سوات میں دو ہزار سال پرانے فن پارے دریافت، فریسکو آرٹ کے اس خطے میں ایجاد ہونے کا امکان


پاکستان میں آثار قدیمہ کی دریافت میں سِکّے، برتن اور دیگر اشیا تو اکثر مل جاتی ہیں لیکن پینٹنگز کا دریافت ہونا نایاب ہے۔ لیکن حال ہی میں پاکستان میں بدھ مت کے دور کی پینٹنگز دریافت ہوئی ہیں جو ماہرین کے مطابق دو ہزار سال قدیم ہیں۔

یہ پینٹنگز فریسکو آرٹ میں بنائی گئی ہیں اور یہ دریافت ایک انتہائی بڑی کامیابی تصور کی جا رہی ہے۔ فریسکو آرٹ کا آغاز کیسے ہوا، اس بارے میں کوئی واضح تحقیق موجود نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ فریسکو اطالوی زبان کا لفظ ہے اور فریسکو پینٹنگز کا آغاز اٹلی میں تیرھویں صدی عیسوی میں ہوا یعنی آج سے تقریباً سات سو سال قبل ہوا تھا۔

اس بارے میں مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فریسکو آرٹ 3300 قبل عیسوی یعنی زمانہ قدیم میں پایا جاتا ہے لیکن اس کی کوئی پینٹنگز کا ذکر سامنے نہیں آیا۔

فریسکو آرٹ

اب پاکستان میں بدھ مت کی حالیہ دریافت میں ایسے نایاب فن پارے ملے ہیں جو تقریباً دو ہزار سال قدیم ہیں۔ اس دریافت کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ فریسکو آرٹ کا آغاز اس خطے میں بدھ مت کے دور میں ہو چکا تھا جبکہ مصر میں زمانہ قدیم میں اس فن کے آثار پائے جاتے تھے۔

پاکستان میں خیبر پختونخوا کے علاقے سوات کے قریب عباس چینہ میں بدھ مت دور کا ایک بڑا کمپلیکس دریافت ہوا ہے یعنی یہ تخت بھائی کی طرح ایک بڑا علاقہ ہے جہاں پر متعدد ایسے آثار ملے ہیں جو دو ہزار سال قدیم ہیں۔

محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر عبدالصمد خان نے بی بی سی کو خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ پینٹنگز یا ان فن پاروں کی دریافت ایک بڑی کامیابی ہے اور اس سے اب بدھ مت کے دور کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس دور میں بھی اس طرح کی ٹیکنیکس استعمال کی جاتی تھیں۔

فریسکو آرٹ

نئی دریافت کیا ہے؟

ماہرین کے مطابق یوں تو بدھ مت کے اس کمپلیکس سے چار بڑے سٹوپا، مونیسٹی یعنی بادشاہت کے دور کے حصے، دیگر نوادرات اور ایسے سِکّے ملے ہیں جو پہلی صدی عیسوی کے ہیں۔

اس میں ایک اہم دریافت دوہری منزل والی عمارت یعنی ڈبل سٹوری عمارت بھی ملی ہے۔ اس مقام پر اب تک صرف چالیس فیصد کھدائی کی گئی ہے اور امید یہ کی جارہی ہے کہ یہاں سے مزید اہم دریافت بھی ممکن ہیں۔

عبدالصمد خان نے بتایا کہ محکمہ آثار قدیمہ نے ایک ماہ پہلے یہاں کھدائی کا عمل شروع کیا تھا۔

فریسکو آرٹ کیا ہے؟

پینٹنگز بنانے میں مختلف ٹیکنیکس استعمال کی جاتی ہیں۔ عبدالصمد خان نے بتایا کہ فریسکو بونو، فریسکو سیکو اور ٹیپمرا ٹیکینک یہ تین مختلف اقسام کی پینٹنگز ہیں اور اس میں گیلی یعنی تر سطح پر پینٹنگز بنائی جاتی ہے اور اس میں سیاہی جذب ہوجاتی ہے اور اس میں مستقل ہوجاتی ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹر کی دو مختلف تہیں قائم کی جاتی ہیں اور انھیں خشک ہونے دیا جاتا ہے جس کے بعد عکس کے خدو خال تراش لیے جاتے ہیں۔ اس پر پھر پینٹ یا رنگ کے ساتھ اس کو ایک شکل دی جاتی ہے۔

معروف آرٹسٹ عجب خان نے بی بی سی کو بتایا کہ فریسکو آرٹ انتہای قدیم فن ہے اور آج بھی پاکستان اور انڈیا میں یہ کام مختلف مساجد اور دیگر اہم عمارتوں میں کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں عکس کو کندہ کر کے رنگ کو ایمبوس کیا جاتا ہے اور یہ پینٹنگز پائیدار ہوتی ہیں جو لمبے عرصے تک قائم رہتی ہیں۔

فریسکو آرٹ

دریافت پینٹنگز کیسی ہیں؟

عبدالصمد خان نے بتایا کہ تین پینٹنگز دریافت ہوئی ہیں جن کی لمبائی اور چوڑائی چھ چھ انچ ہے۔ پینٹنگ کی حالت نہ تو بہت اچھی ہے اور نہ ہی بہت خراب ہے بلکہ اس کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ ان پینٹنگز میں بدھا کے دو مختلف ادوار کے عکس ہیں۔ ان میں ایک عکس بدھ استوا کا ہے اس کے مطلب بدھا کا وہ دور جب وہ عبادت کے ایک اہم دور سے گزر رہا تھا اور اس وقت تک بدھا مکمل نہیں ہوا تھا۔ دوسرا عکس بدھا کے مکمل ہونے کا جب عبادت اور ریاضت کے بعد بدھا کا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔

یہ پینٹنگز زیر زمین دریافت ہوئی ہیں اور ان کو انتہائی مہارت سے نکالا گیا ہے۔ عبدالصمد خان کے مطابق ان پینٹنگز کو محفوظ کر لیا گیا ہے اور اب ان کو سوات کے عجائب گھر میں ایسی جگہ رکھا جائے گا جہاں ہوا کا گزر نہ ہو۔

پاکستان میں خیبر پختونخوا کے بالائی علاقے گندھارا تہذیب کا مرکز رہا ہے اور یہاں خیبر پختونخوا میں تخت بھائی سمیت بدھ مت کی کوئی دو ہزار کے قریب ایسی قدیم آثار دریافت ہو چکی ہیں۔ ماضی میں یہ علاقے بدھ مت کی تعلیمات کا مرکز رہا تھا اور ماہرین کے مطابق دور دراز سے لوگ یہاں علم کے حصول کے لیے آتے تھے۔

عبدالصمد خان کے مطابق پاکستان کا یہ علاقہ وسطی ایشیا، چین ، اور دیگر ممالک سے منسلک تھا اور یہاں تعلیم کے بڑے ادارے قائم تھے۔ یہ علاقہ ماضی میں انتہائی ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے اور یہاں بدھ مت کے دور میں بادشاہت قائم تھی اس لیے یہ علاقے وسائل سے مالا مال تھے۔

فریسکو آرٹ

مذہبی سیاحت

پاکستان میں اب ان بدھ مت کے مقامات اور دیگر سیاحتی مراکز قائم کر کے مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جارہا ہے اور اسی سلسلے میں بدھ مت کے پیروکار سری لنکا اور کوریا سے پاکستان کے دورے کر چکے ہیں۔ اس کو مزید فروغ دینے کے لیے کائیٹ کے نام سے منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت مذہبی سیاحت اور دیگر حوالے سے خیبر پختونخوا میں سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں میں مزید سیاحتی مقامات بھی قائم کیے جا رہے ہیں جن میں منکیال (سوات)، مدکلاشٹ (چترال)، ٹھنڈیانی (ایبٹ آباد) اور مانسہرہ میں بین الاقوامی معیار کے سیاحتی مراکز کے علاوہ کمراٹ، بن شاہی، سکائی لینڈ ،لڑم ٹاپ، الائی، بٹگرام اور شانگلہ میں بھی سیاحتی مراکز قائم کئے جائینگے۔

خیبر پختونخوا میں محکمہ ثقافت آثار قدیمہ اور سیاحت کے ایک بیان کے مطابق صوبے میں کائیٹ پراجیکٹ کے تحت آثارقدیمہ کے 9 منفرد مقامات کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل بھمالہ خانپور، شاپولہ سٹوپہ اور جمرود قلعہ ڈسٹرکٹ خیبر،پشمال مسجد سوات، تاریخی کالام مسجد، اڈیگرام مسجد، ہنڈ میوزیم، چکدرہ میوزیم اورعجائب گھر مردان شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32602 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp