مشال خان کا اصل ماتم تو اب شروع ہوا ہے


آج مشال خان کا ترکہ گھر پہنچا۔ اس سے پہلے 2 ماہ قبل صرف ایک نامزد ملزم کی نعش گھر آئی تھی۔ ماں باپ بہن بھائی کو یقین تھا کہ ان کا پیارا بےقصور ہے اور خون ناحق ہوا ہے۔ پھر بھی دماغ میں ایک سوال تھا اور سینے پر ایک بوجھ۔ مگر دل تھا کہ ماننتا ہی نہیں تھا کہ ان کا خون گندا بھی ہو سکتا ہے یا ان کی تربیت میں کوئی کمی رہ گئی تھی۔ گھر کی ٹوٹی ہوئی چارپائیاں بھی اس بات کی گواہ تھیں کہ بچوں کی تربیت پر حرام کا مال خرچ نہیں کیا گیا تھا۔ پھر بھی ایک بے یقینی تھی۔ اور اس بے یقینی نے ماں کو اپنے لخت جگر کے جسم سے لپٹ کر رونے بھی نا دیا۔ باپ نے گھر کی عورتوں کے سامنے لاشہ رکھنے سے قبل اس کو نہلایا کپڑے بدلے کہ اس کی یہ حالت دیکھ کر گھر میں ایک اور قیامت نا ٹوٹ پڑے۔ بہنوں نے بھی اپنے آنسو ضبط کئے اور چیخنے کی آوازیں سینے سے باہر نا آنے دیں۔ جب امام مسجد نے جنازہ پڑھانے سے انکار کیا تو بے چارے خاندان پر ساتواں آسمان بھی ٹوٹ کر آ گرا۔ تب مشال کے باپ نے جھولی اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور گڑگڑاتے ہوئے فریاد کی کہ اے اللہ مجھے یہ کس غلطی کی اتنی بڑی سزا مل رہی ہے؟ اس نے یہ بھی سوچا ہو گا کہ کاش زمین پھٹ جائے اور سارا کا سارا گاوں ہی زندہ دفن ہو جایے۔ انسانیت کے اس بدترین امتحان میں اس معاشرے کے چند دھتکارے ہوئے اٹھے اور نعرہ مستانہ بلند کر دیا۔ پھر جنازہ بھی ہوا اور بے گناہ بےگناہ مشال بے گناہ کے نعرے بھی لگے۔ مشال کی قبر بھی عام قبرستان میں نا بننے دی گئی۔ یہ بھی قدرت کا فیصلہ تھا۔ کیونکہ مشال عام تھا ہی نہیں اور اس کو تو وہ اعلی مقام مل گیا تھا جسے پانے کی آرزو ہر کوئی کرتا ہے مگر بولتا کوئی نہیں۔ اس کا تو ایک الگ مزار بننا تھا۔ جس سے پختون معاشرے میں جہالت کے در آتے ہوئے بھوت سے مقابلہ کرنے کی ایک نئی جدوجہد کا آغاز ہونا تھا۔ مجھے مشال کے بڑے بھائی کے وہ لفظ بھی اچھی طرح یاد ہیں۔” یہ اتنا بڑا مقام پائے گا اس کا ہم نے سوچا بھی نا تھا”

پھر جے آئی ٹی کی رپورٹ آئی تو سنا ہے کہ رپورٹ پڑھتے ہی مشال خان کا باپ دیوانہ وار اس کی قبر کی طرف دوڑا۔ 2 ماہ سے جو آنسو رکھے ہوئے تھے دریا بن کر بہہ نکلے۔ ماں کی چیخیں سارے زیدہ (گاوں) میں سنائی دیں اور بہنوں کے بین نے ہر پتھر دل کو بھی موم کر دیا۔ یہ رپورٹ صرف مشال کی بے گناہی نہیں تھی بلکہ ایک خاندان کی زندگی کا پروانہ بھی تھی۔

آج جب مشال کا سامان گھر پہنچا تو ماں نے لخت جگر کے کپڑوں سے لپٹ کر اس کی خوشبو کو سونگھا۔ کپڑے سینے سے لگا لگا کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔ اقبال صاحب نے ان کتابوں کی طرف دیکھا جو پاگل ہجوم کے ساتھ ان کے بیٹے کی موت کا سبب بنیں تھیں۔ پھر سب اشیاء کو قیمتی اثاثہ سمجھ کر سنبھال دیا۔

آج ہر آنکھ اشک بار ہے سوائے اس ایک قبیل کے جو صرف اور صرف معصوموں کے خون سے اپنے کاروبار کو دوام بخشتی ہے۔ دراصل اس قبیل کو پاک ہستیوں کی حرمت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی یہ خود ہی سب سے بڑے گستاخ ہیں۔ یہ گستاخی کا ڈرامہ کرتے ہیں تاکہ یہ سین پر موجود رہیں۔ یہ اصلی ڈریکولا ہیں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اگر ان کو کچھ عرصہ خون ناحق نا ملے تو ان کی موت واقع ہو جائے گی۔

آج وہ تمام جنہوں نے ایک معصوم پر بہتان لگائے اپنے اپنے حجروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ ان کے ہاں آج صف ماتم ہے کہ دکانداری کا ایک نادر موقع ہاتھ سے نکل گیا اور انوسٹمنٹ بھی بیکار گئی۔ اور اس سے بڑھ کر کاروباری ساکھ کو بھی نقصان پہنچا۔ یہ دراصل وہ لوگ ہیں جو اپنا مکروہ چہرہ جب آینے میں دیکھتے ہیں تو آئینہ ہی توڑ دیتے ہیں۔ اب بھلا آئینے کا اس میں کیا قصور اسی طرح جب کوئی آئینہ بن کر انہیں ان کی اصل شکل دیکھائے تو وہ ایسی جرات کرنے والوں کو نشان عبرت بنانے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ مشال کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس نے بھی کرپٹ اور جانور نما لوگوں کو آئینہ دکھانے کا جرم کیا تھا۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ قصور آئینے کا نہیں۔ آپ کی شکل ہی ایسی ہے۔ خدارا اب اس معاشرے میں مزید آئینے توڑنے کا رواج ختم کر کے مسخ شدہ شکلوں کو بہتر بنانے کا انتظام کیا جائے۔۔۔ ورنہ یہ معاشرہ خود اپنے ہاتھوں اپنا گلہ گھونٹ لے گا اور ہمارا ذکر بھی نا ہو گا داستانوں میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).