کیا لاہور میں پینے کا پانی ختم ہو رہا ہے؟


پاکستان زیرِ زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے جہاں کی 60 سے 70 فیصد آبادی بالواسطہ یا بلا واسطہ ضروریاتِ زندگی کے لیے اسی پانی پر انحصار کرتی ہے۔

تاہم تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ اور موسمی تبدیلیوں کے باعث بارشوں میں سالانہ کمی کی وجہ سے پانی کا یہ ذخیرہ تیزی سے سکڑ رہا ہے۔

ماہرینِ آبپاشی اور زراعت کے مطابق پاکستان کے گنجان آباد اور زرعی پیداوار کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کو بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

خدشہ یہ ہے کہ صوبہ پنجاب کے مرکز اور ایک کروڑ سے زائد آبادی والے شہر لاہور میں پینے کا صاف پانی محض اگلے دس برس میں ختم ہو سکتا ہے۔

پانی کی قلت کے بارے میں مزید پڑھیے

بلوچستان: گوادر میں پانی کی شدید قلت

کھربوں روپے مالیت کا پانی ضائع

دنیا کے بڑے شہر جو پانی کی کمی کا شکار ہیں

کیا وسطی ایشیا میں پانی پر جنگ ہوگی؟

پنجاب اریگیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ یعنی زرعی استعمال کے پانی کے تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر غلام ذاکر سیال نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر زیرِ زمین پانی کو بچانے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے دس برس میں لاہور شہر میں پینے کا صاف پانی ختم ہو سکتا ہے۔

‘لاہور میں زیرِ زمین پانی کی سطح سالانہ اوسطاٌ اڑھائی فٹ نیچے جا رہی ہے۔ کئ مقامات پر پانی کی سطح 100 فٹ سے بھی نیچے جا چکی ہے جو کہ قدرتی حد سے کم ہے اور یہ پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔’

پینے کے قابل پانی حاصل کرنے کے لیے زمین میں پانچ سے سات سو فٹ تک بورنگ یا کھدائی کی جا رہی ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی صرف 1000 فٹ تک موجود ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صوبہ پنجاب میں پانی کے انتظامات کی ذمہ دار واٹر اینڈ سینیٹیشن ایجنسی یعنی واسا کے مینیجنگ ڈائریکٹر زاہد عزیز مانتے ہیں کہ زیرِ زمین پانی کا ذخیرہ سکڑ رہا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کے پیشِ نظر حکومت منصوبہ بندی کر چکی ہے۔

’لاہور میں نہر پر پانی کو صاف کر کے استعمال کرنے کا ایک پلانٹ لگایا جائے گا جو تین سال میں مکمل ہو جائے گا۔ اس سے روزانہ 100 کیوسک پانی نکالا جائے گا جبکہ ہمارا ہدف سنہ 2035 تک اس کو 1000 کیوسک تک لے کر جانا ہے۔‘

ان اقدامات کا مقصد زیرِ زمین پانی پر انحصار کو کم کرنا ہے۔ زاہد عزیز کا ماننا ہے کہ اس کے لیے حکومت اور عوام کو مل کر کام کرنا ہو گا۔

لاہور

خدشہ یہ ہے کہ لاہور میں پینے کا صاف پانی محض اگلے دس برس میں ختم ہو سکتا ہے

پانی گیا کدھر؟

زیرِ زمین پانی لاہور کو پانی کی فراہمی کا واحد ذریعہ ہے۔ پنجاب کے زراعت کے تحقیقاتی ادارے کی ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق واسا نے 150 سے 200 میٹر کی گہرائی پر 480 ٹیوب ویل لگا رکھے ہیں جو روزانہ 1170 کیوسک پینے کا پانی نکال رہے ہیں۔

رپورٹ میں جن بنیادی وجوہات کی نشاندہی کی گئ ہے جو زیرِ زمین پانی کی کمی کا سبب بن رہی ہیں ان میں بنیادی مسئلہ حد سے زیادہ پانی پمپ کیا جانا ہے۔

اس کے علاوہ دریائے راوی میں پانی کی روانی میں کمی اور نکاسی کے پانی کی ذریعے صاف پانی میں آلودگی کی ملاوٹ اور زیرِ زمین ذخیرے کی بحالی نہ ہونا بڑی وجوہات ہیں۔

پنجاب اریگیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر غلام ذاکر سیال کہتے ہیں کہ ‘ہمارا پانی کا بجٹ منفی میں ہے یعنی ہم جتنا پانی زمین سے نکال رہے ہیں اتنا واپس نہیں جا رہا۔’

واسا کے 1100 سے زائد کیوسک پانی کے علاوہ نجی ہاؤسنگ سکیموں میں لگے ٹیوب ویل روزانہ 100 کیوسک اور صنعتیں 375 کیوسک پانی نکال رہی ہیں۔ اس طرح لاہور میں زمین سے نکالے جانے والا پانی روزانہ اوسط مقدار 1645 کیوسک سے زائد ہے۔

زمین کے نیچے موجود پانی کا ذخیرہ جسے ایکوی فائیر بھی کہتے ہیں دراصل ایک پیالے کی مانند ہے۔ ہم جتنا پانی اس پیالے سے نکالتے ہیں، اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ اتنا ہی پانی اس میں واپس بھی جائے لیکن لاہور میں ایسا نہیں ہو رہا۔

پینے کا پانی کہاں سے ملتا ہے؟

لاہور

پنجاب اریگیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے اہلکار پانی کی کوالٹی

گو کہ لاہور میں زیرِ زمین پانی کا ذخیرہ محدود نہیں ہے یعنی اس میں پانی مختلف جگہ سے بھی آتا رہتا ہے مگر اس کے باوجود یہاں پانی کی سطح 100 فٹ سے نیچے چلی گئی ہے اور آلودگی کی وجہ سے یہ پانی پینے کے قابل نہیں رہا ہے۔

غلام ذاکر سیال کہتے ہیں کہ ‘اس کا مطلب یہ ہے کہ 100 فٹ پر جا کر پانی تو مل جاتا ہے مگر یہ پانی صاف نہیں۔ اس لیے صاف پانی حاصل کرنے کے لیے مزید گہرائی میں جانا پڑتا ہے۔ کئی مقامات پر لاہور میں 600 سے 700 فٹ تک بورنگ کی جا رہی ہے تب جا کر صاف پانی ملتا ہے۔’

پانی کا زیرِ زمین ذخیرہ محض 1000 فٹ گہرا ہے یعنی اس سے نیچے پانی موجود نہیں ہے۔ تاہم جس قدر کھدائی بڑھائی جائے گی اتنا زیادہ پانی میں آرسینک یعنی سنکھیا ملنے کا خطرہ ہے۔

سنکھیا وہ مضرِ صحت معدنیات ہے جو پتھروں کی تہہ پر پہلے سے موجود ہے۔ جب کھدائی کی جاتی ہے اور اس سے زیرِ زمین پانی میں حرکت پیدا ہوتی ہے جو سنکھیے کو پتھروں کی سطح سے پانی میں شامل کر دیتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ 700 فٹ سے زیادہ گہرائی میں کھدائی کرنے کی صورت میں پانی آلودہ ہو گا اور پینے کے قابل نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا ماننا ہے کہ پینے کا صاف پانی لاہور کے پاس کم رہ گیا ہے۔

غلام ذاکر سیال نے مزید کہا کہ زیرِ زمین پانی کے ذخیرے کو بحال کرنے کے لیے سب سے بڑا ذریعہ دریائے راوی تھا مگر اس میں گزشتہ کئی دہائیوں سے پانی بتدریج کم ہوا ہے۔

‘اس کے علاوہ تین بڑے نکاسی کے ڈرین دریا میں گرتے ہیں جن کے باعث پانی میں ہر قسم کی ٹھوس اور مایہ آلودگی شامل ہوتی ہے جو گھروں اور صنعتوں سے نکلتی ہے۔ جب یہ پانی زیرِ زمین جاتا ہے تو صاف پانی کی اوپری سطح کو آلودہ کرتا ہے۔ اس طرح وہ پینے کے قابل نہیں رہتا۔’

غلام ذاکر سیال کے مطابق جتنی آلودگی زیادہ ہوگی اتنی گہرائی میں پہنچے گی اور نتیجتاً بورنگ زیادہ گہری کرنی پڑے گی تا کہ صاف پانی تک پہنچا جا سکے۔

لاہور

کئی سالوں سے لاہور میں دریائے راوی میں پانی کی سطح کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی مقدار گھٹ رہی ہے

دس برس زیادہ دور نہیں؟

لاہور کے رہائشی ابھی سے ہی ان مسائل کا سامنا کر رہے ہیں جو آنے والے وقت میں مزید گمبھیر ہو سکتے ہیں۔

لاہور کا علاقہ جو عین دریائے راوی کے کنارے آباد ہے وہاں کی رہائشی نسرین اختر نے بی بی سی کو بتایا کہ دیگر گھروں کی طرح انہوں نے بھی موٹر نصب کر رکھی ہے جس کی مدد سے وہ پانی بنیادی سپلائی لائن سے اپنے گھر تک پہنچاتی ہیں۔

‘اس کے باوجود بھی پانی کچن تک نہیں پہنچتا۔ یہاں سے بالٹیوں میں بھر کے گھر کے دوسرے حصوں تک لے کر جانا پڑتا ہے۔’

ان کے پڑوسی ظفر اقبال کو پانی کے استعمال کے لیے باقاعدگی سے ایک معمول بنانا پڑا۔

‘صبح جب بچوں نے سکول جانا ہوتا ہے تو بس قطار میں لگ جاتے ہیں منہ ہاتھ دھونے کے لیے، ورنہ دیر ہوئی تو پانی گیا۔’

ان کے گھر کے دوسری مالے تک پانی پہنچتا ہی نہیں۔ ‘جمعے کے روز تو پانی آتا ہی نہیں ہے۔ غالباٌ اس لیے کہ اس دن لوگ پانی زیادہ استعمال کرتے ہیں۔’

شاہدرہ ہی کی رہائشی شہناز کہتی ہیں کہ پانی جب آتا ہے تو بعض اوقات بہت گندہ ہوتا ہے۔ ‘بالٹیوں اور ٹبوں کے حساب سے ضائع کرنا پڑتا ہے تب جا کر کچھ صاف پانی ملتا ہے۔’ وہ کہتی ہیں کبھی تو پانی دو دو روز تک نہیں آتا اور پینے کے لیے انہیں فلٹریشن پلانٹ سےپانی بھروانا پڑتا ہے ورنہ سپلائی کا پانی ابال کر استعمال کرنا پڑتا ہے۔

غلام سرور نے بی بی سی کو بتایا چند مخیر حضرات نے ان کے علاقے میں بورنگ کروا رکھی ہے۔ ‘لیکن 500 فٹ تک بورنگ کرنا پڑتی ہے تب جا کر پانی لیبارٹری سے پاس ہوتا ہے کہ یہ پینے کے قابل ہے۔’

لاہور

شہری روز مرہ کی زندگی کے لیے مضر صحت پانی استعمال کرنے کے لیے مجبور ہیں

حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے؟

واسا کے مینیجنگ ڈائریکٹر زاہد عزیز نے بی بی سی کو بتایا کہ پانی کی کمی کے پیشِ نظر حکومت نے جو منصوبہ بندی کی ہے اس کے مطابق نہر پر پانی فلٹر کرنے کا پلانٹ لگایا جائے گا جس کے لیے فنڈز بھی منظور ہو چکے ہیں اور اس پر جلد کام شروع کر دیا جائے گا۔

‘منصوبہ یہ ہے کہ ایسے ذرائع پیدا کیے جائیں جن سے زیرِ زمین پانی پر اکتفا کم کیا جا سکے۔ ہمارا ارادہ ہے کہ لاہور کی ضرورت کا 1000 کیوسک پانی ان ذرائع سے حاصل کیا جائے۔ یہ سنہ 2035 تک ممکن ہو پائے گا تاہم ا س سے قبل مختلف مراحل میں منصوبہ جات مکمل کر لیے جائیں گے۔’

دوسری جانب زاہد عزیز کا کہنا تھا کہ لاہور میں فی فرد پانی کی فراہمی موجودہ 70 گیلن روزانہ ہے جو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔

‘اب ہمارا ارادہ یہ ہے کہ گھروں میں میٹر لگائے جائیں اور اس کو 40 گیلن تک لایا جائے۔’

انھوں نے بتایا کہ اس وقت پانی کے سات لاکھ کنکشن ہیں جن میں پچاس ہزار پر میٹر لگائے جا چکے ہیں۔ اور ہدف ہے کہ آئندہ تین برس میں تمام کنکشنز پر میٹر نصب ہو جائیں۔

‘اس کے بعد ہم ایسا طریقہ کار اپنائیں گے کہ جس حساب سے لوگ پانی استعمال کریں اس حساب سے بل بھیجا جائے اور جو پانی کم استعمال کرے اس کو مراعات بھی دی جائیں۔’

زاہد عزیز کا کہنا تھا کہ نہر منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ دوسرے حصے میں دریائے راوی پر ایک ڈیم تعمیر کیا جائے گا جس میں پانی لا کر چھوڑا جائے گا۔ ‘اس ڈیم سے ہم مزید 900 کیوسک پانی نکالیں گے جو ہماری روزانہ کی ضروریات کو پورا کرے گا۔’

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانی کے استعمال میں احتیاط برتنی ہو گی تاکہ پانی کے ذخیرے کو آئندہ نسلوں کے لیے بھی بچایا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32603 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp