے ہو؟ فلاں، فلاں، فلاں۔ کیوں؟ ہمارے ملک کی جو بڑی جامعات ہیں، وہ آپ کے ہدف میں کیوں شامل نہیں؟ کہتے ہیں وہاں صرف اشرافیہ کے بچے آتے ہیں؟ ٹیسٹ پاس نہ ہوا تو باقی سال ضائع ہو گا۔ اگر اتنی فیس کے لئے پیسے جمع نہ ہوئے تو پھر اتنی محنت کا فائدہ؟ (محنت سے منہ موڑنے والے، بہانوں کی طویل فہرست کے پیچھے چھپ رہے ہیں)۔

میڈم آپ سے ایک بات کرنی ہے، جی فرمائے؟ میرے پاس جو میٹنگ ایجنڈا آیا ہے۔ اس میں آپ کا بھی ایک نکتہ ہے۔ سبھی کو بھیجنے سے پہلے، میں نے سوچا کہ آپ سے آ کر بات کر لوں۔ کیجئے۔ میڈم کسی افسر نے آپ کی حمایت نہیں کرنی۔ پہلے بھی جب ایک دو نے اس پر بات کرنے کی کوشش کی تو بڑے صاحب بہت برہم ہوئے۔ سب کے سامنے ان کی بے عزتی کی۔ آپ تو جی پھر عورت ہیں۔ نہ ہی پڑیں اس بکھیڑے میں۔ ڈیجیٹل ریکارڈ کیپنگ سے آپ کو اندازہ تو ہے، بہت سوں کی دکان بند ہو گی۔ (اس دفتر میں آنے والی پہلی عورت، جو علم کی دھاک بھی رکھتی ہے۔ اس کی جی داری میں حائل کئی گدھوں کی کہانیاں ہیں)۔

بھائی صاحب! آپ ملک واپس آنا چاہتے ہیں؟ بڑی بے وقوفی کرو گے۔ وہاں ڈالر کماتے ہو تو ادھر ٹھاٹ بنے ہوئے ہیں۔ اولاد مہنگے اسکول کالج میں پڑھ رہی ہے۔ ہماری بہن کا اچھا رشتہ بھی تو اسی ڈالر کی کمائی نے کروایا ہے۔ ادھر آؤ گے تو کیا مکھیاں مارو گے۔ کتنا کما لو گے؟ پھر بد دیانتی ایسی کہ دو دن میں آپ کی بس ہو جانی ہے۔ نہ بجلی ہے نہ گیس۔ باقی بے قاعدگیاں الگ۔ مشکل ہو جانا ہے۔ ورنہ جانے والے مستقل انھی ملکوں میں نہ بستے۔ آپ کو ادھر روٹی کے لالے پڑ جانے ہیں۔ ( ایک طرف وقت کے ساتھ تھکتا پردیسی ہے اور دوسری جانب خون نچوڑتے طفیلیے)۔

قابلیت، ذہانت، اہمیت، دلیری، معمول سے ہٹ کر روش، اور فیصلوں کو ازل سے ڈراوے کا اسیر کیا جاتا رہا ہے اور ایسا کرنے والوں کو دھمکیوں سے روکا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں شک، وہم اور منفی رویے پیدا کرتی ہیں۔ کسی بھی مثبت طاقت اور توانائی کو گھن کی طرح چاٹتی ہیں۔ سچائی کا راستہ کاٹتی اور ذہنوں کو بیمار کرتی ہیں۔ جذبوں کو مدھم اور عزم کو متزلزل کرتی ہیں۔ لیکن اگر ہم یہ جان لیں کہ جو مخالف فریق ’خوف کا کھیل‘ کے کھلاڑی ہوتے ہیں وہ بنیادی طور پر خود خوفزدہ اور پریشان ہوتے ہیں۔ خود کو آپ کے مقابل بنانے کے قابل نہیں ہوتے۔ ان کے پاس صرف ایک ہی ہتھیار ہوتا ہے : دہشت اور فکروں کا۔ واہموں اور ہیبت کا۔ اور جس دن آپ کو اس بات کا ادراک ہو جائے۔ تو آپ مزید بہادر ہو جاتے ہیں۔ آپ زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیں۔ ڈرنے کی بجائے، اس کا توڑ کر لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments