جعلی تصاویر سے روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ مزید خراب ہونے کا خدشہ


1971 میں بنگالی مکتی باہنی کی یہ تصویر سوشل میڈیا پر روہنگیا مسلمانوں کے لیے استعمال کی جا رہی ہے

جوناتھن ہیڈ۔ نامہ نگار جنوب مشرقی ایشیا۔

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی اکثریتی ریاست رخائن میں تشدد کے حالیہ واقعات کے بعد سوشل میڈیا پر گمراہ کن اور جعلی تصاویر کا انبار لگ گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے لگائی جانے والی بیشتر تصاویر نہ صرف کافی دہشت ناک اور مکروہ ہیں بلکہ وہ سرے سے اس علاقے کی ہیں ہی نہیں۔
روہنگیا مسلمان کئی دہائیوں سے میانمار میں کشمکش کا شکار ہیں جہاں ان کو ایذارسانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس مسئلے میں مزید دشواری کا اضافہ رخائن کی ریاست تک رسائی کی مشکلات کی وجہ سے ہے جہاں میانمار کی حکومت کی رٹ کے تحت غیر ملکی صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے جس کی وجہ سے مصدقہ اور آزادانہ معلومات حاصل کرنا بہت دشوار ہے۔
اب تک ملنے والی معلومات کے مطابق رخائن میں گذشتہ ہفتے عسکری پسند گروہ آراکان روہنگیا سیلویشن آرمی نے پولیس کی 25 مختلف چوکیوں پر حملہ کیا اور کچھ مقامات پر گاؤں میں موجود روہنگیا مسلمانوں نے اس گروہ کے ساتھ مل کر سیکورٹی حکام کے خلاف کاروائی میں حصہ لیا۔
دوسری جانب کئی واقعات میں سیکورٹی فورسز نے مسلح بدھ مت کے پیروکاروں کے ساتھ مل کر روہنگیا مسلمانوں کے گھروں کو جلانا شروع کر دیا اور وہاں کے رہائشیوں پر فائرنگ کی۔
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق ان پر تشدد واقعات کے بعد اب تک 40000 روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش نقل مکانی کر چکے ہیں۔

29 اگست کو ترکی کے نائب وزیر اعظم محمت سمسیک نے چار تصاویر ٹویٹ کیں جن میں انھوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مصائب کا ادراک کریں۔
ان کی ٹویٹ کو 1600 سے زیادہ دفعہ شیئر کیا گیا اور 1200 لوگوں نے اسے ‘لائک’ کیا لیکن ساتھ ساتھ انھیں ان تصاویر کی صداقت کے بارے میں کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
مسلسل تنقید کی وجہ سے تین دن بعد انھوں نے ٹویٹ حذف کر دی۔
ان کی ٹویٹ میں شامل تصاویر میں سے ایک تصویر کے بارے میں کہا گیا کہ وہ مئی 2008 میں آنے والے سمندری طوفان نرگس کی تصاویر ہیں جبکہ ایک اور تصویر بی بی سی کی تحقیق کے مطابق جون 2003 میں انڈونیشیا میں لی گئی تھی۔
محمت سمسیک شیئر کی گئی تیسری تصویر 1994 میں افریقی ملک روانڈا میں لی گئی تھی۔
ان حقائق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر سوشل میڈیا پر سخت بحث جاری ہے اور دونوں فریقین اپنی برتری کے لیے کوششیں کر رہے ہیں جن میں سے اکثر تصاویر قطعی غلط ہیں۔


مجھے بھیجے جانے والی ایک تصویر جس میں اسلحے سے لیس روہنگیا مسلمانوں کو دکھایا گیا تھا وہ تصویر درحقیقت 1971 میں بنگلہ دیش کے آزادی کی جنگ لڑنے والے رضاکاروں کی تھی

اس سال جب اقوام متحدہ کی نمائندہ ٹیم نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے تحقیق کی تو اپنی رپورٹ میں انھوں نے اپنی لی ہوئی تصاویر کے علاوہ کسی اور ذرائع کی تصویریں استعمال نہیں کی کیونکہ ان تصاویر کی تصدیق کرنا نہایت مشکل ثابت ہو رہا تھا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ‘دونوں فریقین کی جانب سے سفاکی کی مظاہرہ کیا گیا’ ہے لیکن انھوں نے رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی نوعیت کہیں زیادہ سنگین ہے۔
لیکن رخائن میں غیر جانبدار ذرائع کو آزادانہ رسائی نہ ہونے کی وجہ سے حالات کی درست تصویر لینا بہت مشکل ہے اور سوشل میڈیا پر جاری پروپاگینڈا سے اس مسئلے کا حل ملنے کے بجائے معاملہ مزید خراب ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32559 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp