ظاہر جعفر کا پچھتاوا

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


نور مقدم کیس کی سماعت ہوتی ہے۔ گتھیاں سلجھتی ہیں، بات الجھتی ہے اور گرہ پہ گرہ پڑ کے گنجل در گنجل ایک ایسی کہانی نظر آتی ہے جس کا انت بظاہر سب کو نظر آرہا ہے لیکن فی الحال سب اسی خیال میں بیٹھے ہیں کہ شاید انصاف، شاید انصاف۔

عثمان مرزا کیس میں جو ڈرامائی موڑ آیا ہے اس سے ہمارے معاشرے کی بھیانک شکل، سٹیٹس کو کا ظالمانہ نظام، شریف آدمی کی کمزوری اور بدمعاش کی بد معاشی کھل کر سامنے آگئی ہے۔

یہ کھل کر سامنے آنا کا محاورہ بھی خوب ہے۔ عبارت چاہے جلی حروف میں لکھی جائے چاہے بارہ کے فونٹ میں، بات تو وہی ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وطن عزیز میں طاقتور بے جھجھک جرم کرتا ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ وہ سزا کے پھندے سے بہت آرام سے نکل جائے گا۔

قانون کے بارے میں ایک جملہ کبھی کان میں پڑا تھا کہ قانون ایک ایسا جال ہے جسے بڑی مچھلی توڑ کے نکل جاتی ہے اور چھوٹی مچھلی، اس میں پھنس جاتی ہے۔

اس قسم کے جملے سننے میں بہت ڈرامائی لگتے ہیں لیکن جب انسان اپنی عمر کی چوتھی دہائی میں کھڑا ہو اور یہ جملے حقیقت کی شکل میں اس کے چاروں طرف موجود ہوں تو ایک عجیب طرح کی مایوسی گھیر لیتی ہے۔

عثمان مرزا کیس میں شناخت سے منکر ہونے والے کسی انصاف کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک دنیا عدالت کے اندر ہے اور ایک دنیا اصل دنیا ہے۔ اصل دنیا میں طاقتور جب جرم کرتا ہے تو وہ غلطی تصور ہوتی ہے جسے نظر انداز کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے لیکن کمزور جب غلطی کرتا ہے تو وہ جرم ہوتا ہے ایک ایسا جرم جسے نظر انداز کرنے سے پورے معاشرے کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں۔

ایک عورت، ساری دنیا کے ساتھ دینے کے باوجود ملزم کو سزا نہیں دلوانا چاہتی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ یہ سزا وہ کسی کو نہیں بلکہ خود اپنے آپ اور اپنے خاندان کو دے گی۔

افسوس در افسوس تب ہوتا ہے جب ہر پیشی پہ ظاہر جعفر کبھی وہیل چیئر اور کبھی سٹریچر پہ عدالت میں حاضر ہوتا ہے۔ چکرایا ہوا عدالتی نظام مزید بھونچکا ہوتا ہے۔ دیکھنے والوں کو بہت دور تک کی تصویر نظر آرہی ہے۔

کیا ظاہر جعفر واقعی اس قدر بیمار اور ذہنی طور پہ منتشر ہے؟ اپنے چاروں طرف نظر ڈالیے، وہ تمام افراد جو اپنی طاقت کے زعم میں پھر رہے ہیں کبھی ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ تو آئے، ایسی ہی کیفیت طاری ہوتی ہے۔

ظاہر جعفر

نور مقدم کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر جسے عدالت پیشی کے موقع پر سٹریچر پر لایا گیا

یہاں بات امارت غربت سے زیادہ اس ذہنی کیفیت کی ہے جس میں پاکستانی مرد مبتلا ہے، جو مرنے کے بعد بھی نور کی جان بخشنے پہ تیار نہیں۔ مجھے عدالت میں ظاہر جعفر وہیل چیئر پہ بیٹھا یا سٹریچر پہ پڑا نظر نہیں آتا بلکہ یہ ہمارا سٹیٹس کو ہے، جسے جب مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے تو سو حیلے بہانوں سے بچ نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔

عثمان مرزا کا چہرہ ذہن سے محو ہو سکتا ہے تو کیا ظاہر کی مدد کو کوئی قانونی نکتہ نہیں آئے گا؟ نور کے والد کب تک پیروی کریں گے؟ آخر ایک دن تھک جائیں گے۔

یہ تھکے ہوئے لواحقین، یہ ہم جیسے منمناتے ہوئے ان کے حق میں بولنے والے، اور یہ قانونی نکتے، باریکیاں اور شقیں جن میں پھنسنے والے کبھی معاشرتی انصاف کی شکل نہیں دیکھ پاتے۔

ظاہر جعفر کے پچھتاوے سے اگر ایک بھی نوجوان کو یہ سبق مل جائے کہ کسی عورت کو قتل کرنے (انسان میں نے اس لیے نہیں لکھا کہ فی الحال ہمارے ہاں عورت اور انسان میں بہت فرق ہے) کے بعد اتنی آسانی سے بھاگا نہیں جا سکتا تو شاید یہ اندھا غصہ جو صرف مردوں کو ہی آتا ہے اور یہ جنون جو صرف مرد کے دماغ پہ ہی سوار ہوتا ہے، بہت حد تک قابو میں آجائے لیکن کیا وہ واقعی پچھتا رہا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments