سائنس کی دنیا اور اسے سمجھنے کے دعویدار


ہم میں سے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ سائنس کا کام صرف ایجادات کرنا ہے اور جس کو ہر شخص استعمال کر سکتا ہے۔ یہ بات کافی حد تک ٹھیک ہے لیکن پوری بات نہیں۔ سائنس کی اپنی دنیا ہے جس کو سمجھنا بہت ضروری ہے بغیر اس کو سمجھے کوئی بھی سائنسی فکر اور سوچ نہیں اپنا سکتا ہے۔ سائنس کا باطن فلسفہ سے نکلا ہے اور اس کی بنیاد قارون وسطی میں مذہب کے مقابل رکھی گئی ہے۔ سائنس کا لفظی مطلب ”علم“ ہے ایک ایسا علم یا عمل جو کہ مشاہدہ اور تجربہ کی بنیاد پر ہو اور جس کو بار بار تجربہ کرنے کے معد بھی جواب ایک جیسا آئے وہ سائنسی علم کہلاتا ہے۔

سائنس کا بنیادی مقصد ”جاننا“ ہے جو کہ مذہب کے مقابلے میں مختلف ہے جو کہ اپنی اساس ”ماننے“ یعنی ایمان پر رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس میں کوئی شے حتمی نہیں ہوتی بلکہ جدید طریقہ جات اور تحقیق پرانے نتائج کو غلط قرار دے سکتی ہے اس طرح سائنس ایک عمل کے ذریعے نئے نتائج نکالتی جاتی ہے۔ آج کا سچ کل کا جھوٹ ہو سکتا ہے۔ اس طرح سائنس، علم اس کو مانتی ہے جو قابل تصدیق ہو اس طرح سائنس نے پچھلی تمام بنیادی تعریفیں تبدیل کر دی ہیں جو کہ مشرق میں رہنے والے لوگوں کو اکثر سمجھ نہیں آتیں یہی وجہ ہے کہ سائنس پڑھنے کو باوجود مشرق میں سائنسی ایجادات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ سائنس کیونکہ مادی اشیاء کا علم ہے اس لیے یہ مذہب کے مقابل نہیں آتے کیونکہ مذہب کا مرکزی نقطہ غیر مادی یا میٹا فزکس ہے اس لیے آپ مذہب کے ساتھ ساتھ سائنس کو بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس سوچ میں سقم ہے کیونکہ سائنس بھی کئی غیر مادی نظریات بیان کرتی ہے مثال کے طور پر اس کائنات کے شروع ہونے کا نظریہ جس کو بیگ بینگ کہتے ہیں وہ ایک غیر مادی نظریہ ہے اور اس طرح نظریہ ارتقاء بھی غیر مادی نظریہ ہے۔ یہ دونوں نظریے بنیادی طور پر مذہب کے دیے ہوئے نظریات کو چیلنج کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح سائنس کئی دیگر نظریات کو بھی ٹکر دیتی نظر آتی ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سائنس اور مذہب اکٹھے چل سکتے ہیں وہ دراصل دو کشتیوں کے سوار لوگ ہوتے ہیں جو کہیں بھی نہیں پہنچ پاتے۔

سائنس نے نہ صرف ایک فکر دی ہے بلکہ ایک نیا معاشرتی نظام بھی دیا ہے جس میں شخص کو مرکزیت حاصل ہے۔ اس سے پہلے جو بھی نظام موجود تھے اس میں شخص کے مقابلے میں گروہ کو زیادہ اہمیت دی گئی تھی۔ فرد کی معاشرہ میں کوئی خاص اہمیت نہ تھی بلکہ گروہ کی اہمیت تھی اور گروہ فیصلہ کرتا تھا کہ فرد کیسے زندگی گزارے گا۔ اس نئے نظام نے جب شخصی آزادی کو اپنا مرکز بنایا وہاں اس آزادی کے تحفظ کے لیے بھی نظام بنایا جس کو ہم ”قومی ریاست“ کہتے ہیں۔

قومی ریاست کا کام فرد کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے بدلہ میں فرد اس کی چند باتیں مانیں گے اور یہ سب کچھ ریاست اور فرد کے درمیان ایک معاہدے کے تحت طے ہو گا۔ اس سے پہلے جو حکومت کام کرتی تھی وہ بادشاہت کی صورت میں تھی اور بادشاہ خود کو ”خدا کا نمائندہ“ مانتا تھا جس کا ہر حکم ماننا عوام پر فرض تھا اور وہ قانون تھا۔ جبکہ بادشاہ پر کوئی قانون لاگو نہ ہوتا کیونکہ وہ لوگوں کو جوابدہ نہ تھا اس لیے وہ اپنی مرضی سے جس طرح چاہے حکومت کرتا تھا۔

کیونکہ سائنس کی دنیا میں فرد کی اہمیت ہے اس لیے آپ کو خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتا ہے کیونکہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے جو ہر سہولت کے ہوتے ہوئے بھی دوسرے انسانوں کے بغیر زندگی نہیں جی سکتا اس لیے جب وہ تنہائی کا شکار ہوتا ہے تو کئی قسم کی نفسیاتی بیماریوں کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔ اس طرح سائنس نے اپنا معاشی نظام بھی دیا ہے جس کو ہم سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں۔ جس میں بینکوں کا نظام ہے نیا کاروبار کرنے کے مواقع ہیں۔

سود اس میں لیا جاتا ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام بغیر سود کے نہیں چل سکتا۔ ہر دور نے اپنا معاشی نظام دیا ہے ایک وقت تھا جب لوگ غلامی کا نظام چلاتے تھے پھر جاگیردارانہ نظام آیا جس میں زمینیں طاقت کا سرچشمہ تھیں لیکن سائنس نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور نئی جماعت پیدا کی جو سرمایہ دار کہلائے۔ سرمایہ دار کو سائنس نئی ٹیکنالوجی دیتی ہے جس کو وہ اشیاء بنا کر مارکیٹ میں بیچتے ہیں اور منافع کماتے ہیں یہ سارا نظام تحقیق اور سائنسی علوم میں پیش رفت کے بغیر نہیں چل سکتا۔

سائنس ہی وہ ایندھن ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کو چلا رہی ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس نہ صرف ایک فکر کا نام ہے بلکہ اس نے دنیا کو نیا معاشی، معاشرتی اور اخلاقی نظام بھی دیا ہے۔ مشرق میں ہم جب بھی سائنس کی بات کرتے ہیں تو ہم اس کو صرف اور صرف سائنسی ایجادات تک محدود کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے سائنس کو سمجھ لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments