نفسیاتی مسائل توجہ پانے کی خاطر ایک ناٹک نہیں ہوتے



یہ سب تمہارا وہم ہے، پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، تم ضرورت سے زیادہ سوچتے ہویا خوش رہا کرو تم بہتر محسوس کرو گے۔ مرد بنو یوں بزدلوں کی طرح سے چھپ کے مت بیٹھو۔ تم اللہ سے دور ہو تبھی یہ سب ہو رہا ہے تمھارے ساتھ۔“ ۔ یہ سب باتیں کسی دل یا ذیابیطس کے مریض کو نہیں سننی پڑیں گی لیکن جب بھی نفسیاتی مسائل کی بات ہوتی ہے تو ہمارے معاشرے میں لوگ ایسے ہی عجیب و غریب مشورے دیتے ہیں۔ نفسیاتی مسائل کو جادو ٹونے کا اثر یا جن بھوت کا سایہ تک تصور کیا جاتا ہے۔

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں اگر کوئی شخص نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جائے تو پہلے لوگ یہ بات تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں کہ نفسیاتی مسائل جیسا کوئی مسئلہ اس شخص کو درپیش ہے اس شخص کو ہر ممکنہ دماغی اذیت دی جاتی ہے اور بارہا یہ سننے کو بھی ملا کرتا ہے کہ یہ شخص دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کہ لیے یہ ناٹک کر رہا ہے، اور اگر اس مسئلے کو سنجیدہ لیا بھی جائے تو اس مقصد کے لیے جعلی پیر فقیروں سے رجوع شروع کر دیا جاتا ہے۔

غریب معاشروں میں نفسیاتی اور دماغی علاج گاہیں بہت کم ہیں اگر ہیں بھی تو لوگوں کو شعور ہی نہیں ہے اور لوگ جن بھوتوں کے نام پر عملیات والے بابوں کے پاس جا کر جادو ٹونے کا علاج کروا کر مزید بیمار ہو جاتے ہیں۔ مرض جب طول پکڑ جاتا ہے تو مریض میں اکثر خودکشی کا رجحان بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں خودکشی کے بارے میں سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر اعداد و شمار موجود نہیں ہیں تاہم عالمی عالمی ادارہ صحت کے سنہ 2012 میں لگائے جانے والے تخمینے کے مطابق 13 ہزار پاکستانیوں نے خودکشی کی جبکہ 2016 میں یہ تعداد پانچ ہزار کے قریب رہی۔

ڈبلیو ایچ او کی 2014 میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ آٹھ لاکھ افراد خودکشی کر کے اپنی جان لیتے ہیں۔ خدارا اپنے آس پاس رہنے والوں ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کریں۔ تاکہ ہم اپنے پیاروں کو ذہنی اذیت سے چھٹکارا دلا سکیں۔ ہمارے یہاں سائنسی بنیادوں کی بجائے مذہبی عقائد کا غلبہ ہے جہاں پر ایسے مریضوں کی نگہداشت کا ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے۔ تشدد، محبت کی کمی، ذہنی اذیت، انصاف کی کمی، قانون کی عدم فراہمی، غربت، جبر اور ذلت آمیزی انسانوں کو ذہنی امراض کا شکار بنا رہی ہے۔

میرا سوال معاشرے کے ان پڑھے لکھے جاہلوں سے ہے کہ وہ باقی بیماریوں کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اس کا علاج بھی کرواتے ہیں تو اس طرح نفسیاتی مسائل کو سمجھنے اور اس کا علاج کروانے کے لیے غلط طریقہ علاج جیسے کہ جعلی پیر فقیروں سے کیوں رجوع کرتے ہیں، رجوع بھی تب کیا جاتا جب مرض شدت اختیار کر چکا ہو ورنہ تو بیماری کا ذمہ دار بھی مریض ازخود ہی ہے۔ یہ بات خاصی حیران کن ہے کہ کیوں شہر کی دیواریں بنگالی بابوں کے ناموں اور فون نمبروں سے بھری پڑی ہیں۔

کیا ریاست کا یہ کام نہیں کہ ایسے افراد کی سرکوبی کرے۔ ہم لوگ کیوں نفسیاتی بیماریوں کا تعلق انسان کے اچھے مسلمان ہونے یا نہ ہونے سے جوڑ دیتے ہیں۔ یہ ایک بیماری ہے اس کے لیے باقی بیماریوں کی طرح ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ بیشک اللہ کے ذکر سے دل کو سکون ملتا ہے مگر یہ دماغ کی بیماری ہے اس کے لیے مکمل تھیراپی کی ضرورت ہے۔ جسم کے دیگر حصوں کی طرح دماغ بھی ایک عضو ہے جس سے متعلق کسی بھی مرض کی تشخیص اور علاج ضروری ہے۔

اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ دماغی بیماریاں خود بخود ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ ہم آج بھی ان مسائل کے بارے میں بات کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔ اور سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ذہنی صحت کے بارے میں بھی حکومت کی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ سرکاری سطح پر ذہنی بیماریوں کے علاج کے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بلاشبہ پاکستان میں تعلیم اور صحت کبھی ترجیحات میں شامل ہوئی ہی نہیں رہے، جب کہ ذہنی صحت کے حوالے سے تو صورت حال تسلی بخش نہیں، لیکن حالیہ چند برسوں میں بالخصوص پچھلے ڈیڑھ دو سال میں نفسیاتی امراض میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

اکیسویں صدی میں بھی ایسے متعدد اعلی تعلیم یافتہ افراد کی کمی نہیں جو دل و دماغ میں پریشانیوں کا ایک الاؤ لیے پھرتے ہیں لیکن ماہر نفسیات کے پاس نہیں جاتے۔ انٹرنیشنل جرنل آف ایمرجنسی مینٹل ہیلتھ نے اپنے تازہ ترین جریدے میں جمع اعداد و شمار درج کیے ہیں ان کے مطابق پاکستان میں ڈیرہ سے دو کروڑ افراد کسی نہ کسی سنگین نفسیاتی مرض میں مبتلا ہیں، اگر عام ڈپریشن، مایوسی، پریشانی اور دیگر نفسیاتی کیفیات کو بھی شامل کر لیا جائے، تو یہ تعداد 5 کروڑ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔

جریدے کے مطابق پاکستان میں 34 %افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔ صوبوں کی درجہ بندی کے اعتبار سے سندھ میں یہ شرح 16 فیصد، بلوچستان میں 4 فیصد اور کے پی کے میں 5 فیصد اور پنجاب میں یہ شرح 8 فیصد ہے۔ شہروں کے دارالحکومت کی بات کی جائے تو لاہور ڈپریشن میں پہلے نمبر پر ہے، جب کہ کوئٹہ میں یہ شرح 44 فیصد اور کراچی میں یہ شرح 35 فیصد ہے۔ جہاں تک ان بیماریوں میں اضافے کا تعلق ہے تو انٹرنیشنل جرنل آف ایمرجنسی مینٹل ہیلتھ نے پاکستان کو ان ممالک میں سرفہرست قرار دیا ہے، جہاں دماغی اور نفسیاتی عوارض کا گراف مسلسل بلند ہو رہا ہے۔

بڑے ہسپتالوں میں شعبہ ذہنی و نفسیاتی صحت تو قائم ہیں نجی ہسپتالوں میں بھی یہ شعبے قائم کرنے چاہیے۔ معاشرے کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل کو سنجیدگی سے لے، محض لوگوں کو پاگل یا نفسیاتی کہہ دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ یہ تو مسائل میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ یہ مسائل ایک اٹل حقیقت ہیں، جب سے انسان وجود میں آیا ہے تب سے لوگوں کے مزاج میں عجیب و غریب تبدیلیاں اور لوگوں سے تعلقات میں خرابیاں وقوع پذیر ہوتی رہی ہیں جس کی وجہ سے آپس میں جھگڑے اور جنگیں بھی لڑی ہیں۔

معاشرے کو رویہ تبدیل کرنا ہو گا، لوگوں کو ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنا ہو گا اور ذہنی و نفسیاتی مسائل سے دوچار افراد کی آگے بڑھ کر مدد کرنی ہوگی تاکہ ایک صحت مند معاشرہ وجود میں آ سکے۔ ہمارے معاشرے میں ذہنی امراض کو رد کرنے کی سب سے اہم وجہ آگاہی کی کمی ہے۔ معاشرے کا غریب طبقہ، جو پیٹ میں روٹی، تن پر کپڑا اور سر پر چھت کی فکر سے باہر نہیں نکلتا، اس کے لیے ذہنی امراض کی کوئی آگاہی مہم نہیں ہے۔ دوسری طرف متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کچھ مریضوں کے اہلخانہ مختصر معلومات کی بنیاد پر سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔

وہاں علاج کے لیے ذہنی مریضوں کا رش لگا ہوتا ہے اور ڈاکٹر دوائیوں کی ایک طویل فہرست تھما دیتے ہیں۔ لیکن بیماری کی نوعیت کتنی سنگین ہے اور مریض کو کس قسم کا ماحول فراہم کرنا چاہیے؟ ایسی معلومات اور ٹریننگ کا فقدان ہے۔ پاکستان ایسوسی ایشن فار مینٹل ہیلتھ اور حکومت کے مشترکہ تعاون سے بڑے پیمانے پر ملک گیر آگاہی مہم کی ضرورت ہے، جس کی مدد سے علامات کی بنیاد پر اور مریضوں کے ابنارمل رویے کو دیکھ کر اہل خانہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور علاج کے لیے طبی ماہرین سے رجوع کریں۔

پاکستان میں اگرچہ صحت کا شعبہ اب صوبوں کے حوالے کیا جا چکا ہے مگر ابھی تک کسی بھی صوبے کی طرف سے ذہنی امراض کے علاج کے لیے کسی صوبے میں کوئی مینٹل ہیلتھ اتھارٹی قائم نہیں کی جا سکی اور نہ ہی کوئی مینٹل ہیلتھ ایکٹ پاس کیا گیا ہے۔ اس سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ حکومت اس مسئلے کو لے کر کس قدر سنجیدہ ہے۔ میں شعبہ صحت اور حکومت سے گزارش کرنا چاہوں گی کہ ذہنی صحت کی آگاہی، علاج تک رسائی بڑھانے کی کوشش کریں اور مناسب وسائل خرچ کرنے کو بنیادی ترجیحات میں شامل کرنا ہو گا تاکہ ہر ذہنی مرض میں مبتلا انسان بھرپور اور صحت مند زندگی گزار سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments