آہنی گھوڑوں پرسوار طالبان اور گیت گاتے ہوئے چرواہے !


سلام خان کاسی نے پوچھا، کہاں جانا ہے؟ ترنت کہا، عالموہ چوک پہ سخی ہوٹل سے چائے پینی ہے۔ پتہ چلا ان کا تو شوروم ہی عالموہ کی ناک پر واقع ہے۔ مگر سلام خان میری بات سمجھ نہیں پائے۔ انہیں لگا مجھے سخی ہوٹل کی چائے میں دلچسپی ہے۔ مجھے تو سخی ہوٹل کے اندر اس گوشے میں دلچسپی تھی جہاں یادوں کا مزار قائم ہے۔ شوروم پہنچ کر سلام خان نے ملازم کو چائے لانے کو کہا۔ میں نے کہا، ہوٹل چلتے ہیں۔ سلام خان نے کہا ، وہاں کیا کرنا ہے رش ہوگا وہاں تو۔ میں نے اصرار کیا کہ اسی رش میں جانا ہے۔ زور دے کر بولے، ارے فکر مت کرو یہیں آجائے گی چائے۔یعنی زمیں جنبد بجنبد گل محمد نہ جنبد۔ یہاں کی مہمان نوازی کا یہی بس ایک تکلیف دہ پہلو ہے۔اگر آپ کو ہیٹر سے الرجی ہے تو بھی ہیٹر جلاکرہی دم لیا جائے گا۔ اگر آپ ہیٹر سے بچنا چاہتے ہیں واپس اپنے گھر جائیں۔ یہاں ہیں تو ہیٹر جلے گا۔ کیونکہ یہ مہمان نوازی کا تقاضا ہے۔ اگر آپ کا من سبزی کھانے کو کررہا ہے، آپ کو گوشت ہی کھلایا جائے گا۔ اگر آپ کہیں میری طبعیت خراب ہورہی ہے تو جواب آئے گا تھوڑا ساگوشت اور کھالواس کے بعد قہوہ پی لوسب ٹھیک ہوجائے گا۔ روایتوں کا کیا کیجیے! محبتوں کا کیا کیجیے!

عالموہ چوک سے ہمایوں کاسی ساتھ ہوگئے۔ہمایو ں کاسی ایک ترقی پسند سیاسی کارکن ہیں۔ صحافت کو خلع کی درخواست دے رکھی ہے۔ وکالت سے رشتہ جوڑنے والے ہیں۔ہمایوں کاسی نے کہا ، برشور چلیں؟ ہم  بھی تیار بیٹھے تھے، چلو چلیں۔ کوہ تکتو کے دامن میں ہم نے مشکیں کسیں اور ہمایوں نے ایڑلگاکرگاڑی کوئٹہ چمن روڈ پہ دوڑادی۔ ہریالی کسے نہیں پسند، مجھے ریگستان اور بے آب وگیا پہاڑ زیادہ پسند ہیں۔ ریگستانوں کے عجز اور خشک پہاڑوں کے غرورسے بننے والا امتزاج ہی اور ہے۔ کچھ دیر تو پہاڑی سلسلوں اور صحرائی وسعتوں میں کھوئے رہے، مگر دبئی ہوٹل آتے ہی سلام خان کاسی کی کمنٹری کا آغاز ہوگیا۔ یہاں کوئٹہ کا سب سے اچھا روش ملتا ہے۔دور دراز سے لوگ آتے ہیں۔ روش دنبے کا گوشت کا بنتا ہے جسے اپنی ہی چربی میں رکھ کر دم دیاجاتا ہے۔ اپنے ہی من میں ڈوب کے پاجا سراغ زندگی۔ یہ رہا کچلاک بازار۔ کچلاک اچھے لوگوں کا علاقہ ہے۔ وہی قبائلی روایت وتمدن کی پاسداری ۔ وہی بلندنگاہی اور سخن دلنوازی۔کسی سے آپ کی شناسائی ہو کہ نہیں، ہونٹوں پہ ہتھیلی کا پیالہ جماکر چائے کی دعوت ضرور دی جائے گی۔تین سیکنڈ کسی سے آنکھیں چار رہیں تو مسکراکروہ حال احوال ضرور کرے گا۔ کچلاک بازار میں اکثرسروں پر وہ پگڑیاں نظر آتی ہیں جو تہذیب کی علامت ہیں۔مگر وہ پگڑیاں بھی کم نہیں جومذہب کی علامت ہیں۔بیشتر ان میں وہ ہیں جن سے کام لیا جارہا ہے دنیا کی امامت کا۔ یہ نماز اور سود کی سخت پابندی کرتے ہیں۔روزہ اور جوا بالکل نہیں چھوڑتے۔ یہ ایک ایسی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے فکرمند رہتے ہیں جہاں حکومت گاڑیوں کا ٹیکس نہ مانگے۔معصوم سی ان کی خواہشیں ہیں۔حورو وغلمان کے وعدے چاہیئں اور ایک ون ٹو فائیو موٹرسائیکل۔ سلمان تاثیر کے مغوی بیٹے شہباز تاثیر کی بازیابی کے لیے سلیم ہوٹل کا انتخاب ویسے ہی تو نہیں ہواتھا۔ یہ دیکھیے، یہ سامنے آپ کے دائیں ہاتھ پہ سلیم ہوٹل ہے۔ بازیابی کے بعد جہاں سے شہباز تاثیر نے اہلخانہ کو فون کیا تھا۔ کچلاک کے لوگ کہتے ہیں کہ تاثیر تو اس وقوعے سے پہلے بھی یہاں داڑھی ٹوپی کے ساتھ دیکھے جاتے رہے ہیں۔ ساتھ کچھ مجاہدین فری سبیل اللہ اور بھی ہوتے اس لیے کبھی مغوی ہونے کا گمان نہیں ہوا۔بلکہ حلیے سے کبھی غیرپشتون ہونے تک کا گمان بھی نہیں ہوا۔ لگتا تھا کہ لشکرجرار کاباقاعدہ حصہ ہیں۔ ضروری تو نہیں کہ کچلاک کے باسی ٹھیک کہتے ہوں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ خدا ہی جانے کون بشر ہے !

کچلاک سے چلیے تو دونوں جانب پھر وہی پہاڑی سلسلے ہیں جو بہت دور جاکر بغلگیر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ سورج کی کرنوں کو بھی ٹھنڈ لگ رہی تھی۔ ورنہ دور حد نگاہ پر سراب کی قبا اوڑھی ہوئی کرنوں کا رقص دیکھتے۔سامنے سڑک کے عین درمیاں یاروچوک ہے۔ چوک کیا ہے، حدِ فاصل سمجھ لیجیے۔ چمن جانا چاہتے ہیں تو اس حد فاصل سے بائیں رہیئے۔ پشین جانا ہے تو سٹئیرنگ پہ قدرے دائیں دباو ڈالیے۔ پشین بھی کیا علاقہ ہے۔اپنی تو یہی نسبت بہت ہے کہ یہاں خان ظفر اللہ خان حضرت ید بیضا رہتے ہیں۔ مگر چلتے جائیے، ابھی رکیے مت۔ یوں سمجھیے آپ نے فیضوگاوں ابھی دیکھا ہی نہیں۔ پرانہ رحمان ہوٹل پہ روش کھایا ہی نہیں۔ یہ جو بائیں ہاتھ کچھ کھنڈرات ہیں ، سمجھیے یہاں کبھی کوئی رہا ہی نہیں۔ بس ذرا دائیں ہاتھ ان دوچرواہوں کو دیکھیے بادشاہوں کی طرح بیابان میں بیٹھے خدا جانے کیا مجلس کررہے ہیں ۔کوئٹہ میں گپ نہیں ہوتی، مجلس ہوتی ہے۔ برا ہو پشین میں کھائے گئے روش کا ، جس نے پلکیں بھاری کردی ہے۔ ہمایو کاسی کی تو زبان بھی تالو سے لگ گئی ہے۔ پاوں بھاری ہوگئے ہیں۔ ایکسیلٹر سے پاوں اٹھاکر بریک پر رکھنے تک کی توفیق اس سے چھن گئی ہے۔ یہ کمبختی نہ ہو تی تو میں چرواہوں کے ساتھ دوچار باتیں کرلیتا ۔ میں نے گاڑی روکنے کا دوبار کہا، مگر اس انٹے غفیل کو جب تک میری بات سمجھ آتی تب تک چرواہے ماضی بعید ہوچکے تھے۔

ہم برشور کیوں جارہے ہیں؟ ہم وہاں ایک بزرگ سیاسی کارکن کے مہمان ہیں۔ جس نے جنرل ایوب خان سے لیکر جنرل مشرف تک چلنے والی ساری سیاسی جمہوری تحریکیں دیکھی ہیں۔ گمان تھا کہ برشور میں مندوویالہ گاوں پہنچیں گے تو سورج غروب ہوچکا ہوگا۔ پہنچے تو وہ ابھی پاوں سمیٹنے کی تیاری میں تھا۔ مندوویالہ میں بائیں جانب ایک ٹیلے پر یک وتنہا ایک گھرہے۔ ہمیں یہیں جانا ہے،مگر ابھی بہت وقت ہے۔ ہمایوں کاسی نے گاڑی دائیں جانب ریگستان میں اتاردی۔ ہمایوں تو گاڑی ایک طرف لگاکر خراٹوں پہ اتر آئے۔ میں اور سلام کاسی اتر کر ریگستان ناپنے لگے۔گزرے ہوئے قافلوں کے نشان تازہ تھے۔آنے والے قافلوں کے لیے راہیں کھلی تھیں۔ بیچ ریگستان کے دو پتھر پہلو بہ پہلو دکھائی دیے۔ ہم جو چل چل کر تھک گئے تھے، یہیں بیٹھ گئے۔ بس سلام خان کے سوال تھے اور میرے جوابات۔خدا جانتا ہے کہ کسی ایک سوال کے جواب میں بھی میں نے یہ نہیں کہاکہ میں نہیں جانتا۔ سامع ہو تو سلام خان جیسا۔ کسی بھی بات سے اختلاف نہیں کیا۔ جو میں نے کہا، اچھے بچوں کی طرح اس پر ایمان لے آیا۔ سلام خان کا پسندیدہ موضوع جمالیات ہے۔ پہاڑوں کے بیچ ایک ریگستان میں بیٹھ کر جمالیات پر چاند ماری کا تجربہ بہت دلچسپ رہا۔ ہماری جمالیات کیا اور کمالیات کیا۔ جولوگ ان علوم پہ دسترس رکھتے ہیں کبھی اس ماحول میں بیٹھ کر گفتگو کریں۔ ایک بات کی کئی جہتیں ایک دوسرے کو پھلانگ کر آپ کی بارگاہِ سخن میں دوڑی چلی آئیں گی۔فیصلہ مشکل ہوجائے کہ کس کو امر کروں کس پہ صبر کروں۔ ایسی ہی جگہیں ہوتی ہیں جہاں کسی کے ہونے کی آرزو جاگتی ہے، کسی کے نہ ہونے پر خلش اٹھتی ہے۔

ہم واپس آکر گاڑی میں بیٹھے۔ ہمایوں خان نے گاڑی کا رخ سڑک کی جانب کرکے گاڑی بند کردی۔اپنی زین پیچھے کو کھینچی اور دراز ہوگئے۔ہم شیشے چڑھا کر خاموش بیٹھ گئے۔ شفق کی سرخی افق پر پھیل رہی تھی۔ سردی نقطہ انجماد کو چھونے لگی تھی۔سورج اپنی کرنوں کو سمیٹ کر پہاڑ کی چوٹی پر اتر چکا تھا ۔خاموشی تھی اور بلا کی خاموشی تھی۔سامنے ٹیلے پر سفید چادر لپیٹا ہوا ایک جوان کب سے اکیلا بیٹھا ہے۔پہلو بدلتا ہے نہ ہاتھ پیرہلاتا ہے۔ اس قدر ساکت کہ گماں ہونے لگا ہےتصویر کا۔اس منظر نے پراسرار خاموشی کو اور بھی گہرا کرکھا ہے۔ میرے بائیں چھ سات قدم کے فاصلے پر ایک چاک گریباں چرواہا کھڑا ہے۔ اس کی نگہبانی میں آٹھ بھیڑبکریاں ہیں جنہیں بھوک لگ رہی ہے۔ چرواہا چھڑی مار کر سوکھے درخت کے زرد پتے گرارہا ہے۔ اس کی ایک ضرب اور پھرگرتے پتوں کی سرسراہٹ۔ بس یہی ایک آواز ہے جو خاموشی کو توڑ رہی ہے ۔ سامنے اس ویران سڑک پر میں نے تین قسم کے لوگوں کو گزرتا دیکھا۔ تھکے ہارےمسافر، جو دور پار کے علاقوں سے مزدوری کرکے ویگنوں میں واپس آرہے تھے۔ جیسے پرندے بغیر چہچہائے آشیانوں کو لوٹ رہے تھے۔ چرواہے، جوپشتو گیت گاتے ہوئے اپنےمویشی ہنکارہے تھے۔ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والی بھیڑ بکریوں کو اپنی بتوڑی میں تنبیہ کررہے تھے۔ ڈسپلن جیسے قائم ہوجاتا ،چرواہے گیت کا سلسلہ وہیں سے جوڑتے جہاں سے ٹوٹا ہوتا۔ طالبان ، جوآہنی ون ٹو فائیو گھوڑوں اور نان کسٹم پیڈ پالکیوں میں افغان بارڈر کی طرف جارہے تھے۔ یہ کچھ آگے جاکرتوبہ کاکڑی میں کچھ دیرقیام کریں گے۔ساتھیوں کو سفر کا احوال سنائیں گے۔جو گھر والوں سے چھپ کر آئے، وہ اپنا اعزاز جتلائیں گے۔امیرِ لشکر سے رات بھر رہنمائی لیں گے۔ رات کے آخری پہردعائیں پڑھتے ہوئے افغانستان کی سرحد عبور کریں گے۔لوٹ آئے تو لوٹ آئے۔ ورنہ ان گمنام راہوں کی بے نام مٹی اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے سوجائیں گے۔ افغان نہیں رہے، کوہسار باقی!

مجھے لوٹنے والے چور چور بدن مزدوروں اور گیت گاتے ہوئے چرواہوں پہ بہت پیار آرہا تھا۔ ان سادہ لوح مجاہدین پر البتہ ہمیشہ کی طرح بہت ترس آرہا تھا۔ مزدور وں اور چرواہوں کے راستے بہت کٹھن سہی، مگر یہ راستے ان کے اپنے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم کہاں سے آرہے ہیں اور ہم نے کہاں جانا ہے۔ ان قابل ترس مجاہدین کو تو یہ بھی خبر نہیں کہ جن راستوں پہ یہ اپنی بدمست موٹرسائیکلیں دوڑا رہے ہیں، یہ راستے ان کے اپنے نہیں ہیں۔ اور یہ راستے وہاں نہیں جارہے جہاں کی ان کو خبر دی گئی ہے۔وہ بھیڑ بکریاں قابل رشک ہیں جنہیں چرواہوں نے درست راہ پر ڈالا ہوا ہے۔ یہ انسان قابل ترس ہیں جنہیں ڈالنے والوں نے بے سمت رستوں پہ ڈال رکھا ہے۔انجامِ کار ایک دکھ ہے جو ان کی معصوم ماوں نے جھیلنا ہے۔ ایک درد ہے جو ان کے بچوں نے سہنا ہے۔ایک کرب ہے جس سے قوم کو گزرنا ہے۔ دور پہاڑوں کی خاموشیوں میں سورج ڈوب رہا تھا۔ شام کی سرگوشیوں میں دل ڈوب رہا تھا۔ دیہات کے بزرگ لہجوں میں اذانوں کی افسردہ لہر یں پہاڑیوں سے ٹکرانے لگی تھیں۔کبھی تیز لہرسماعتوں سے ٹکراکر تیزی سے واپس ہوتی اور دور کہیں گم ہوجاتی۔ایک کے بعد ایک کرکے ساری آوازیں تھم گئیں تو آسمان نے ستاروں بھری سیاہ چادر اوڑھ لی۔ا ب صرف جلتے ہوئے تنوروں سے اٹھتے ہوئے دھویں کی خوشبو تھی اور نماز مغرب کے لیے جاتے ہوئے بزرگوں کے قدموں کی مسحور کن آہٹ۔ سلام خان کی آواز آتی ہے کہ اب چلنا چاہیئے۔ ہمایوں خان زین کستے ہیں اور ایڑ لگاتے ہیں۔چلیے، اب بزرگ سیاسی کارکن کے پاس چلتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).